“ تم فکر مت کرو ، کل اسے رُوم میں ٹرانسفر کردیں گے۔ صبح میں آدمی بھیجوں گا وہ بھابی کا ویزا لگوادیں گے، شام کی فلائٹ سے اس کی بیوی آجائے گی”۔ وہ سانس لینے کے لئے رکا۔
“ بڑی مہربانی سلیم بھائی۔ آپ آئے تو آسانی ہوگئی”۔ میرے بمبئی کے عزیز کا لہجہ بڑا فدویانہ تھا۔
“ ارے ، میں ادھر ہے تو فکر نئیں کرنے کا” ۔
یہ بات چیت دبلے پتلے سے تیلی جیسے جسم اور ہوچی منہ جیسی داڑھی والے پینتیس چھتیس سالہ سلیم بھائی اور میرے بمبئی کے کچھ عزیزوں کے درمیان ہورہی تھی۔
میرے بمبئی کے ان رشتہ داروں میں سے ایک صاحب ایک بہت بڑی فضائی کمپنی میں اعلا عہدے پر فائز ہیں۔ دوسرے جو ان سے عمر میں کچھ کم ہیں وہ بھی ایک کار کمپنی کے جنرل مینیجر ہیں۔ میں ان دونوں کے ساتھ دوبئی کے سرکاری ہسپتال میں کسی کو دیکھنے آیا ہوں جو ٹریفک کے حادثے میں شدید زخمی ہوگیا ہے۔
“ اچھا میں چلتا ہوں۔ کچھ کام ہو تو میرے کسی بھی آدمی کو بول دینا” سلیم بھائی نے اجازت لی۔
میرے دونوں عزیزوں نے جھک کر ان سے ہاتھ ملایا۔ مجھے بڑا عجیب سا لگا۔ یہ شخص سلیم تو کچھ یونہی سا ، لفنگا سا لگ رہا تھا اور یہ دونوں اس سے بڑے مرعوب نظر آتے تھے۔
“ کون تھا یہ؟”مجھ سے رہا نہ گیا، سلیم کے جاتے ہی میں پوچھ بیٹھا۔
“ ارے اسے نہیں جانتے؟ “ بڑا مشہور آدمی ہے
“ یہ سلیم ہے، سلیم تلوار۔ اس کے اکاؤنٹ پر چار سو مرڈر ہیں۔ ممبئی میں جب ہندو مسلم جھگڑا ہوتا ہے تو یہ تلوار لے کر نکلتا ہے”۔ میرے عزیز نہ صرف مرعوب بلکہ معتقد نظر آتے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ شکور بھائی وہ جوان کا بچہ شہر میں کھلی جیپ میں گھومتا تھا اور ایسا کھڑا ہوکر جیپ چلاتا تھا” شمسو بھائی نے وین چلاتے ہوئے کھڑا ہونا چاہا لیکن نیچی چھت سے سر ٹکراتے ہی فورا بیٹھ گئے۔
شمسو بھائی سعودی عرب میں ہماری کمپنی کے ڈرائیور تھے۔ وہ ہمیں شیرو دادل کے بارے میں بتا رہے تھے جو ان کے مطابق کلاں کوٹ، بغدادی، چاکیواڑہ، رانگی واڑہ، لیمارکیٹ وغیرہ کا بے تاج بادشاہ تھا۔
“ شیرو کا پھڈا کالا ناگ سے رہتا تھا۔ وہ بھی تگڑا بندہ تھا” شمسو بھائی جب بھی کراچی کے ان داداؤں کا ذکر کرتے ان کے لہجے میں بڑی عقیدت ہوتی۔
“ لاہو کھیت، ناظم آباد۔ گولی مار میں قمر ٹیڈی کا بڑا نام ہے۔لیکن وہ شیرو اور کالاناگ کی ٹکر کا نہیں”۔۔شمسو بھائی گویا اس موضوع پر پی ایچ ڈی تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ فخرو بھائی دو ٹکٹ چاہئیں”
“ اڑے ابی ادر ٹکٹ کدر ہے۔ تم دیکھتا نئیں ہاؤس فل ہے”
