اپنے گنبد اور محرابوں سے پہچانے والا بغداد دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔ روم، ایتھنز اور سکندریہ اپنے عروج پر بھی اس کے قریب نہیں پہنچے تھے۔ دس لاکھ سے زیادہ کی آبادی والے اس شہر میں شاہی خاندان، جنرلوں اور وزیروں کے درجنوں محل تھے۔ متمول لوگوں کے بڑے گھروں میں سنگِ مرمر کے ستون، زینہ جو دریا کی طرف اترتا تھا یا دالان کی طرف۔ پلستر والی دیواروں پر دبیز پردے، سرامک ٹائل والے فرش جن پر سردیوں میں قالین بچھا دئے جاتے اور گرمیوں میں ہتا لئے جاتے۔ فرش پر گاوٗ تکئے۔ نچلی منزل کی ایک دیوار مرکز میں صحن میں کھلتی تھی، جس میں چھوٹا فوارہ نصب ہوا کرتا تھا۔ اس سے نیچے کچن، جس میں لوہے کی جالیوں والا روشن دان، تا کہ ہوا کا گزر رہے۔ گرمیوں میں فیملی چھت پر سویا کرتی۔ ووپہر کو گرمی سے بچنے کے لئے تہہ خانے میں ٹھنڈے کمرے (سرداب) میں۔ اس کے مقابلے میں غریب لوگوں کے گھر کئی منزلہ گنجان آبادی میں ہوا کرتے تھے۔ کجھور کے درخت کے تنے کے شہتیر کی چھت اور گارے کی اینٹوں کی دیواریں۔ شہر کی کشادہ سڑکوں کی باقاعدہ صفائی ہوا کرتی۔ دجلہ سے نکالی گئی نہروں کا جال جس سے گھروں کو پانی مہیا کیا جاتا۔ بازار کی فضا میں مقامی اور درآمد شدہ مصالحوں اور عطر کی خوشبو ہوتی اور اور دریا سے پکڑی گئی مچھلی، شابوت کی مہک۔ بغداد کے شہری اس دریا کے قریب سیر سے لطف اندوز ہوتے ہوں گے۔
الف لیلہ کی داستانوں کے اس شہر کو کئی مرتبہ اجاڑا جا چکا ہے۔ اپنے بسنے سے چند ہی دہائیوں بعد اس شہر کی پہلی تباہی اسی کے فرزند کے ہاتھوں ہونا تھی۔ لیکن یہ کہانی اس شہر کو اجاڑنے کی نہیں۔ اسلامی گولڈن ایج کے سب سے اہم کردار ابو العباس عبداللہ کی ہے، جنہیں تاریخ میں المامون کے نام سے جانا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خراسان سے سیاہ جھنڈے بلند کئے آنے والے باغیوں نے بنوامیہ کی حکومت کا تخت 751 میں الٹ دیا۔ میدانِ جنگ میں شکست کھانے والے بنو امیہ کے خاندان کو صلح کے لئے ضیافت پر بلایا گیا اور اس خونی ضیافت کے وقت اس خاندان کے 80 افراد کو قتل کر کے نوے سالہ اموی دورِ خلافت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ بنوامیہ کا صرف ایک شہزادہ اس سے بچ پایا تھا۔ یہ خلافتِ عباسی کے پانچ سو سالوں کا آغاز تھا، جو اسلامی سنہرا دور کہلاتا ہے۔ اپنے دارالخلافہ کے لئے عباسی خلیفہ نے ایک نئے شہر کی بنیاد 30 جون 762 کو رکھی جس کو مدینة السلام کا نام دیا گیا، جو پھر بغداد کہلایا۔ یہ شہر سائنس، لٹریچر، فلسفہ، آرکیٹکچر، مصوری، شیشہ گری، ٹیکسٹائل اور ٹیکنالوجی کا گڑھ رہا۔ یہاں کے باغوں میں ساسانیوں کی دانشگاہِ گندی شاپور کی طرز پر بسایا گیا بیت الحکمہ (دانائی کا گھر) اپنے وقت کی سائنس کا بڑا مرکز۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عباسی خلیفہ ہارون الرشید جس سال خلیفہ بنے، اسی سال المامون کا جنم ہوا۔ ان کی والدہ فارس کی بغاوت کو کچلنے کی مہم میں حاصل کردہ لونڈی مراجل تھیں۔ ہارون الرشید کے دوسرے بیٹے ان کی بیوی زبیدہ سے ہوئے جو الامین تھے۔ مامون کو تعلیم و تربیت کے لئے وزیر جعفر برمکی کے حوالے کیا گیا جہاں پر قرآن حفظ کیا، شاعری پڑھی، تاریخ پڑھی، عربی گرائمر اور ریاضی۔ لیکن ان کی سب سے زیادہ دلچسپی فلسفے اور علم الکلام میں تھی۔ بعد کی زندگی میں ان کا سائنس کا جنون شروع ہونے کی وجہ یہی رہی۔
