ایک وقت تھا جب بادشاہت دنیا میں سب سے عام نظام تھا لیکن یہ طریقہ حکومت اب ختم ہو رہا ہے۔ اب دنیا میں صرف گیارہ ممالک ایسے بچے ہیں جہاں پر اصل حکومت بادشاہ کی ہے۔ جس ملک سے بھی یہ نظام ختم ہوا، وہاں واپس نہیں آیا۔ ایک ملک جس میں اسے دوبارہ شروع کیا گیا، وہ سنٹرل افریقن ری پبلک تھا۔ یہ تصویر وہاں کے بادشاہ بوکاسا کی ہے جو پہلے فوجی مارشل لاء کے ذریعے اقتدار میں آئے، پھر صدارت سنبھالی اور پھر اپنے آپ کو ترقی دے کر بادشاہ بنا لیا۔ یہ تصویر ان کے بادشاہ بننے کی تقریب سے ہے جو 4 دسمبر 1977 میں منعقد ہوئی۔
یہ ایک انتہائی شاندار تقریب تھی جس میں دنیا بھر سے 2500 مہمان بلائے گئے۔ ان کی مہمان داری کے لئے نئے ہوٹل تعمیر ہوئے۔ شہر کو رنگ کیا گیا۔ سڑکیں صاف ہوئیں۔ تقریب میں شرکت کے لئے خاص ڈریس کوڈ تھا جس کو بنانے کے لئے ملک کی ٹیکسٹائل کی صنعت مصروف رہی۔ بادشاہ کے لئے تاج، تلوار اور دوسری جیولری کا خرچ پانچ ملین ڈالر تھا۔ چھ گھنٹے کی تقریب میں تین کروڑ ڈالر کا خرچ آیا جو ملک کے کل بجٹ کا ایک چوتھائی تھا۔
اس تقریب نے ملک کو دیوالیہ کر دیا۔ دنیا میں عام طور پر دنیا میں غصے کا اظہار کیا گیا۔ امریکہ نے اپنی امداد روک لی۔ یورپ اور افریقہ کے اخباروں میں اس کا مذاق اڑایا گیا۔
یہ بادشاہت دو سال چلی۔ بوکاسا ہمیشہ سے اپنے ظلم و ستم کی وجہ سے مشہور رہے تھے۔ لیکن اس اونٹ کی کمر پر آخری تنکا بچوں کا قتلِ عام تھا۔ ان کی بیوی کی سکول یونی فارم تیار کرنے کی فیکٹری تھی اور ان سے یونی فارم خریدنا سب کے لئے لازم تھا۔ ایک سکول کے بچوں نے مہنگے سکول یونی فارم پر احتجاجا یونی فارم پہننے سے انکار کر دیا۔ اس کے نتیجے میں بچوں پر ہونے والے فائرنگ میں سو بچے ہلاک ہوئے اور بہت سے گرفتار۔ اس کے بعد 21 ستمبر 1979 کو فرانس نے حملہ کر کے ان سے پچھلے حکمران ڈیوڈ ڈاکو کی حکومت بحال کی۔ ان کو ملک بدر ہونا پڑا۔ سات سال ملک بدری میں گزارے جس میں اپنی کتاب لکھی اور پنشن کم ہونے کا شکوہ کیا۔ ان کا گزارا پنشن پر ہی نہیں تھا۔ بیرونِ ملک کئی جائیدادیں خرید چکے تھے جس سے آنے والے کرائے سے یہ گزر بسر کرتے تھے۔ لیکن بادشاہت چھن جانا کا قلق ان کو ہمیشہ رہا۔
ان پر بننے والے مقدمات میں غداری، قتل، کرپشن، قبضے کے علاوہ آدم خوری بھی تھا۔ انہوں نے اپنے وکیل فرانس سے بلوائے۔ آدم خوری کے علاوہ تمام الزامات ثابت ہونے پر سزائے موت ہوئی جو پھر عمر قید میں بدل گئی۔ نئی حکومت آنے کے بعد ان کو معافی مل گئی۔ 3 نومبر 1996 میں دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہوا۔ سوگواران میں انہوں نے 17 بیویاں اور 50 بچے چھوڑے۔ سنٹرل افریقن ری پبلک کے موجودہ صدر فرانسس بو عزیزی نے 2010 میں ان پر مقدمات کو غلط قرار دیا اور اب ان کو ملک کے مشکل دور میں سب کو اکٹھا رکھنے والے محب الوطن حکمران کے طور پر جانا جاتا ہے۔ لیکن ان کا بادشاہت کا تجربہ زیادہ عرصہ کامیاب نہیں رہا تھا۔