محمدعلی ، زیبا کی نئی فلم آج ہی لگی تھی۔ یہ دوسرا شوتھا اور کورنگی کے زینت سنیما کی پوری لابی کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ بکنگ آفس کے سامنے لمبی لائنیں لگی ہوئی تھیں۔ مکرانی فخرو بھائی لوگوں کو اور لائنوں کو کنٹرول کررہا تھا۔
“ فخرو بھائی دادا نے تو بولا تھا کہ فخرو کو بول دینا، ٹکٹ مل جائے گا” الیاس نے ہوا میں تیر چلایا۔
“ دادا! کون دادا؟”
“ اصغر دادا” الیاس رسان سے بولا۔
“ تم اصغر دادا کا آدمی ہے؟” فخرو کا لہجہ غیر یقینی تھا۔ الیاس تو خیر چھٹا ہوا نظر آتا تھا لیکن میرے چہرے پر عینک تھی اور میں ذرا شریف سا لونڈا لگتا تھا۔
“ ہم اس کی پچھلی گلی میں رہتے ہیں، پانچ نمبر پر” الیاس نے بتایا۔
“ اچھا ادر ای کھڑا رہیو، ہم ابی آتا ہوں” فخرو بھیڑ میں گم ہوگیا۔
دس پندرہ منٹ بعد فخرو واپس آیا اس نے دو ٹکٹ الیاس کے ہاتھ میں منتقل کئے۔ میں نے پیسے فخرو کی طرف بڑھائے۔
“اڑے نئیں ڑے” فخرو یہاں وہاں دیکھتا ہوا بولا۔
“ نہیں فخرو بھائی ۔ بس دادا نے بولا تھا جب بھی ٹکٹ چاہئیے فخرو کو بول دینا، اس لئے ہم تمہارے پاس آئے” میں نے زبردستی پیسے اس کے ہاتھ میں منتقل کئے۔۔ہم ڈرے ہوئے تھے۔
“ دادا کو میرا سلام بولنا” فخرو سے ہاتھ ملا کر ہم تیزی سے ہال کی جانب بڑھے۔
ہم نے اصغر دادا کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی۔ الیاس نے کسی سے سنا تھا کہ فخرو نامی گیٹ کیپر کو اصغر کا نام بتاؤ تو ٹکٹ مل جاتا ہے۔ ترکیب کامیاب رہی تھی لیکن ڈر بھی تھا کا اصغر کا کوئی سچ مچ کا آدمی آکر بھانڈا نہ پھوڑ دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ پتہ ہے جب پولیس آئی تو رحمت نے گھوڑے پر سے نالے کے دوسری طرف چھلانگ لگادی”
“ نہیں یار۔ وہ نالہ تو بڑا چوڑا ہے”۔
“ تو یار رحمت بھی تو ایسا ہی جی دار بندہ ہے “
“ ہاں یار یہ بات تو ہے۔ویسے بھی اس نے اپنے محلے میں کبھی بدمعاشی نہیں کی”۔
رحمت، گرجی اور راجہ پہلوانی بھی کرتے تھے اور محلے کے بدمعاش بھی تھے لیکن محلے والے ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔ یہ تینوں پنجابی فلموں کے اسٹائل میں دھوتی ، کرتا اور کھسے پہنے ہوئے بازار سے گذرتے تو ہم سب انہیں بڑی رشک آمیز نظروں سے دیکھتے جیسے کوئی سپر اسٹار ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلیم تلوار، شیرو دادل، کالاناگ، قمر ٹیڈی، اصغر دادا، رحمت، گرجی، راجہ اور اس قبیل کے لوگوں کا جب بھی ان کے محلے والوں سے ذکر سنا ہمیشہ بڑے اچھے الفاظ میں سنا۔ میرے ممبئی کے کئی دوست اور عزیز جب کبھی حاجی مستان اور داؤد ابراہیم کا ذکر کرتے تو کبھی ان کے لئے کوئی ملامتی جملہ نہ کہتے۔ ان کے بقول یہ سب بمبئی میں مسلمانوں کی جان و مال کے محافظ تھے اور ان کی وجہ سے ہندو ؤں کی ہمّت نہیں ہوتی تھی کہ مسلمان محلّوں میں کوئی کاروائی کرسکیں۔
