بچہ ہی تو تھا!
پچیس تیس سال کی عمر‘ عمر ہی کیا ہے! بچے سے قتل ہو گیا اور پولیس والے پکڑ کر لے گئے۔ ماں‘ دادی اور نانی نے پولیس کو ہزار ہزار بد دعائیں اور کوسنے دئیے۔ جو مارا گیا اُس کی تقدیر ہی یہی تھی! بچے کا تو محض بہانہ بن گیا۔ جاگیرداروں‘ سرداروں‘ چودھریوں اور خانوں کے بیٹے اور پوتے جب مزارعوں اور ہاریوں کی خواتین سے’’کھیلتے‘‘ ہیں تو اُس پر بھی یوں ہی واویلا مچا دیا جاتا ہے۔۔۔۔ اس عمر کے بچے ’’کھیل کود‘‘ نہ کریں تو آخر کیا کریں! قصور میں جب بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی ویڈیو کا سکینڈل منظرعام پر آیا تو ایک فریادی عورت کو بااثر خاندان کے فرد نے یہی تو سمجھایا کہ جو سلوک ہم تمہارے ساتھ کرتے رہے ہیں‘ تمہارے بچوں کے ساتھ ہوگیا ہے تو کون سی قیامت برپا ہو گئی ہے؟
اب یہ جو بچی سے چند ڈالر پکڑے گئے ہیں تو گویا آسمان گر پڑا ہے۔ ایان علی کی عمر ہی کیا ہے؟ اس پر مقدمہ چلانے والوں اور اُسے سزا دینے کی خواہش کرنے والوں کو کم از کم اُس ستر سالہ بڑے میاں سے ضرور سبق سیکھنا چاہیے جو عدالت کے باہر پھول لے کر کھڑا تھا۔ کتنی محبت اور عقیدت سے بڑے میاں نے وہ پھول ایان علی کو پیش کیے تھے۔ اس کے علاوہ بھی خیرخواہوں کی تعداد کم نہ تھی۔ ہجوم عاشقاں گھنٹوں پہلے پہنچ جاتا تھا! الیکٹرانک میڈیا نے بھی عدالت میں ایان علی کی آمد و رفت کو میک اپ کی کمپنیوں کا اشتہار بنا دیا۔ کبھی کیمرہ بالوں کی آرائش پر پڑتا‘ کبھی تازہ فیشن کے دھوپ کے چشمے پر اور کبھی لباس پر جو ہر بار الگ سٹائل کا ہوتا!
اب یہ جو ڈاکٹر عاصم علی کو پکڑ لیا گیا ہے تو یہ کیا حماقت ہے! وہ بادشاہ کے مصاحب تھے۔ اللہ کے بندو! اپنی تاریخ کو کیوں جھٹلاتے ہو۔ روایات آدھی اپناتے ہو اور آدھی رد کرتے ہو۔ عجیب منافقت ہے! خلجیوں‘ لودھیوں‘ تغلقوں‘ مغلوں کے اقتدار کا موروثی سلسلہ اپناتے ہو۔ بادشاہت دل و جان سے قبول کرتے ہو۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اُس کی صاحبزادی کو پارٹی کا بادشاہ بناتے ہو‘ پھر بی بی کے میاں کو‘ پھر میاں کی بہنوں کو‘ پھر صاحبزادے کو۔ وفاق بڑے بھائی کو اور صوبہ چھوٹے بھائی کو دیتے ہو‘ پارٹی میں سربراہ کے بھتیجے کو، دو بڑے میاں صاحبان کے بعد پہلی پوزیشن دیتے ہو۔ مفتی صاحب پردہ فرماتے ہیں تو مولانا فضل الرحمن کو جماعت کا بادشاہ بناتے ہو۔ ولی خان کے بعد پارٹی بیگم صاحبہ پھر فرزند ارجمند چلاتے ہیں‘ چیف منسٹر اُن کے خاندان سے بنتا ہے اور کراچی برانچ کی سربراہی بھی خاندان ہی میں رہتی ہے۔ جب یہ سب کچھ کر رہے ہو تو پھر بادشاہی کے تقاضے بھی پورے کرو! عقل کے اندھو! بادشاہوں کو پکڑا نہیں کرتے۔ فقط کارناموں کی تعریف کرتے ہیں! بندوں کو مروانا‘ دولت جمع کرنا‘ حسینائوں کے سروں پر محبت بھرا ہاتھ رکھنا‘ مصاحبوں کو کھلی چُھٹی دینا، ان سب کا بادشاہت کے ساتھ چولی دامن کا تعلق ہے۔ نیویارک کے مہنگے اپارٹمنٹوں‘ لندن کی جائدادوں، جدہ کے کارخانوں اور دبئی کے محلات پر ناک بھوں چڑھاتے ہو۔ 1206ء میں تمہارا پہلا بادشاہ دلی کے تخت پر بیٹھا اور 1857ء میں آخری بادشاہ دلی سے رخصت ہوا۔ کیا ان چھ سو اکاون برسوں میں کسی نے کسی بادشاہ سے کچھ پوچھنے کی جرأت کی؟ کیا محلات نہیں بنے؟ تاج محل اور لال قلعہ بنانے پر جو دولت صرف ہوئی کیا شہنشاہ ظہیر الدین بابر کابل سے ساتھ لائے تھے؟ کیا تخت طائوس بنوانے کے لیے ظل الٰہی نے ہل چلایا تھا یا دکانداری کی تھی؟ یا کوئی اور کمائی تھی؟ مغل سلطنت جب عروج پر تھی اور سکہ دکن سے لے کر کشمیر تک اور بنگال سے لے کر افغانستان تک چلتا تھا تو پورے برصغیر کی کل آمدنی کا ایک چوتھائی صرف پانچ ساڑھے پانچ سو افراد کے تصرف میں تھا۔ آج پورے ملک کی آمدنی کا تین چوتھائی اگر چند شاہی خاندانوں کے ہاتھ میں ہے تو پیٹ میں قولنج کا درد کیوں اُٹھ رہا ہے اور مرگی کے دورے کیوں پڑ رہے ہیں؟ کیا تم عوام نے ’’سیاسی‘‘ جماعتیں ان خانوادوں کے حوالے خود نہیں کیں؟ اگر ایسا کیا ہے اور یقیناً ایسا ہی کیا ہے تو اب بادشاہی کے باقی آداب بھی بجا لائو!
