(Last Updated On: )
انگریزی لفظ ٹرانسلیشن((Translationلاطینی زبان سے یورپی زبانوں میں آیا ہے۔ جس کے معانی پار لے جانا، نقل مکانی کرنا اور نقل معانی کے ہیں۔ ترجمہ کا لفظ عربی سے اردو میں منتقل ہوا ہے۔ اہل لغت کے نزدیک اس کا مفہوم نقل کلام، تفسیر و تعبیر، حال و احوال اور تذکرہ شخصی کے ہیں۔ تہذیب یافتہ قوموں کی ترقی کو جاننے اور ان کے علوم و فنون سے استفادہ کے لیے ترجمہ ایک پل کی مانند ہے۔ یہ ملک و قوم کی ترقی کی طرف پہلا زینہ ہے۔ ترجمہ ملک کے عروج و استحکام کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ مختلف ملکوں، قوموں، زبانوں اور ثقافتوں کے درمیان پڑے ہوئے اجنبیت کے پر دوں کو چاک کر کے انھیں ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے ۔یہ زبا نوں کی ترقی، پھیلاؤ اور اس کی افزائش میں وسعت کا اہم ذ ریعہ ہے بقول مرزا حامد بیگ ’’تراجم نے نئے اسالیب کو جنم دیا، نئے طرز احساس کو ابھارا، پیرائیہ بیاں میں صلابت، متانت اوراستدلال کو بڑھاوا دیا اور پیرائیہ اظہار کے نئے نئے سانچے فراہم کیے ؎۱
قومیں دوسری قوموں کے علم و فنون کے تراجم سے اپنی زبان کو باثروت بناتی ہیں اور زندہ قوموں کے نتائج کو اپنے اندر جذب کر کے اپنے علمی خزانوں کو مالا ومال کرتی ہیں۔ انسانی تمدن، مزاج اور قدیم تا ریخ کی دریافت اور شناخت کا واحد ذریعہ ترجمہ ہی ہے۔ بقول گوئٹے’’ جملہ امور عالم میں جو سرگرمیاں سب سے زیا دہ اہمیت اور قدر و قیمت کی حامل ہیں، ان میں ترجمہ بھی شامل ہے‘‘ ؎۲تر جمہ انسان کے فکرو وعمل میں تغیر، معلومات،، جمود کو توڑنے، زندگی کے ٹھہری پانی میں تموج پیدا کرنے اور تصنیف و تالیف میں جد یداسلوب کو متعارف کرانے کا واحد ذریعہ ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے۔ ترجمہ ہے کیا؟ یہ نا ممکن کو ممکن بنا کر کسی فن پارے کو کسی دوسرے پیکر میں ڈھالنے کا نام ہے۔ یہ کام آسان اس لیے کہ نہیں اس میں دو تہذبیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہوتی ہیں۔ مترجم لاکھ کوشش کے با وجود بدیسی ادب کے فن پارے کی روح کو اپنے ادب میں سمونے سے قاصر ہے، لہذٰا ترجمہ نام ہے ایک سعی نا مشکور کا ۲ ؎ مترجم کو سخت محنت کے بعد بھی صلے میں حقارت ہی ملتی ہے۔ چنانچہ ادبی دنیا میں ترجمہ کر نا گناہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ یونانی مقولہ ہے کہ ’’ ترجمہ ہمیشہ ایک بھنی ہوئی سڑا بری ہی رہے گا اور اصل ذائقہ سے محروم ہی رہے گا‘‘ ۔