اور یہی نہیں بچپن سے سلطانہ ڈاکو، بھوپت ڈاکو، رابن ہڈ، ولیم ٹیل، عجب خان، پھولن دیوی وغیرہ کے قصے جب بھی سنے، سنانے والوں کے منہ سے ان کی برائی کم سنی۔ انہیں بہادری اور ہمدردی کا پیکر بتایا جاتا جو امیروں کو لوٹ کر غریبوں کی مدد کرتے۔ ایسا ہر کردار کسی ظلم کے نتیجے میں برائی کی طرف مائل ہوتا۔دلیپ کمار کی گنگا جمنا، محمدعلی ، شمیم آرا کی آگ کا دریا اور بہرام ڈاکو، سنگرام، شیر خان اور اس جیسی کہانیوں میں وحشت و بربریت کے ان کرداروں کو عموماً ہیرو کے رول میں پیش کیا جاتا۔
میں کبھی سمجھ نہیں پایا کہ نیکی اور بدی کے ان متضاد کرداروں کو دکھا کر ہماری کون سی جبلت کی تسکین ہوتی ہے لیکن دیکھا جائے تو اکثر فلمی کہانیاں اور لوک داستانیں تقریباً اسی قسم کی ہوتی ہیں۔ اکثر فلموں میں تو یہ منفی کردار یعنی ولن تو ہیرو سے بھی زیادہ مقبول ہوجاتے ہیں اور ایسے بہت سے ولن گذرے جن کی وجہ سے لوگ سنیما ہال کا رخ کرتے ہیں۔ حالانکہ اس بے چارے ولن کی زندگی بڑی ہی بری ہوتی ہے۔ چھ فٹ کا تگڑا سا ولن ، ٹِڈّی جیسے ہیرو سے مار کھاتا رہتا ہے، ہیروئن کی گالیاں سن کے بھی بد مزہ نہیں ہوتا، ساری فلم کے دوران اس کی چلتی ہے لیکن آخر میں ذلت اور خواری اس کا مقدر بنتی ہے۔ ایک ظلم یہ ہوتا ہے کہ اس غریب کی کبھی شادی نہیں ہوتی۔ اس کی ساری چالبازیوں اور سازشوں کے نتیجے میں ہیروئن کا باپ شادی کے لیے راضی ہوجاتا ہے، شادی کا منڈپ سج جاتا ہے، روتی دھوتی دلہن گھونگٹ کاڑھے بیٹھی ہوتی ہے، باہر شہنائی بج رہی ہوتی ہے۔ مہمان رنگ بر نگے کپڑے پہنے یہاں وہاں کھڑے ہوتے ہیں، پنڈت اشلوک پڑھ رہا ہوتا ہے یا مولوی نکاح پڑھانے والا ہوتا ہے کہ اچانک ایک آواز آتی ہے۔۔۔” رک جائیے مولی ساب۔ یہ شادی نہیں ہوسکتی”
سارے حاضرین مڑ کر اس آواز کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔ہیرو ایک پولیس انسپکٹر اور دو سپاہیوں کے ساتھ شامیانے میں داخل ہورہا ہے۔ ہیرو حاضرین کو ولن کے سارے کرتوتوں اور سازشوں سے آگاہ کرتا ہے۔ ہیروئن کا باپ اتنی بڑی بریکنگ نیوز سن کر غش کھانے لگتا ہے کہ پولیس انسپکٹر آگے بڑھ کر بغیر کسی سمن یا وارنٹ کے ولن کے ہاتھوں ہتھکڑی ڈال دیتا ہے۔ تماشائی حق کی فتح پر تالیاں بجاتے ہیں۔ ہیرو کی ایمانداری سے متاثر ہو کر ہیروئن کے باپ کی حالت سنبھل جاتی ہے اور وہ اپنی بیٹی کا ہاتھ اس نیک نوجوان کے ہاتھ میں دینے کا اعلان کرتا ہے اور وہ باراتی جو ولن کے ساتھ آئے تھے اب ہیرو کی شادی میں شامل ہوجاتے ہیں ۔شہنائی کی آواز تیز ہوجاتی ہے۔اور تماشائی ہنسی خوشی اپنے گھر جاتے ہیں۔
