(Last Updated On: )
شہ رگ پر ہلکا سا دباؤ ہی کافی تھا۔ نگوڑی تو اوپر ہی چڑھ بیٹھی تھی بغاوت بھی عجیب تھی وجود کو دو چار جھٹکے لگے اور تندرست جسم نے آنکھیں ڈفارنہ شروع کر دیں ابتدائے آفرینش سے نہ کبھی ایسے ہوا نہ سنا مت ماری گئی بات کسی کے پلے نہ پڑی۔ پڑتی بھی کیسے۔ ایک وقت وہ تھا کہ من مرضی کا برتن بنایا کمہار کی طرح الٹے سیدھے ہاتھ چلائے اچھا برا جیسا بنا بس نگ پورا کیا اور اسے اتار دیا برتن میں۔پاؤں کے ناخنوں سے سر کے بالوں تک ہر انگ عجیب مٹی کا تھوبا گوبرتھوپتی مائی کی مانند بغیر ہچکچاہٹ تھوپ دیا۔ کون سی کل ٹیڑھی کونسی سیدھی نہ رنگ نہ روپ ابڑ توس عقل تو ا س کے سامنے ہر پل سڑانڈ اڑ اتے باسی لوتھڑے میں دھڑکتی تھی۔ ماٹی تو ماٹی ٹھہری۔۔ ہمک چھوڑتی تعفن اڑاتی جس کے اندر ہر وقت غلاظت کے ڈھیر چرخی پر چڑھے چکراتے رہتے۔۔دل دھک دھک بجتا۔ کس جرم کی سزا پائی۔ بنانے والے کی سوچ کے صدقے۔ یہیں اس کی باری آئی اتار دیا برتن میں ساری حیاتی بھوگتی رہی جھانکتی آنکھوں کی نفرت۔ کہنے کو اتنی سی بات پر سوچو تو کلیجہ منہ کو آئے کہاں یہ سا لہا سال کا غضب ناک عذاب‘ قید تنہائی۔ سب ہوتا خاموشی سے دیکھو‘ساعت در ساعت جیو۔ اپنا کچھ نہ اپنے بس میں کچھ‘ اندر ہی اندر لاوے کی طرح پکتے اور بہتے رہو دوسروں کے کیے گناہوں کی آگ میں جلو برتن کیا ایک تابوت تھا بند ذرا روشنی نہیں کہیں سے بھولے بھٹکے کوئی کرن اگر اندر چلی بھی آتی تو اندھے کی مانند دو چار قدم پہ ڈھ جاتی۔ایسا کیا پاپ کیا کون بتاتا۔ ایک آیا ایک گیا ایک سوراخ‘ زندگی ساڑو یا گزارو سانپ کی موری سے گزرو اور پھر کسی روز معاملہ ختم‘نگوڑی جدا برتن جدا۔ اللہ اللہ خیر صلہ قبر کی لیپا پوتی دم درود‘ برتن کرچی کرچی‘ ناپائیداری‘ جان کا روگ تو کو ن میں کون پر یہاں معاملہ دوجا تھا۔جس روز نگوڑی نے بغاوت کی وہیں سے ا س کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔
ذرا سی آنکھ بھینچنے کی دیر تھی۔ برتن بج اٹھا۔۔ تریلیاں آنے لگیں مدتوں سے چرخیوں پر چڑھا غلاظت کا ڈھیر پور پور بہنے لگا۔ شہ رگ پر ہلکا سا دباؤ ہی کافی تھا نگوڑی تو اوپر ہی چڑھ بیٹھی تھی برتن کو ایسے لگا جیسے روڈ رولر کے نیچے دب گئی ہو۔ وجود کا انکار تو سارے فساد کی جڑ تھا لیکن یہ حرکت۔۔ زندگی تھی بھی کیا اعضاء کا باہمی ربط بس بگڑا تو سب غارت۔۔ میٹا بولزم۔ چرخی چڑھی غلاظت میں تغیر۔۔ بوند بوند زندگی ٹپکنے لگی اور آخر زندگی کا سار ہ ست بہہ گیا اس شام فٖضا ابر آلود تھی جب برتن کو اندھیروں میں اتارہ گیا۔ ذرا روشنی نہیں‘ روزن نہیں مٹی در مٹی۔۔ ہاں اب مزا آئے گا۔۔ جو بویا وہ کاٹا۔۔ پہلے وہ چلاتی تھی کوئی سنتا نہیں تھا اب برتن بجے گا وہ سنے گی۔غلاظت کے ڈھیر پر ہی بیٹھنا ہے بیٹھوں گی لیکن تیرے پران بھی نہ نکلنے دوں گی۔