اور کیا صرف اسی معصوم بچی نے یہ گناہ کیا ہے؟ سوشل میڈیا پر اُن مردوں کے نام اور تصویریں سب کُھلی پڑی ہیں جو سیروں کے حساب سے سونا باہر لے جاتے رہے ہیں اور لے جا رہے ہیں! ڈاکٹر عاصم جس جُرم میں پکڑا گیا ہے‘ وہ تو پورے ملک میں ہو رہا ہے۔ کیا لاہور اور اسلام آباد کے ترقیاتی اداروں میں دیانت کا بول بالا ہو رہا ہے؟ تھانوں اور کچہریوں میں سارا دن سورت یاسین کی تلاوت ہوتی ہے؟ اور چپڑاسی سے لے کر کمشنر تک اور پٹواری سے لے کر تحصیلدار تک سب مشکوٰۃ شریف کا سبق پڑھتے اور پڑھاتے ہیں؟
اور یہ جو تیرہ چودہ انسان ماڈل ٹائون میں قتل ہو گئے توکون سا سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگیا؟ کیا پہلے بندے اس طرح نہیں مرتے تھے؟ سلاطین دہلی کے محلات کے دروازوں پر لاشیں ایک ایک ماہ لٹکی رہتی تھیں۔ ابن بطوطہ ملتان سے دہلی روانہ ہوا تو راستے میں دیکھا کہ بادشاہ کے حکم سے دو زندہ مجرموں کی کھالیں اتاری جا رہی تھیں۔ طریقہ یہ تھا کہ گڑھا کھودا ہوا تھا، مجرم کو الٹا یوں لٹایا جاتا تھا کہ مُنہ اور ناک کے نیچے گڑھا ہو تاکہ سانس لینے میں دقت نہ ہو۔ ابن بطوطہ بتاتا ہے کہ جس کی کھال اتاری جا رہی تھی وہ بار بار جلّاد کی منت کرتا تھا کہ اُسے ایک ہی بار تلوار سے ختم کر دے مگر جلّاد ایسا کرتا تو اُس کی اپنی کھال اتروائی جاتی! کیا بھٹو صاحب کے دور میں بندے نہیں مرے؟ تو اب اگر ایسا ہو گیا تو کون سی انہونی ہو گئی؟ اور یہ بندے تو کسی حکمران نے مروائے بھی نہیں۔ یہ تو پولیس والوں نے مارے۔ آخر پولیس والوں کا ان مقتولوں سے جائداد کا خاندانی جھگڑا جو چل رہا تھا!
منافقت چھوڑ دو! خاندانوں کی بادشاہت قائم کی ہے اور بادشاہت کے ان پودوں کو پانی دے رہے ہو تو اُن کاموں پر نہ چِلّائو جو بادشاہ اور ان کے خاندان کیا کرتے ہیں۔ اور اگر ایان علی اور ڈاکٹر عاصم کو پکڑا ہے تو پھر بہادر بنو‘ شیر بنو‘ ساری ایانوں کو اور سارے ڈاکٹر عاصموں کو پکڑو! سارے جرائم صرف اُن علاقوں میں تو نہیں ہو رہے جو جیکب آباد اور کندھ کوٹ کے جنوب میں واقع ہیں ؎
دو رنگی چھوڑ دے‘ یک رنگ ہو جا
سراسر موم ہو یا سنگ ہو جا!
اسلام میں تو پورے کے پورے تم داخل نہ ہو سکے‘ اب کم از کم خاندانی آمریت میں تو پورے کے پورے داخل ہو جائو! یوں بھی جمہوریت کے نام پر تُم ایک بدنما داغ ہی تو ہو! ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا‘ جی جناب اور یس سر کہنا تمہاری سرشت میں ہے۔ اگر پارٹی کا سربراہ دن کو رات کہے تو تُم کہتے ہو جناب وہ دیکھیں ستارے چمک رہے ہیں اور وہ دیکھیں چاند دمک رہا ہے! تُم وزیر بن جائو یا سینیٹ کے چیئرمین یا اسمبلی کے سپیکر، فرمانبرداری تُم بلاول یا حمزہ شہباز ہی کی کرتے ہو۔ فیصل آباد کا بزرگ سیاستدان کہتا ہے کہ اُس کے حریف نے اٹھارہ قتل کیے ہیں لیکن شاہی خاندان کی رعایا بن کر پارٹی کے اندر تو دونوں نے زندگی گزارنی ہے!
اسلام سے نفاق برت رہے ہو‘ جمہوریت کے مُنہ پر طمانچے مار رہے ہو‘ اللہ کے بندو! بادشاہی نظام سے تو وفا کر جائو!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