یہی ولن جو انتہائی شاطر ہے اور اڑتی چڑیا کے پر گن لیتا ہے، اکثر آخری سین میں جب اس نے ہیرو کی ماں اور چھوٹے بھائی کو ستونوں سے باندھا ہوا ہے اور چاروں طرف اس کے گرگے بندوقیں تانے کھڑے ہوتے ہیں کہ ہیروئن ایک پتلی سی جِھلّی کی نقاب اوڑھے اور ہیرو ایک باریک سی مونچھ لگاکر گانا بجانے والوں کے روپ میں داخل ہوتے ہیں، سارا ہال جنہیں پہچان کر تالی بجاتا ہے لیکن ولن ان دونوں کو نہیں پہچان پاتا۔
فلم کے دوران ولن کو سارے تماشائی گالیاں دیتے رہتے ہیں لیکن اگر یہ ولن فلم میں نہ ہو تو فلم ایسی ہی بے مزہ ہوتی ہے جیسے ہسپتالوں کے نمک مرچ کے بغیر کھانے جو مریضوں کو دیے جاتے ہیں۔ پاک و ہند میں ایسے کئی ولن ہیں جن کے بغیر ہماری فلموں کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔ تقریباً ہر فلم میں ہی ایک ولن ہوتا ہے چنانچہ ولنوں کی ایک کثیر تعداد ہے لیکن آج ہم چند ایک ایسے بدمعاشوں کی بات کرتے ہیں جن کی بدمعاشی میں بھی ایک آن بان ہے اور جو اپنے مخصوص انداز اور کرداروں سے پہچانے جاتے ہیں۔ میرے دوست رنجیت، شکتی کپور، گلشن گرور جیسے چھٹ بھئیوں کے نام لیں گے جنہیں سوائے لڑکیوں کی عزت لوٹنے اور فراڈ کرنے کے کوئی کام نہیں آتا۔ لیکن میں ان چنیدہ ولنوں کا ذکر کررہا ہوں جن کا اپنا ایک معیار ہے اور ولن ہونے کے باوجود وہ عام زندگی میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور دیکھے جاتے ہیں.۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،
اسلم پرویز
“ جمیلہ رو۔۔جمیلہ رو۔۔رو جمیلہ تیرا دولہا مرگیا ہے”
یہ میرا اسلم پرویز سے پہلا تعارف تھا۔ اور شاید یہی فلم “ سہیلی” تھی جس میں اسلم پرویز پہلی بار ولن کے روپ میں آئے تھے۔ خوبرو اور خوش لباس اسلم پرویز، فیلٹ ہیٹ، بو ٹائی، سفید کوٹ اور کالی پتلون میں کسی ہیرو سے کم نہیں لگتے۔ اور سنا ہے کہ ولن بننے سے پہلے پاکستان میں سب سے زیادہ ہیرو کے کردار اسلم پرویز نے ہی کئے تھے۔ ان کی بطور ہیرو فلمیں “نیند” اور “رہگذر دیکھیں جن میں وہ ولن جیسے لگے۔ لیکن رواج اور سہیلی جیسی فلموں میں وہ ولن تھے لیکن ہیرو لگے۔ بہرحال اپنے وقتوں میں وہ بطور ولن ہر فلمساز کی اولین پسند ہوتے تھے۔ ان کا مکالمے بولنے کا ایک مخصوص انداز تھا اور بدمعاش ہونے کے باوجود بھی پڑھے لکھے نظر آتے۔
ٹریفک کے ایک حادثے نے پاکستان کی فلمی صنعت کا سب سے خوبرو ولن ہم سے چھین لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادیب
“رومن قوم کے ذلیل کتّے”
یہ شاید ادیب کے لئے کہا گیا تھا اور فلم تھی غالبا “عادل” ۔۔میں نے عادل نہیں دیکھی۔ میں نے ادیب کی کوئی فلم نہیں دیکھی۔ میں نے عادل کو ساٹھ کی دہائی میں جب کراچی ٹیلیویژن نیا نیا شروع ہوا تھا، بچوں کے لئے ایک تعلیمی پروگرام میں “ سر سید احمد خان” کے روپ میں دیکھا تھا۔ لیکن ایک وقت تھا کہ فلموں کے شائقین کے لبوں پر ادیب کا نام ہوتا تھا۔ ہمارے ایک استاد گنجے تھے اور یاروں نے ان کا نام ادیب رکھا ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مظہر شاہ
“ اوئے میں ٹبّر کھانداں، ڈکار ناں لینداں۔۔اؤےےےےےے”
ہیرو اور ہیروئن اچھے بھلے کھیتوں میں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔ ہیروئن کدکڑیاں لگاتی پھر رہی ہے، ہیرو اس کے پیچھے دانت نکالے دوڑا چلا آرہا ہے کہ اچانک گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز آتی ہے۔ گھوڑے پر سوار جوان گھوڑے کو قابو کرتا ہے اور بڑھک مارتا ہے “ اوئے۔۔۔میں ٹبّر کھانداں۔۔”
یہ مظہر شاہ ہے۔ پنجابی فلموں کا مقبول ولن..۔ اسے فلم میں لیا ہی اسی شرط پر جاتا ہے کہ یہ بڑھک ضرور مارے گا اور ٹبر کھانے والا مکالمہ ضرور بولے گا۔
میں نے شاید مظہر شاہ کی ایک دو ہی فلمیں دیکھی ہیں لیکن ایک زمانے میں مظہر شاہ، ساون اور الیاس کاشمیری پنجابی فلموں کے لیے لازم وملزوم تھے اور ان سب میں مظہر شاہ اپنی بڑھک کے لیے مشہور تھے۔ پردے پر ان کی آمد کے ساتھ ہی تالیاں گونجنے لگتیں جو کہ ہیرو کے لیے کبھی نہ بجتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصطفیٰ قریشی
“ نواں آیا ای سوہنیا؟”
سرگوشی کرتی ہوئی آواز میں یہ سوال فلم بینوں کے دل کو چھو جاتا۔ کہاں تو یہی فلم بین مظہر شاہ کی بڑھکوں کے عادی تھے اور اب بھی سلطان راہی کی بڑھکیں سنتے تھے۔ لیکن مصطفٰی قریشی نے مکالمہ بازی کا نیا انداز متعارف کرایا۔ “ لاکھوں میں ایک” سے اپنی فلمی زندگی کا آغاز کرنے والے مصطفٰی قریشی نے عندلیب اور دیگر اردو فلموں میں اچھا خاصا نام کمایا تھا کہ سندھی بولنے والے اس اداکار کے جی میں نجانے کیا آیا کہ پنجابی فلموں میں کام شروع کردیا اور وہ بھی ایسے کہ سلطان راہی اور مصطفٰی قریشی کے بغیر پنجابی فلم بنانے کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
“ مولا جٹ” کا یہ مکالمہ “جے تو وساکھی لے کر چلے گا تو تیری وساکھی وچ کھٹ کھٹ دی نئی نت نت دی اواج آئے گی” آپ چاہے ہزار بار سنیں، ہر بار ایک نیا لطف آئے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پران
“پتہ ہے شکورساب ؟پران بلوچ ہے!”