ہم تر جمے کے ذریعے دوسری زبا نوں کی علمی بر تری کو ختم کر سکتے ہیں ہم ترجمے کے تو سط سے اپنی زبان کو قامت،گہرائی، گیرائی، پھیلائو اور اعتماد دیتے ہیں کیو نکہ مترجم کو دوران تر جمہ نئے لفظ وضع کرنے،نئے محاورت ترا شنے پڑ تے ہیں اسے نئے علوم اور تحقیق کے سا نچوں سے آگاہ ہونے اور اسلوب کے نئے پیرا ئے تر ا جم سے حا صل ہو تے ہیں۔چنا نچہ تر جمہ نا گز یر برا ئی ہے جس کے بغیرگزارہ ممکن نہیں۔ تر جمہ قو موں کے لیے او کسیجن کی مانند ہے۔یہ دو تہذ یبوں کے در میان رابطے کا نام ہے۔ اسی کے تو سط سے دنیا بھر کے علوم و فنون پوری بنی نوع انسا ن کی ملکیت بنتے ہیں۔ جن قو موں میں علم کی طلب، سچا ئی کی تڑ پ اور تر قی کر نے کا جذبہ ہو ۔ وہ تر قی یافتہ اقوام کے علوم کا تر جمہ کر کے دنیا میںکا میاب ہو سکتی ہیں۔بد یسی ادب کے تر جمے کا اصل مقصد اس زبان کی طاقت کو اپنی زبان میں د کھانا ہے ۔ بقول سیسرو’’ مترجم کا کام لفظ کی جگہ لفظ ر کھنا نہیں بلکہ مصنف کے اسلوب اور زبان کی طاقت کو اپنی زبان میں محفوظ کرنا ہے ۔ ‘‘ تاہم شاعری کا تر جمہ نا ممکنات میں میںسے ہے۔ بقول ڈاکٹر سموئیل جا نس’’ شا عری تر جمہ ہو ہی نہیں سکتی ‘‘ ہندو ستان کی تہذیبی، مذ ہبی، لسا نی اور سیا سی تا ریخ میں۲۷، مئی ۱۴۹۸ء کا دن بہت اہم ہے کیو نکہ اسی روز پر تگا لی جہاز ران واسکو ڈے گاما نے مالا بار کے سا حلی علاقے پر قدم رکھا تھا۔ وہ ایک سال کے بعد چلا گیا تا ہم اس نے عر بی اور یو رپی تا جروں کو ہند و ستا ن میں تجا رت کا راستہ دکھا دیا۔اب یورپی ،فرانسیسی او ر عربی بیجا پور کی بندر گاہ’’گوا‘‘ سے ہوتے ہوٗے بمببی اور ’’ہگلی‘‘ تک آنے لگے۔ یہ ہند و ستان میں بد یسی ادب کی آمد کا نقش اول تھا۔
ہند و ستان میں تر اجم کی تار یخ میں ولیم کیری پہلا شخص ہے ۔جو لندن سے پا نچ ماہ کا طویل بحر ی سفر کر کے ہندوستان کے شہر ’’سیرام پور ‘‘ پہنچااور اسی شہر میں پہلا چھا پہ خا نہ قا ئم کیا اور یہیں سے با بئیل کا بنگا لی زبان میں تر جمہ کر کے شا ئع کیا۔ اس نے اسی شہر میں کا غذ سا زی کا کا ر خا نہ بھی قا ئم کیا۔
