بادشاہ کو خوفناک مرض لاحق تھا۔ بچنے کی امید کم ہی تھی۔ حاذق حکما کا پورا گروہ سر جوڑ کر بیٹھا۔ آج کل کے زمانے میں اسے ڈاکٹروں کا بورڈ کہا جاتا ہے۔ متفقہ رائے یہ تھی کہ جس شخص میں چند خاص صفات ہوں‘ اس کے جگر سے دوا بنائی جائے۔ اس کے علاوہ اور کوئی علاج کارگر نہ ہوگا۔ وزیراعظم کو وہ صفات بتائی گئیں۔ جاسوس سلطنت کے اطراف و اکناف میں پھیل گئے۔ ایک غریب کسان کے بیٹے میں یہ خاص صفات موجود پائی گئیں۔ اسے پکڑ کر لے آئے۔ بادشاہ نے لاکھوں روپے ماں باپ کو دیے تو وہ خاموش ہو گئے۔ گویا رضامندی کا اظہار کر دیا۔ قاضی نے ’’مفاد عامہ‘‘ کے پیش نظر فتویٰ دیا کہ سلطنت کی بقا اور لوگوں کی فلاح کے لیے ایک شخص کی قربانی جائز ہے۔ جلاد لڑکے کو قتل کرنے لگا تو لڑکے نے آسمان کی طرف دیکھا اور ہنس پڑا۔ بادشاہ نے جلاد کو روک دیا اور لڑکے سے پوچھا کہ تلوار تمہاری شہ رگ پر پڑنے والی ہے اور تم ہنس رہے ہو۔ آخر کیوں؟ لڑکے نے جواب دیا کہ بچے کے ناز اس کے ماں باپ اٹھاتے ہیں۔ وہ میرے قتل پر دولت کی خاطر خاموش ہو گئے ہیں۔ مقدمہ قاضی کی عدالت میں لے جایا جاتا ہے۔ قاضی نے پہلے ہی میرے قتل کو جائز قرار دے دیا ہے۔ انصاف‘ بادشاہ سے مانگتے ہیں، وہ اپنی صحت کی خاطر خود ہی میری جان کا طلب گار ہے۔ اب صرف خدا کی ذات ہے جو مجھے بچا سکتی ہے۔ جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے، اس کا سوچا اور آسمان کی طرف دیکھ کر ہنسی آ گئی۔
سعدی کی بیان کردہ اس حکایت میں اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟ اس کا اس حکایت سے کوئی تعلق نہیں جو ہم بیان کرنے لگے ہیں۔ جسے پوری حکایت میں دلچسپی ہو وہ گلستان سعدی کا مطالعہ کرلے۔ ہم تو اس حکایت کی روشنی میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ نے ایک آڈیٹر جنرل کو تعینات کر رکھا ہے جو سرکاری محکموں کا آڈٹ کرکے سیاہ اور سفید سب پارلیمنٹ کو پیش کر دیتا ہے۔ پارلیمنٹ نے اپنی نمائندگی ایک کمیٹی کو سونپ رکھی ہے جسے پبلک اکائونٹس کمیٹی کہا جاتا ہے۔ عوام کے خون پسینے کی کمائی سرکاری محکمے خرچ کرتے ہیں تو آڈٹ کا فریضہ آڈیٹر جنرل سرانجام دیتا ہے اور ناروا اخراجات سرکاری محکموں کے تنور شکم سے پبلک اکائونٹس کمیٹی باہر نکالتی ہے۔
وزارت مذہبی امور کا ایک ذیلی محکمہ سعودی عرب میں کام کر رہا ہے جسے حج ڈائریکٹریٹ کہا جاتا ہے۔ اس ڈائریکٹریٹ نے 62 لاکھ روپے سے چار انتہائی اعلیٰ (لگژری) گاڑیاں خرید فرمائیں۔ ایک وزیر صاحب کے لیے تاکہ جب بھی حجاج کی خدمت کے لیے دورے پر جائیں تو سواری ’’شایانِ شان‘‘ ہو، ایک ڈائریکٹر جنرل کے لیے، ایک ڈائریکٹر صاحب کے لیے اور ایک ڈپٹی ڈائریکٹر کے لیے کہ چھوٹا سہی لیکن ڈپٹی ڈائریکٹر بھی آخر بیوروکریٹ ہی ہے۔ ظفر علی خان یاد آ گئے ؎
بُدّھو میاں بھی حضرتِ گاندھی کے ساتھ ہیں
اک مَشتِ خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں
اس شاہانہ خریداری میں قانون کو دو لحاظ سے پائوں تلے روندا گیا۔ ایک تو لاکھوں روپے کا یہ سودا کسی ٹینڈر کے بغیر طے پا گیا، لیکن اصل ظلم یہ کیا گیا کہ اخراجات کی خطیر رقم ’’حج فنڈ‘‘ سے لی گئی۔ ہر حاجی سے کچھ رقم لے کر اس ’’فنڈ‘‘ میں ڈالی جاتی ہے۔ اس سے گاڑیاں خریدنے کی قانون میں اجازت نہیں۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے خود اجلاس کو بتایا کہ قواعد میں ایسی کوئی
گنجائش نہیں کہ اس فنڈ سے سرکاری استعمال کے لیے عیاشانہ گاڑیاں خریدی جائیں۔ ابتدا میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کے ارکان نے بہت جاندار اعتراضات صادر کیے۔ جب وزارت کے سیکرٹری نے یہ آڑ لی کہ گاڑیاں وزرا اور پارلیمنٹ کے ارکان کے استعمال کے لیے ہیں تو کمیٹی کے سربراہ ندیم افضل چن صاحب نے سیکرٹری کو آڑے ہاتھوں لیا کہ ساری گاڑیاں افسر شاہی کے استعمال میں ہیں۔ لیکن آخر میں یہ ہوا کہ آڈٹ کے ڈائریکٹر صاحب نے خود ہی یہ سفارش کر دی کہ اس اعتراض کو نمٹا دیا جائے۔ نمٹانے کا مطلب آڈٹ کی زبان میں معاف کر دینے کو کہتے ہیں، پبلک اکائونٹس کمیٹی نے اس سفارش کو فوراً مان لیا اور اعتراض کو معاف کر دیا۔ اشک شوئی کے لیے یہ حکم دے دیا گیا کہ سیکرٹری صاحب لکھ کر دیں گے کہ آئندہ یہ گاڑیاں حجاج کے استعمال میں رہیں گی! گویا ماں باپ، قاضی اور بادشاہ سب لڑکے کے قتل کے لیے متحد ہو گئے۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ گاڑیاں واقعی حاجیوں کے کام آئیں گی؟ ؎
خدا کے واسطے جھوٹی نہ کھایئے قسمیں
مجھے یقین ہوا مجھ کو اعتبار آیا
سیکرٹری صاحب نے یہ اطلاع بھی بہم پہنچائی کہ جدہ میں واقع حج ڈائریکٹریٹ کے پاس بائیس گاڑیاں ہیں۔ یہ حالت اس حکومت کی ہے جس کے عوام کی اکثریت ریل گاڑیوں اور بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرتی ہے۔
اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز تماشا یہ ہوا کہ بھرے اجلاس میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اپنے ہی ڈائریکٹر کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ یہ نرمی برت رہا ہے اور غلط مثال قائم کر رہا ہے اور یہ کہ قواعد اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ’’حجاج فنڈ‘‘ سے گاڑیاں خریدی جائیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اجلاس میں آنے سے پہلے آڈیٹر جنرل صاحب اور ان کے ڈائریکٹر صاحب نے معاملے پر غور ہی نہیں کیا۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب اجلاس میں آنے سے پہلے آڈیٹر جنرل ایک ایک معاملے پر غور کرتا تھا اور اپنے متعلقہ افسروں اور عملے سے بحث کرتا تھا اور ایک متفقہ حکمت عملی تیار کی جاتی تھی کہ یہ اخراجات ناروا ہیں یا جائز… معاف کیے جا سکتے ہیں یا وصول کرکے سرکار کے خزانے میں ڈالے جانے ہیں۔ آج یہ حالت ہے کہ آڈیٹر جنرل خود اس خریداری کو ناروا قرار دے رہا ہے لیکن اس کا ماتحت افسر سفارش کر رہا ہے کہ کوئی بات نہیں، معاف کر دیجئے۔ ایسے ہی موقع پر کہا جاتا ہے کہ ؎
من چہ می سرایم و طنبورۂ من چہ می سراید