جب ولی عہد چننے کی باری آئی تو خالص النسل الامین کی ترجیح دی گئی۔ 802 میں ہارون نے عمرے کا سفر اپنے ٹین ایج بیٹوں کے ساتھ کیا اور یہاں پر یہ اعلان رسمی طور پر کیا گیا۔ الامین کو خلافت ملنا تھی۔ المامون کو خراسان کی گورنر شپ۔ اپنے بیٹوں سے اس کی پاسداری کا حلف لیا اور اس دستاویز کو کعبے کے اندر ڈبے میں بند کر کے رکھوا دیا۔ (اس کو مکہ پروٹوکول کہتے ہیں)۔ ٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہارون الرشید کے دور میں خراسان میں بغاوت ہوئی۔ ہارون اس سے نپٹنے کے لئے فوج لے کر گئے۔ مامون ان کے ساتھ تھے۔ ہارون کا راستے میں بیماری سے انتقال ہو گیا۔ 23 سالہ مامون نے جگہ سنبھالی، بغاوت ختم کی۔ خراسان کا کنٹرول حاصل کیا۔ اس میں ان کے وزیر الفضل نے مدد کی۔ بغاوت دبانے کے لئے ٹیکس کم کئے گئے۔ الفضل نے مامون کا اچھا امیج بنوانے، پاور بیس قائم کرنے میں بھی بڑی مدد کی۔ اس دوران امین اور مامون کے درمیان چپقلش شروع ہو گئی۔ امین نے اپنا ولی عہد مامون کی جگہ پر اپنے بیٹے کو بنا دیا اور خراسان سے ٹیکس ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔ مامون کے ساتھ جو افواج گئی تھیں، ان کو واپس بلا لیا۔ مامون نے خراسان میں اپنی فوج جمع کرنا شروع کر دی۔
فارس سے تعلق رکھنے والے جنرل طاہر کی کمانڈ میں مامون نے عباسی خلافت پر حملہ کیا۔ تہران میں پہلی لڑائی ہوئی جس کی فتح کے بعد فارس پر مامون کا قبضہ ہو گیا۔ مامون کی افواج کی پیشقدمی جاری رہی۔ 812 میں یہ بغداد کے دروازے پر دستک دے رہی تھیں۔ بڑا محاصرہ شروع ہو گیا۔ امین ایک مقبول خلیفہ تھے۔ ان کو چار سالہ دورِ اقتدار میں شہریوں کی حمایت حاصل تھی۔ حملہ آوروں کو کڑی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ منجنیقوں سے حملوں اور شہر میں جگہ جگہ آگ لگانے، دجلہ پر پل توڑنے اور بہت ہی طویل لڑائیوں کے بعد مامون کی فوجوں کو فتح ہوئی۔ بغداد کا بڑا حصہ راکھ کا ڈھیر بن گیا تھا۔ الامین نے فرار ہونے کا ارادہ کیا لیکن پھر مشیروں کے کہنے پر ہتھیار ڈال دئے لیکن امین کا سر قلم کر دیا گیا۔ کاٹ کر ان کے بھائی مامون کو پیش کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مامون واپس خراسان کے شہر مرو چلے گئے (جو آج کے ترکمانستان میں ہے)۔ یہ کچھ عرصہ عباسی سلطنت کا داراخلافہ رہا۔ اپنا جانشین اپنے خاندان میں نہیں بلکہ علی الرضا کو بنایا۔ یہ فیصلہ بغداد میں انتہائی غیرمقبول ثابت ہوا۔ مامون کو واپس آنا پڑا۔ اسی سفر میں علی الرضا اور وزیر الفضل پرسرار طریقے سے انتقال کر گئے۔ بغداد کو تاراج کرنے کے چھ سال بعد 819 میں مامون دوبارہ تعمیر شدہ بغداد لوٹ آئے اور جعفر برمکی کے بنائے گئے محل میں رہائش اختیار کی۔