بر طا نیہ میں سرخ مرچ کے اچانک نرخ بڑ ھ جانے پرچند آسودہ حال لو گوں نے لندن مین ایسٹ انڈ یا کمپنی کی بنیا د رکھ کے ملکہ الز بتھ سے ہندو ستان کے ساتھ تجا رت کرنے کا اجازت نا مہ حاصل کر لیا۔پر تگالی کا رو باری سوچ کی بنا ء پر یورپی تا جروں کو شکت دے کر بمبئی اور اس کے گردو نواح پر قابض ہو گئے۔ شہزا دہ چا رلس دوئم کی۱۸۶۰ء میں پر تگالی شہزادی سے شا دی ہوئی تو پر تگا لیوں نے اس علاقے کو شہزادی کے جہیز میں دے دیا۔ ملکہ بر طا نیہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے حوالے کر دیا ۔اس طرح انھیں یہا ں پا ئوں جمانے کا سنہرا موقع میسر آیا۔
اب انگر یزوں کو افرادی قوت کی ضروت محسو س ہوئی تو انھوں نے لندن سے گوروں کو بلانا شروع کر دیا۔ ان کو ہندو ستانی زبا نوںکی تعلیم و تر بیت کے لیے ۱۸۰۰ ء میں فورٹ ولیم کا لج قائم کر نا پڑا ۔ جس میں نصا بی ، مذ ہبی اور بدیسی ادب کے تراجم کا پہلی بار اہتمام کیاگیا۔نواب غا زی الد ین نے د ہلی میں ایک مدر سہ ۱۷۹۲ء میں قا ئم کیا تھا۔ چا رلس گرانٹ نے اس مد رسے کو ۱۸۲۵ء دہلی کالج میں تبدیل کر کے اس میں انگر یزی کا شعبہ کھول دیا۔ جس سے ہند و ستا نیوں میں بے چینی پھیلی بقول مو لوی عبد الحق ’’ دین دار لوگوںکا خیا ل تھا کہ ہمارے نو جوا نوں کا مذ ہب بگا ڑنے اور اندر ہی اندر عیسائی مذہب کے پھیلا نے کی تر کیب ہے‘‘ ۳؎
ولیم کیری نے ’’سیرام پور‘‘ میں عیسائت کی تعلیم دینے کے لئے ایک نجی تعلیمی ادارے کی بنیاد ۱۸۱۸ء رکھی۔جو ہندو ستان میںمسیحی تعلیم دینے کا سب سے بڑا ادارہ تھا ۔ ڈنمارک کی حکومت نے ۱۸۲۷ء میں اسے یو نیو ر سٹی کا درجہ دیا تھا۔ انگر یزوں نے برسراقتدار آ کر ۱۸۵۷ء میں اس کا الحاق کلکتہ یو نیو رسٹی سے کر دیا ۔ہندو ستا ن میں ان تینوں اداروں سے بابئیل کے تراجم کی ابتدا ء ہوئی۔
انگر یز سمجھتے تھے کہ ہندو ستا نیوں کو عیسائیت کی طرف راغب کر کے ہم مذ ہب بنا یا جا سکتا ہے ۔ مذہب سے محبت انسان کے خون میںشامل ہے ۔ ہندو ستانی ہمارے ہم مذ ہب ہو گئے تو ہمیں لوٹ مار سے کو ئی نہیں روک سکے گا۔ بقول علی عباس جلا لپو ری’’ عیسا ئیت کی اشاعت سے اہل مغرب کا مقصد یہ تھاکہ دیسیوں نے عیسا ئیت قبول کر لی تو وہ اپنے مغربی آقا ئوں کو اپنا ہم مذ ہب سمجھ کر ان کی لوٹ گھسوٹ کے خلاف احتجا ج بند کر دیں گے‘‘ ۴ ؎
ہندو ستان میں بد یسی ادب کے تر اجم پر نظر ڈالی جائے تو د ہلی کالج کی خد مات نا قا بل فرا موش ہیں انگر یزوں نے اس کالج میں مشر ق و مغرب کے علوم وفنون اور روشن خیا لی کو حکمت و دا نائی سے ایک جگہ مجتمع کر دیا تھا۔ بقول با بائے اردو مو لوی عبدالحق’’یہ پہلی درس گاہ تھی جہاں مغرب و مشرق کا سنگم قائم ہوا۔ ایک ہی چھت کے نیچے مشر ق و مغرب کا علوم ایک ساتھ پڑھا ئے جانے لگے جس نے ایک ایسی جماعت ایسی تیار کی جس میں پختہ،روشن خیال اور بالغ نظر انسان اور نکلے جن کا احسان ہماری زبان اور ہما ری سوسائٹی پر ہمیشہ رہے گا ‘ ‘ ؎ ۵ اس کالج سے فارغ التحصیل ہو نے والے طلبہ و اسا تذہ میں ڈپٹی نذیر احمد، مولوی محمد حسین،رام چندر، پیارے لال لاشوب، مو ہن لعل کشمیر ی، پنڈت من پھول، مو لو ی ذوالفقار علی ،ذ کا اللہ،شیخ ضیا ا لد ین،مو لوی شہا مت علی،پنڈت مو تی لا ل بسمل،کنہیا لال بسمل،امام بخش صہبائی، مو لوی مملوک علی، مولوی ا حمد علی، مولوی کر یم ا لد ین، مو لو ی سبحا ن بخش ،ماسٹر حسینی،منشی اشرف علی، رام کر شن ،دھر م نرائن، ماسٹر نور محمد، حسن علی خان، سید کمال ا لد ین حیدر، منشی شیو نرائن آرا ا ور میر ناصر علی زیادہ نمایاں ہیں ان بز ر گوںنے انگر یز ی تعلیم حا صل کر کے بدیسی تراجم سے اردو شعروء ادب میں قا بل قدر اضا فہ کیا ۔
اسی کالج میں ’’ اسکول بک سو سا ئٹی ‘‘۱۸ ۲۰ء میں قا ئم ہوئی۔جس میں انگر یزی کتب کے ۱۲۸ تراجم ہوئے پھر کالج کے پر نسپل فلیلکس بو تروا نے ۱۸۴۱ء ــ’’ ورنیکلر ٹرانسلیشن سو سائٹی‘‘ قائم کر کے اس کالج سے فا رغ التحصل ہو نے طلبہ کو یو رپی ادب کے تراجم کی طر ف متو جہ کیا۔ ان کتب کے تراجم سے اردو ایک مخصوص علاقے سے نکل کر پو رے ہندو ستا ن میں سمجھی اور بولی جا نے لگی۔
اردو ادب میں جس شخص نے اپنے طور انگر یزی سیکھی وہ ڈپٹی نذیر احمد تھے۔کہیں سے ان کے ہاتھ ڈے سمتھ DAY SMIT کی کتاب سینڈ فورڈ اینڈ مرٹن MORTON SAN FORD AND لگی ۔ جس میں بچو ں کے تعلیمی ،اخلاقی اور سا ئنسی مسا ئل اور سا ئنسی مسائل بیا ن کیئے گئے تھے۔نذیر احمد نے اس کا تر جمہ کر کے اس’’بنا ت النعش ‘‘ کے نام سے شائع کیااور اس کا دوسراحصہ ’’ مرا ۃ العر وس‘‘ کے نام سے چھا پا۔انھوں نے ڈئینیل ڈ یفو DEFOIE DANIELکی کتا ب THE FAMILY INSTRUCT REALITINGT TO FATHER AND CHILDREN کے تیسرے باب کا تر جمہ ’’تو بہ النصوح‘‘کے نا م سے کیا ۔ اب انھیں تر جموں پر انعا م بھی ملنے لگے۔محمد حسین آزاد نے بدیسی ادب سے استفادہ کر کے ’’نیرنگ خیال‘‘ مرتب کی۔ جس میں زبان اسٹیل ،ایڈسن ،پا رنیل اور یو رپی ادیبوں کے مضا مین کے تراجم یا ان کے خیالات کو شائع کیا۔ بقول ڈاکٹر جمیل’’نیر نگ خیال کا سب مواد کم و بیش ماخوذ یا تر جمہ ہے ‘‘ ا س سو سا ئٹی کے سیکر یڑ ی اور کالج ہذا کے پر نسپل فلیکس بوترو ا نے اپنے ایک خط دسمبر ۱۸۴۰ء میں گا ر سین د تاسی کو لکھا۔
