یہ ایک نمایاں اور ممتاز یونیورسٹی تھی۔ جس کلاس میں گفتگو کرنا تھی اس کے طلبہ اصل میں کالجوں کے اساتذہ تھے جو ایک ہی صوبے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کا کیا خیال ہے، کالج میں پڑھانے والے کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں؟ نہیں! اعلیٰ تعلیم یافتہ! ایم اے کے ڈگری ہولڈر‘ ملک کی آبادی کے عشیر عشیر سے بھی کم! مگر جب عینک ایک خاص رنگ کے شیشوں کی پہنا دی جائے اور ذہن کو ایک کٹہرے میں لپیٹ کر دنیا سے لاتعلق کر دیا جائے تو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم بھی لاحاصل ثابت ہوتی ہے۔ وہ جو کسی نے کہا تھا کہ تعلیم بھی فلاں کا کچھ نہیں بگاڑ سکی‘ تو کسی ایسے ہی موقع پر کہا تھا!
بات صرف اتنی ہوئی کہ ان طلبہ سے خطاب کرنے والے نے ایک واقعہ سنا دیا جو کچھ عرصہ قبل پنجاب کے شہر لاہور میں پیش آیا تھا۔ ایک نواب صاحب پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ کسی بد دماغ نے سوال کر دیا کہ جھوٹ سچ میں تمیز کرنے کے لیے جلتے سلگتے انگاروں پر چلانا کہاں کا انصاف ہے۔ نواب صاحب نے فخر سے جواب دیا کہ یہ ہماری روایت ہے! طلبہ کو واقعہ سنانے کا مقصد یہ تھا کہ روایت کے نام پر ظلم و جہالت کو جاری رکھنا عوام کے لیے سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ مگر کُچھ طلبہ برافروختہ ہو گئے!
اب مزے کی بات یہ تھی کہ بر افروختہ ہونے کے لیے دلیل کوئی نہیں تھی! یہ تو کہہ نہیں سکتے تھے کہ جلتے کوئلوں پر چلانا شرعی یا قانونی یا سائنسی اعتبار سے جائز ہے! لے دے کہ ایک ہی نکتہ تھا کہ ہمارے سرداروں کو کچھ نہ کہا جائے!
سرداری یا بادشاہی کی بقا کے لیے سب سے ضرری حفظ ماتقدم کیا ہے؟ عوام کو باور کرانا کہ تم فلاں قبیلے سے تعلق رکھتے ہو اس لیے برتر ہو‘ اور تمہارا حکمران یا سردار یا نواب تنقید سے بالاتر ہے! رضا شاہ پہلوی نے اپنے گرد تقدس کا جو ہالہ بُنا تھا‘ کیا تھا؟ اور کس لیے تھا؟ یہ کہ بادشاہ مقدس ہے! غلطی سے بادشاہ نے ٹائم غلط بتا دیا تو اسے ٹوکنے کے بجائے پورے ملک کی گھڑیاں غلط ٹائم کے مطابق تبدیل کر دی گئیں۔ ابوالفضل اور فیضی کے لکھے ہوئے روزنامچے پڑھ کر دیکھ لیجیے، لگتا ہے نعوذ باللہ بادشاہ نہیں‘ پیغمبر کا تذکرہ ہے! اسی طرح! جی ہاں، بالکل اسی طرح! اگر قبیلے کے ہر فرد کو یہ یقین دلایا جائے کہ تمہاری سلامتی اسی میں ہے کہ تمہارا قبیلہ تمہارے سردار کی قیادت میں زندگی بسر کرے اور جو روایات صدیوں سے چلی آ رہی ہیں‘ تمہارے لیے باعث فخر ہیں‘ تو لوگ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود عصبیت کو اوڑھنا بچھونا بنا لیں گے اور اگر تعلیم یافتہ افراد قبیلے میں اتنے ہیں جتنا آٹے میں نمک تو معاملہ اور بھی آسان ہے!
زخم کریدنے کو دل اس لیے چاہ رہا ہے کہ بلوچستان کے ریگستان میں چند مربع فٹ پر مشتمل جو نخلستان آیا تھا‘ گزر گیا ہے۔ آگے پھر لق و دق صحرا ہے۔ ٹوٹی ہوئی طنابیں ہیں۔ اُکھڑے ہوئے خیمے ہیں۔ ہر آن محل وقوع بدلتے خوفناک ٹیلے ہیں اور بے امان مسافر!
گزشتہ چالیس سال کے دوران جتنے وزیراعلیٰ آئے‘ سب سردار تھے اور نواب! عطاء اللہ مینگل‘ جام غلام قادر خان‘ محمد خان باروزئی‘ میر ظفر اللہ خان جمالی‘ خدا بخش مری‘ نواب اکبر بگتی‘ ہمایوں خان مری‘ تاج محمد جمالی‘ ذوالفقار علی مگسی‘ محمد نصیر مینگل‘ اختر مینگل‘ میر جان محمد جمالی‘ جام محمد یوسف‘ محمد صالح بھوٹانی‘ نواب اسلم رئیسانی اور غوث بخش باروزئی۔ ان صاحبوں میں سے کُچھ دو دو بار بھی سریر آرائے اقتدار ہوئے۔ یہ سب وہ امرا ہیں جو وسیع و عریض جاگیروں کے مالک ہیں۔ اپنے اپنے قبیلے کے سردار ہیں یا حد درجہ ممتاز ارکان! قبیلے ان کے سامنے دست بستہ کھڑے رہتے ہیں۔ ان کی زبانوں سے نکلا ہوا لفظ قانون بنتا ہے۔ کئی کئی سو مسلح پہرے دار ان کے جلو اور عقب میں ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر و بیشتر وہ ہیں جن کے محلات کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں ہیں۔ ان کے قبیلوں کی اکثریت نے کوئٹہ بھی نہیں دیکھا مگر یہ لوگ بڑے بڑے شہروں میں زندگی گزارتے ہیں۔ ان میں سے کسی کو ملازمت یا کاروبار کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جاگیروں سے آمدنی آتی ہے۔ معدنیات ان کی ملکیت میں ہیں!