برتن کے لئے بذات خود یہ صورت حال حیران کن تھی جو پہلے ہی سے پیلا پڑ چکا تھا اور شہ رگ سے وزن کھسکنے پر آہستہ آہستہ سرخی پکڑنے لگا تھا لیکن جسے ہی اسے حقیقت کا ادراک ہوا کہ گھر کو آگ لگی گھر کے چراغ سے تو د وبارہ سے پیلا پڑنا واجب تھا۔ اس مصیبت سے کیسے چھٹکارہ پایا جائے۔ اس نے اپنے وجود کی ساری طاقت اپنے اردگرد موجود آہٹوں کو محسوس کر نے میں جھونک دی اس کا وجود کفن میں لپٹا ہوا تھا جیسے تیسے اس نے گانٹھوں سے چھٹکارہ پایا اور دیواروں اور چھت کا چھو کر ادراک کیا اور خود کو ایک انتہائی ڈرونی صورت حال میں پایا۔یہاں تک برتن کو یا دتھا وہ تو کبھی مراہی نہیں تھا تو یہاں کیسے پہنچ گیا۔ اس سوچ کے بعدسب سے پہلا خیال مدد کے لئے پکارنے ہی کا تھا لیکن پہلی چیخ تھوک سے لبریزحلق میں اٹک کر رہ گئی اور قبرکی دیواروں سے ٹکرا کر بھسم ہو گئی برتن کر بھی کیا سکتا تھا؟ وہ ایک پھیکی اور دبی ہوئی سی آواز تھی—ایسی آواز جیسی کسی چھوٹے سے کنکر کے پانی میں گرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ برتن کا سانس پھولنے لگا—پھر اس نے پوری طاقت آواز پیدا کرنے میں صرف کر دی۔ ایک کے بعددوسری چیخ پھر مزید شدت سے؛ لیکن کوئی سنتا کیوں نہیں۔ بے بسی سے آنسوبرتن کے کناروں کو بھگونے لگے اچانک ایک جدا گانہ خوف نے و جود کو گھیر لیا۔ کیا وہ کوئی سانپ تھا چوہا یا بچھو۔ کیا وہ ایک زندہ وجود کی دعوت اڑائیں گے یہ خیال ہی اتنا وحشت ناک اور ڈرونا تھا کہ اس کی چیخیں غیر ارادی طور پر حلق سے برساتی پرنالے کی مانند بہنے لگیں شور آہستہ آہستہ بڑھتا گیا۔کوئی مجھے اس مشکل سے چھٹکارہ دلائے۔ کوئی سن کیوں نہیں رہا؟۔ اے خدایا! میں کیا کروں؟ برتن کے منہ سے جھاگ نکلنے لگے اور ہذیانی کیفیت میں، وہ جانے کسے گالیاں دینے لگا۔غیر محسوس آہٹیں اندھیرے میں اس کے اردگرد بڑھنے لگیں تھیں۔ یہ حواس کا دھوکا ہے صرف، لیکن اب واضح سرسراہٹیں سنی جاسکتی تھیں۔ تیز، انتہائی تیز! تبھی کوئی کھردری شے اس کے کفن میں گھس آئی اور اس کے بدن کو نوچنے لگی وہ اتنی بلند آواز سے چلایا کہ اس کی آواز نے خود اس کے کانوں پرمنفی اثر کیا اسے لگا جیسے اس کے کانوں سے لہو بہنے لگا ہو، خود کو بے بس پا کر اس کا دماغ سن ہونے لگا اور حرام مغز سے خوف کے بلبلے ایسے پھوٹنے لگے جیسے گرم راب سے گیس کی تبخیر ہوتی ہے پھر اس سے جو ہو سکتا تھا اس نے کیا اس کوشش میں اس کے ناخن چھت کی سلائیڈ اور دیواروں کی اینٹوں نے چھین لئے۔ گھنٹہ دو گھنٹہ کی اس کارگزاری نے اندھیروں کے متولی کو اپنی جانب متوجہ کر لیا وہ کچھ دیر مٹی کے ڈھیر کو گھورنے کے بعدبھا گا بھاگا گاؤں پہنچا اور ساری روداد بیان کی۔ مردہ برتن کیسے بجا کوئی یقین کرنے کو تیار نہ تھا۔