“نہیں یار۔ میں نے تو سنا ہے وہ پنجابی ہے۔ نورجہاں کی پہلی فلم کا ہیرو تھا۔”
“ میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ پران بلوچ ہے “ مراد علی اپنی بات پر اڑا ہوا تھا۔
“ وہ کیسے” میں اس کی کج بحثی سے چڑ رہا تھا۔
“ وہ آخر تک بندوق نہیں پھینکتا۔ بلوچ بھی مرجاتا ہے لیکن بندوق نہیں پھینکتا” مراد علی بلوچ نے دلیل پیش کی۔
نوجوان مراد علی بحرین میں ہمارے بنک میں آفس بوائے تھا۔ فلموں کا شوقین۔ پران اور راج کمار اس کے پسندیدہ اداکار تھے۔ راج کمار اس لئے کہ لورالائی میں پیدا ہوا تھا اور پران اس لئے کہ کسی فلم میں بندوق نہیں پھینکی۔ مراد علی نے تین چار فلموں کے نام گنوائے۔
“ شیر خان آج کا کام کل پر نہیں ٹالتا”۔
“شیر خان کالا دھندہ کرتا ے لیکن ایمانداری کے ساتھ”
“ تاؤ سب کے سب پھانسی چڑھیں گے”۔
اپنے مخصوص انداز میں مکالمے بولنے والا پران بھی ہمارے اسلم پرویز کی طرح پہلے ہیرو آئے پھر ولن بنے۔ ولن کے بعد کیریکٹر ایکٹر بھی ایسے بنے کہ کمال کردیا۔ پران ان اداکاروں میں تھے جو اپنے کرداروں کو سمجھ کر کرتے تھے نہ کہ ہدایتکار کی ہدایتکاری کے محتاج ہوتے تھے۔ پران صاحب اکثر اپنا گیٹ اپ خود منتخب کرتے اور اکثر مکالمے میں بھی اپنی مرضی سے ردوبدل کرتے۔
فلم “جس دیش میں گنگا بہتی ہے “ میں وہ اکثر مکالمے بولتے ہوئے، خصوصا ایسی مکالمے جس میں پریشان یا غصہ میں دکھایا گیا ہو، وہ اپنے کالر کے اندر انگلی ڈال کر گردن پر پھیرتے۔ یہ اس بات کی علامت تھا کہ پران جو فلم میں ایک ڈاکو ہیں انہیں لاشعور میں ہر وقت پھانسی کے پھندے کا خیال رہتا ہے اور اضطراب کی حالت میں بے اختیار اپنی گردن پر انگلی پھیرتے ہیں۔
ایک اور دلچسپ واقعہ فلم زنجیر کا ہے جس میں انہوں نے پٹھان کا کردار کیا تھا۔ کہانی کے مطابق انہیں پٹھانوں والی پگڑی پہننی تھی تاکہ اپنے دوست کی رہائی کے لئے مہاجن سے قرض مانگتے وقت رہن رکھنے کے لئے پگڑی دے سکیں۔ لیکن پران نے اصرار کیا کہ وہ پگڑی نہیں باندھیں گے بلکہ خیبر کے آس پاس کے کسی علاقے کے پٹھانوں کی طرح پٹے دار بال رکھیں گے۔ اب اس صورت میں رہن کیا رکھا جائے ؟۔
پران نے کہا کہ یہ مجھ پر چھوڑ دیں۔ مہاجن اپنے مکالمے بولے۔ میں اپنا مکالمہ بولوں گا۔ پران صاحب سینئیر اداکار تھے۔ ہدایتکار ان کا احترام کرتے تھے۔ انہوں نے پران صاحب کی بات مان لی۔
شوٹنگ شروع ہوئی۔ مہاجن نے کہا “ تو بھایا رہن رکھنے کے لئے بھی کچھ ہے؟”
“ پٹھان کی مونچھ کا بال “ پران نے اپنی مونچھ سے ایک بال اکھاڑ کر مہاجن کے حوالے کیا
“ رہنے دے بھایا۔ کھرے آدمی اور کھوٹے سکے کی منے اچھی طرح خبر ہے” یہ مکالمہ ہوا اور سیٹ تالیوں سے گونج اٹھا۔
آج کوئی فنکار ہے ایسی سمجھ بوجھ اور مطالعے والا ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اجیت