پورے صوبے میں ان صاحبوں سے کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ حضور! آپ نے اپنے عہد اقتدار میں کتنے کالج بنوائے؟ کتنی یونیورسٹیاں قائم کیں؟ کتنے ہسپتال بنوائے؟ کتنے کارخانے لگوائے؟ زراعت کو کتنا مشینی بنایا؟ چلیں‘ صوبے کو چھوڑیے‘ اپنے قبیلے کے کتنے طلبہ کو آپ نے آکسفورڈ یا ہارورڈ بھجوایا؟ ان مقتدر افراد سے‘ جو ہر وقت پروٹوکول کے سائے میں رہتے ہیں‘ کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ آپ کے قبیلے میں خواندگی کا تناسب کیا ہے؟ کتنی عورتیں تعلیم یافتہ ہیں؟ کتنے لوگوں کے پاس اپنے گھر ہیں؟ صوبے میں آپ کے قبیلے کی آبادی کے لحاظ سے کیا پوزیشن ہے اور ملازمتوں کے لحاظ سے قبیلہ کہاں کھڑا ہے؟
کیا آپ کو معلوم ہے کہ بلوچستان کے سرداری نظام کی مثال‘ افریقہ اور جنوبی امریکہ کے کچھ مافیا زدہ ملکوں کو چھوڑ‘ دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے؟ کیا آپ جانتے ہیںکہ سردار نئی بندوق ٹیسٹ کرنے کے لیے گلی میں گزرنے والے کسی بھی شخص کو نشانہ بنا سکتا ہے؟ کیا آپ کے علم میں ہے کہ کالجوں اور سکولوں کی عمارتیں ان سرداروں کے غلّے کا گودام ہیں؟
غلامی کی اِس بدترین شکل کی ذمہ دار پاکستان کی ریاست ہے۔ اڑسٹھ سال ہو گئے‘ بلوچستان کے معاشرے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ صدیوں پرانا قبائلی طرز زندگی جاری و ساری ہے۔ ملک کے دارالحکومت میں جو نام نہاد پالیسی ساز بیٹھے ہوئے ہیں‘ سچی بات یہ ہے کہ وہ اُس وژن سے، اُس ادراک سے محروم ہیں جو تبدیلی لانے کے لیے درکار ہے! عبدالمالک بلوچ پہلا غیر سردار تھا جسے اڑھائی برس کی چیف منسٹری ملی۔ اب اس گناہ کا کفارہ ادا کیا جا رہا ہے۔ اقتدار سرداروں کے پاس واپس آ گیا ہے۔
قبائلی طرز زندگی ان سرداروں کو خوب راس آتا ہے۔ اس طرز زندگی میں کوئی شخص خم ٹھونک کر ان کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا! کچے گھر میں رہنے والا ایک ناخواندہ قبائلی جس کے بیوی بچے ہزار سالہ قدیم زندگی گزار رہے ہیں‘ کندھے پر بندوق رکھ کر فخر سے کہتا ہے کہ میں بگتی ہوں‘ مری ہوں‘ مینگل ہوں اور اپنے سردار کا وفادار ہوں! اُسے آپ لاکھ بتائیں کہ تمہارے کچھ حقوق بھی ہیں‘ وہ آپ کی بات نہیں مانے گا! اصرار کریں گے تو آپ کو حکومت کا یا اسٹیبلشمنٹ کا یا پنجاب کا گماشتہ قرار دے گا! وہ جو اقبالؒ نے گوشے میں بیٹھے ہوئے اور دنیا سے کٹے ہوئے مسلمان کے لیے کہا تھا کہ ؎
اس سے بہتر ہے الٰہیات میں اُلجھا رہے
یہ کلام اللہ کی تاویلات میں اُلجھا رہے
تو بلوچستان کا عام باشندہ اگر پتھر کے زمانے میں رہ رہا ہے تو رہتا رہے۔ سرداری نظام کا بھلا اسی میں ہے!
پتا نہیں یہ واقعہ ہے یا زیب داستاں کے لیے بات گھڑی گئی۔ صدر ایوب خان کی وفات پر اُن کے علاقے کے لوگوں نے جلوس نکالا اور مطالبہ کیا کہ ’’بادشاہ ہزارے نا ہوسی‘‘۔ بادشاہ تو دوسرا ہزارے سے نہ آ سکا مگر یہ طے ہے کہ بلوچستان کی حکمرانی سرداروں کے پاس ہی رہے گی!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“