”دماغ چل گیا ہے تیرا“
”نہیں جی مولوی صاب۔۔قسم خدا کی میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے جی۔ برتن بج رہا تھا۔۔ آپ بھی اگر غور سے سنیں گے اندر کی آواز۔۔ ڈاڈھی ڈونگی تو سب واضع ہو جائے گا وہ جیوت ہے جی۔ چلا رہا ہے مدد کے لئے جی کہ مجھے اس عذاب سے رہائی دلاؤ۔
نگوڑی کا رچایا یہ کھیل رسیلا تھا۔ ساری مٹی کھسکائی گئی۔ کھسکتی ہوئی ماٹی کی سرسڑاہٹ نے برتن کے بدن میں ہلچل پیدا کر دی ایک انوکھے خیال نے جو ایک طرح کی آخری امید تھی اسے دوبارہ سے چلانے پر مجبور کر دیا۔ یقینا اب وہ اس ناگہانی مصیبت سے چھٹکا رہ پانے کے قریب تر تھا۔لیکن جیسے جیسے رہائی کی ساعت قریب آرہی تھی ایک انجانا سا دباؤ اس کی شہ رگ پر بڑھنے لگا تھا۔جو بڑھتے بڑھتے آخراس کی ریڈھ کی ہڈی میں سرایت کر گیا پھر اچانک راب سے اٹھنے والے بلبلے غائب اورہتھوڑی کی ٹھک ٹھک تھم گئی۔غلاظت کے ڈھیر چرخی پر چکرا تے چکراتے ایک دم ساکت ہو گئے۔اب برتن بھی اسی خاموشی سے سب کچھ ہوتا دیکھ رہا تھا جیسے نگوڑی دیکھ رہی تھی۔ سب نے باری باری اندر جھانکا خوف اور دہشت سے سب کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے۔ برتن کے ناخن لہو لہان‘ کانوں سے لہو اور بے ترتیب کفن میں کچھ اندیکھی بلائیں سرسرا رہی تھیں۔ مولوی نے ہمت دکھائی اور قبر میں نیچے تک جھک گیا برتن سر د تھا اور زندگی کی ننھی سی رمق بھی وہاں موجود نہ تھی۔پھر لمحوں میں فیصلہ ہو گیا او ر سلائیڈ رکھ کر مٹی ڈالے جانے کی آوازیں بھی اٹھنے لگیں جن میں ایک طرح کی تیزی اور خوف غالب تھا اسی وقت برتن کے منہ سے کراہنے کی آواز دوبارہ سے اٹھی نگوڑی کو علم تھا کہ یہ آواز کسی انسان کے حلق سے ماسوائے دہشت کے نہیں نکل سکتی۔ یہ کراہٹ فقط لبوں سے نہیں ٹپکی تھی بلکہ ایک ایسی دبی دبی بے بس آواز تھی، جو تب ابھرتی ہے جب کسی کی روح کی گہرائی تک خوف اتر جائے وہ خود بھی اس آواز سے بخوبی آگاہ تھی۔ ابتدا میں جب اسے اس برتن میں اتارا گیا تھا تو متعدد بار تاریک راتوں میں، خود اس کے غیر مرئی وجود کی گہرائی سے بھی ایسی ہی آوازیں ابھر ا کرتی تھیں اس کے لئے یہ آواز خوفناک بازگشت کی مانند تھی وہ جان سکتی تھی کہ برتن اس لمحے کیا محسوس کر رہا تھاوہ اندر ہی اندر دبی دبی ہنسی ہنسنے لگی تھی۔