(Last Updated On: )
پاک بھارت جنگ 1965 کے ویٹرنز میں ایک میجر سعید ٹوانہ بھی تھے جنہیں "ستارہ جرات ود بار" یعنی دو مرتبہ ستارہ جرات ملا تھا۔ انہوں نے سن 65 کی جنگ سے کچھ عرصہ قبل ہی ریٹائرمنٹ لی تھی لیکن مئی کے مہینے میں رن اَو کچھ کی لڑائی کے بعد انہیں احساس ہونے لگا کہ پاک بھارت جنگ ناگزیر ہے۔ ان دنوں وہ بہاول پور میں اپنی زرعی زمین پر ہی مقیم تھے۔ اگست کے آخر میں انہوں نے اپنے درزی کو سیاہ کپڑے کے تین چار اوورآل (جو ٹینک کریو پہنتے ہیں) بنانے کا کہہ دیا تھا۔ جب چھ ستمبر کو جنگ کا اعلان ہو گیا تو انہوں نے اپنا سامان پیک کیا اور سوٹ کیس ملازم کو دے کر ریلوے سٹیشن بھجوا دیا کہ لاہور جانے والی پہلی دستیاب ٹرین کا ٹکٹ لے کر سٹیشن ماسٹر کواطلاع کر دے کہ میجر صاحب نے ڈیوٹی پر جانا ہے۔ جب ٹوانہ صاحب سٹیشن پر پہنچے تو ٹرین بھی آنے ہی والی تھی۔ پلیٹ فارم پر ان کی ملاقات مولوی عبدالقادر آزاد سے ہو گئی جو بعد ازاں بادشاہی مسجد لاہور کے خطیب مقرر ہوئے۔ عبدالقادر آزاد نے ٹوانہ سے پوچھا کہ میجر صاحب کہاں کی تیاری ہے؟ ٹوانہ صاحب نے جواب دیا کہ جنگ کا اعلان ہو چکا ہے، حال ہی میں ریٹائر ہونے والے فوجیوں کو کال آنی ہی ہے، سو میں نے سرکاری خط کے انتظار میں وقت ضائع کرنے کے بجائے، یونٹ میں رپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس لیے لاہور جا رہا ہوں۔ مولوی نے یہ سن کر میجر صاحب کی بہت تعریف کی اور انہیں جہاد کی اہمیت اور مجاہد کی فضیلت پر چند آیات و احادیث بھی سنائیں۔ اسی دوران ٹرین پلیٹ فارم پر آگئی۔ میجر صاحب کو شرارت سوجھی، انہوں نے بوگی میں سوار ہو کر ہاتھ مصافحے کے لیے آگے بڑھایا اور عبدالقادر کا ہاتھ تھام کر کہا:
مولوی صاحب جہاد تو ہر مسلمان پر فرض ہے۔ آپ ماشاء اللہ جوان اور صحتمند ہیں، آپ بھی میرے ساتھ چلیے اور جہاد کا ثواب حاصل کیجیے۔
یہ سن کر مولوی کا تو رنگ فق ہو گیا۔ اس نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا:
میجر صاحب جنگ لڑنا تو آپ فوجیوں کا کام ہے، میں محاذ پر کیا کروں گا؟
ٹوانہ صاحب نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا اور جواب دیا:
محاذ پر بہت کام ہوتے ہیں ۔۔۔۔ آپ بھی کوئی کام اپنے ذمے لے لیجیے گا۔ بس آپ میرے ساتھ چلیے۔
اسی دوران ٹرین کی سیٹی بج گئی اور پہیوں میں حرکت شروع ہوگئی۔ عبدالقادر آزاد نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی لیکن ٹوانہ صاحب نے اس کے ہاتھ کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے رکھا تھا اور وہ بیچارہ ٹرین کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ آخر کار مولوی "روون ہاکا" ہو گیا اور گڑگڑا کر بولا:
میجر ساب تہانوں اللہ دا واسطہ جے ۔۔۔۔۔۔ مینوں چھڈ دیو ۔۔۔۔۔ میں نئیں جہاد تے جانا ۔۔۔۔۔ میں تہاڈے لئی دعا کراں گا۔
میجر صاحب نے ایک قہقہہ لگایا اور مولوی آزاد کو آزاد کر دیا ۔۔۔۔۔
ٹرین نے ابھی پلیٹ فارم بھی نہیں چھوڑا تھا کہ عبدالقادر آزاد بھاگتے ہوئے، ریلوے سٹیشن کا بیرونی دروازہ کراس چکا تھا۔
(میجر سعید ٹوانہ مرحوم کے ساتھ فروری 1995 کے دوران میری گفتگو کا ایک ٹکڑا)