“بر خوردار”
ہیرو کو اتنی نرمی سے شاید ہی کوئی ولن پکارتا ہو۔
“ مونا ڈارلنگ”۔۔لائن کو صرف دو چیزیں پسند ہیں ۔ مونا۔۔اور مونا کے ساتھ سونا”
اور یہ لائن شاید ہندوستان میں سونے کے سب سے بڑے اسمگلر تھے جن کا سونا ہمیشہ و رسوا بیچ یا مجگاؤن ڈاک پر آتا تھا۔ حکومت ہند کو چاہئیے کہ ان بندرگاہوں پر لائن کے نام سے ایک ٹرمنل قائم کردے۔
“ للی۔۔ڈونٹ بی سلی”۔۔
رااابرٹ اور مائیکل۔۔ اجیت کی زبان سے یہ مکالمے ہیرو کے گرج دار مکالموں سے زیادہ شہرت پاتے۔
حامد علی خان المعروف بہ اجیت یا لائن۔۔ہمیشہ بہترین لباس میں نظر آتے۔ آنکھوں پر سیاہ چشمہ، سفید سوٹ اور سفید جوتے۔ اور مکالموں کی ادائیگی کا نستعلیق انداز۔
بلاشبہ وہ ہندوستان کے ایک منفرد ولن تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پریم چوپڑا
“ پریم نام ہے میرا! پریم چوپڑا”
جیمز بانڈ کی طرح نام بتانے کا یہ انداز پریم چوپڑا کے ساتھ مخصوص ہوگیا۔ ہر وقت جائیداد حاصل کرنے کے لئے جوڑ توڑ میں مصروف پریم چوپڑا بھی دھیمے انداز میں مکالمے بولتے۔ یہ بھی شاید ہیرو بننے کے لئے فلموں میں آئے تھے لیکن شہرت ( یا عزت) برا آدمی بن کر ملی۔
ہمارے وزیر خارجہ جب بات کرتے ہیں تو مجھے نجانے کیوں پریم چوپڑا یاد آتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریش پوری
“موگا مبو خوش ہوا”
امریش پوری کا یا مکالمہ اب ضرب المثل بن گیا ہے۔ وہ ہندوستان کے ان اداکاروں میں سے ہیں جن کا نقش فلموں پر بہت دیر تک رہے گا۔
لیکن فلم میں زبردست طاقت کے مالک امریش پوری کا انجام بہت ہی خواری والا ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امجد خان
“ تیرا کیا ہوگا کا لیا”
“ ہوں! تو کتنے آدمی تھے؟”
“ سرکار میں نے آپ کا نمک کھایا ہے۔۔۔۔۔تو اب گولی کھا”
یہ اور نجانے ایسے کتنے مکالمے ہیں جو آج تک بچے بوڑھے کی زبان پر اور روزمرہ کی بات چیت میں شامل رہتے ہیں۔
لیکن امجد خان کا سفر بلندی سے نشیب کی طرف تھا۔ بلاشبہ وہ بہترین اداکار تھے اور سنجیدہ اور مزاحیہ کردار بھی عمدگی سے ادا کئے۔ لیکن جو بھاری بھرکم اور یادگار ترین کردار انہوں نے اپنی پہلی فلم “شعلے” میں ادا کیا، اس کے بعد آنے والا کوئی بھی کردار اس کے پاسنگ بھی نہیں تھا۔
لیکن ایک بات میں بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ پاک و ہند کے تمام ولنوں کے کردار ایک طرف اور امجد خان کا “ گبر سنگھ” ایک طرف۔۔ یہ کردار صرف اور صرف امجد خان ہی کرسکتے تھے۔۔ اس سے بڑھ کر کسی ولن کا کردار مشہور نہیں ہوا۔
یہ سارے بدمعاش، ڈاکو، ڈون، گینگ لیڈر، قاتل، وحشی اپنی تمام تر خباثتوں کے باوجود ہمارے دلوں میں گھر کئے ہوئے ہیں۔ اسی لئے تو میں کہتا ہوں
بدمعاش ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...