تاریخ کی کتابیں امین کو نااہل اور مامون کو قابل خلیفہ کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ شاید یہ کہ تاریخ جیتنے والے لکھتے ہیں۔ البتہ مامون کا دور تاریخ کا بڑا اہم دور رہا۔ اسلامک گولڈن ایج علم کی تلاش کا دور ہے۔ مامون اس کاوش کو سپورٹ کرنے والے پہلے خلیفہ نہیں تھے لیکن جس قدر جذبے اور لگن کے ساتھ یہ کام انہوں نے کیا، جس قدر آزاد مکالموں اور فکر کا ماحول بنایا، اس کی کوئی اور مثال نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرب مورخ ابنِ نادم اپنی کتاب “فہرست” میں لکھتے ہیں کہ مامون نے بغداد آ کر ایک خواب دیکھا، جو مامون کی زبان میں بیان کیا۔
میں نے خواب میں ایک شخص کو دیکھا۔ گھنی بھویں، نیلی آنکھیں، گنجا سر، تندرست جسم۔ میں نے پوچھا کہ “آپ کون؟” اس نے جواب دیا، “ارسطو”۔ میں نے پوچھا، “اے فلسفی، یہ بتا دیں کہ سچ کیا ہے، اچھائی کیا ہے؟”۔ ارسطو نے جواب دیا، “جو بھی تم اپنی عقل سے پہچان لو”۔ میں نے کہا، “اس کے بعد؟” ارسطو نے کہا، “وہ جس پر عام رائے میں اتفاق ہو جائے۔” میں نے کہا، “اس کے بعد؟”۔ ارسطو نے کہا، “اس کے بعد کچھ بھی نہیں”۔ میں نے کہا، “تو پھر میں اس کو پہچان کر رہوں گا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مامون کا یہ خواب تو مورخ کا تخیل ہو گا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ مامون کے باقی زندگی جنون کی حد تک اس میں لگا دی۔ بیت الحکمة میں دنیا بھر سے آنے والا کام کا ترجمہ پہلے بھی کیا جا رہا تھا۔ ترجمے کا کام تیزتر کر دیا گیا۔ اس میں کسی موضوع کی قید نہیں رکھی۔ یونانی ، فارسی، سنسکرت، جو بھی جہاں سے ملا، اس کا عربی ترجمہ ہونے لگا۔ مامون خود روز بیت الحکمہ جایا کرتے۔ مباحث میں حصہ لیا کرتے۔ دنیا بھر کے علم سے استفادہ کرنے کی روایت ڈالی گئی۔ فطرت کی کھوج لگانا اچھی قدر قرار پایا۔ سائنس کو کبھی اتنی زیادہ حکومتی سرپرستی نہیں ملی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ وہ دور تھا جب عرب میں سائنس کے بڑے نام پیدا ہونا شروع ہوئے۔
مامون کے جنون نے سکندریہ کی لائبریری کے زوال کی کئی صدیوں بعد سائنس کو بغداد میں پوری طرح زندہ کر دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کے اس باب کی یہ کہانی درست ہے لیکن ہر مختصر کہانی کی طرح بہت سے چیزیں چھوڑ جاتی ہے۔ بغداد ہی کیوں؟ عباسی خلافت میں ہی ایسا کیوں ہوا؟ اس کے ساتھ ساتھ اور کیا چل رہا تھاَ؟ (امین اور مامون کی جنگ محض دو بھائیوں کی اقتدار کے لئے ہی نہیں، نظریات کی جنگ بھی تھی، جس میں کوئی ہیرو یا ولن نہیں تھا، یہ کشمکش صدیوں تک چلتی رہی)۔ آٹھویں صدی کی اس تاریخ کا آج کی دنیا سے کیا تعلق؟ (کئی لحاظ سے بہت گہرا تعلق ہے)۔ کسی بھی چیز کو آئسولیشن میں نہیں سمجھا جا سکتا۔ اگر اس کو تفصیل سے پڑھنا چاہیں تو یہ اس کے لئے یہ کتاب۔ اس میں پاکستان میں آج کی سائنس کے حوالے سے بھی اچھی ڈسکشن شامل ہے۔
Pathfinders: Golden Age of Arabic Science