جیسے ہی لوگ دور جائیں گے اسے علم تھا کہ برتن کیا محسوس کر ے گا یقینا اس کا خوف وقت کے ساتھ بڑھتا جا ئے گا۔ پہلے پہل وہ خود کو توجیہات فراہم کرے گا '' سب اچھا ہے یہاں میرے علاوہ کوئی نہیں۔ وہ واپس لوٹ آئیں گے۔ مجھے کاٹنے والی کوئی بلا نہیں بس حوا س کا دھوکا ہے وہ خود کو ان توجیہات سے وقتی طور پر بہلائے گا بعد ازاں ہر طرف سے مایوس ہوکر موت کو گلے لگانا چاہے گا تاکہ ایک لمبی نیند۔ خوف اور وقت سے آزاد نیند لے سکے لیکن وہ اسے کبھی مرنے نہیں دے گی ایسا سوچتے ہوئے وہ سیاہ لبادہ اوڑھے چپکے سے اس کی شہ رگ کے قریب تر ہو گئی۔
اگلے کئی دن تک اس کی قبر پر عرق گلاب کا چھڑکاؤ کیا جاتا رہا اور اگربتیوں کی خوشبو سے سارہ قبرستان مہک اٹھا لیکن اس قبر سے اٹھنے والی آہٹیں اپنے انجام کو نہ پہنچیں۔وہ مرانہیں ایک طرح سے زندہ ہی ہے اور اپنی حالت زار کے بارے میں ہر وقت سوچتا رہتا ہے وہ اپنی روح کے دبا ؤ کو بھی پہچاننے لگا ہے اور اس کی وجہ کو بھی لیکن اب کچھ نہیں ہو سکتا وہ کافی تیز سر ہلاتے ہوئے‘ ہاتھوں کے اشاروں سے اور شور مچا کر جو طریقہ بھی ممکن تھا ہر لمحے اسے آزماتا رہتا ہے تاکہ اس مشکل سے رہائی پا سکے اس نے رینگتے ہوئے سانپوں بچھیوں کو اپنے منہ اور آنکھوں کے گڑھوں میں داخل ہوتے اور خارج ہوتے بارہا دیکھا ہے لیکن شور کے باوجود وہ وہاں سے دفع ہونے کا نام نہیں لیتے جیسے یہ ان کا ابدی گھر ہو۔۔اوپر بھیڑ بکریوں‘ چرواہوں اور کھیل کود میں مصروف بچوں کی آوازیں اس کی آخری امید ہیں۔ ابھی اس ڈرونے خواب کو ایک پہر ہی گزرا ہے اے خدا! میں کیا کروں؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ انہوں نے میری آواز سن لی ہو؟ او روہ مدد کے لئے بس آنے ہی والے ہوں – مجھے ضرور یا تو بہت بلند آواز سے مدد کے لئے چیخنا چاہیے یا پھر خاموشی سے لیٹ جانا چاہیے ایسے جیسے میں مر چکا ہوں! اور جو کچھ بھی ڈرونا ہو رہا ہے وہ صرف ایک خواب ہے۔
مشکل یہ ہے کہ مدت سے نگوڑی بھی وہیں بیٹھی ہوئی ہے وہ وہاں سے کھسکنے کا نام نہیں لیتی اس ایک پہر مدت یا عرصے کو دنوں مہینوں سالوں یا صدیوں میں نہیں مانپا جا سکتا یہ اس سے کہیں بڑھ کر طویل ہے اور جسے اب تک معلوم ریاضیاتی عداد کی کوئی بھی ترتیب اپنے حصار میں لینے سے قاصر ہے یوں اس کہانی کا انجام بیان کرنا راوی کے بس میں نہیں اور یہ بھی سنا گیا ہے کہ نگوڑٰ ی کے دیکھا دیکھی باقی ہم جولیاں بھی ان برتنوں کے خلاف بغاوت کے لئے کمر بستہ ہو چکی ہیں جواپنے اندر کی آوازیں نہیں سنتے۔ براچھیں چیر ے قہقہے پہ قہقہہ اٹھا ئے بے خوف و خطر۔