’’ہندو ستانی زبان نے دو تین ایسی سال ایسی زبا ن کی اہمیت حا صل کر لی ہے جو اس سے پہلے نہ تھی
یہ بہار اور مغر بی صو بوں کی یعنی راج محل سے لے کرہر دوار تک کی سر کاری زبان بن گئی ہے۔ہر
دوا ر ہمالیہ کے دامن میں ایک قصبہ ہے۔یہ زبان پورے ہندو ستان میں سمجھی جا تی ہے ‘‘
انگریز۱۵۹۱ ء سے۱۷۳۴ء تک مذ ہبی کتب کے تراجم کی روایت سے واقف تھے تاہم سائنسی بنیا دوں پر بدیسی ادب کے تراجم کی ابتدا انیسویں صد ی کی چوتھی دہائی ۳۴ ۸ ۱ ء سے شروع ہوتی ہے۔ د ہلی کالج سے فارغ ہو نے والے طلبا و اساتذہ انگر یزی کتب کے مطالعے اور تراجم میں مصروف ہو گئے۔ انگر یز وں نے ہندو ستا نیوں میں اپنی تہذ یب اور اپنا ادب پھیلانے کے لئے ملک کے طول و عرض میں ادارے بنا کر ان میں مغر بی اد ب کے تراجم شر وع کرائے۔ لکھنئو میں سائنٹفیک سو سائٹی کا آ غاز ۱۸۱۴ء میں ہوا اس سو سائٹی کا دوسرادفتر ۱۸۳۳ء آگرہ میں کھولا گیا نواب شمس الا امراء نے حیدر آ با د میں سا ئنسی اور دیگر کتب کے تراجم شروع کرائے۔ چنانچہ سا ئنٹفیک غا زی پور ۱۸۶۴ء انجمن پنجا ب ۱۸۶۴ء روہیل کھنڈ لٹر یری سو سائٹی ۱۸۶۵ء اورئنٹیل کالج لاہو ر ۱۸۶۹ء مد رسہ العلوم علی گڑھ ۱۸۷۵ء اسلا میہ کالج پشا ور ۱۸۹۰ء دارالعلوم ند وہ العلما لکھنئو۱۸۹۲ء اور ایک تعلمی ادارے کی بنیا د حیدر آباد میں بھی رکھی گئی۔
اب انگریزوں نے اپنے ادب کی اشاعت کے لیے علمی و تحقیقی ادارے قائم کر نے شر وع کیے جن میںانجمن تر قی ہند ۱۹۰۳ء اورنگ آباد ، جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن۱۹۱۹ء جا معہ ملیہ اسلا میہ۱۹۳۰ء ادارہ ادبیات اردو حیدر آباد دکن۱۹۳۱ء میںقائم کر کے بدیسی ادب کو تراجم کے ذریعے عام کیا ۔ہندو ستان میں اٹھارویں صدی کے آخر میں انگر یزی خواندہ افراد کی تعداد خاصی ہو گئی تھی۔ وہ سر سید ،ڈ پٹی نذیر حمد،محمدحسین آزاد اورحالی کے افکارو نظریات سے وا قف ہو چکے تھے اب تعلیم یافتہ افراد نے اپنے طور پر انگریزی ادب کو پڑھنا شروع کیا۔
وہ بعد از مطا لعہ بد یسی ادب کے تراجم کی طرف متو جہ ہو ئے اور حصول ملا زمت کے لیے حکو مت کے قائم کر دہ تعلیمی اداروں سے ملحقہ تحقیقا تی ادروں سے وابستہ ہو گئے انھوں نے رتن ناتھ سر شار کے ناول ’’فسانہ‘‘( چار جلدیں) سر وا نتیس کے ’’ڈان کیخواتے ‘‘کا تر جمہ ہے ہمیں عبدالعلیم شرر کے تاریخی ناولوںمیں سر والٹر اسکا ٹ الگز ینڈر ڈوما،وکٹر ہیو گو اور رچر ڈسن کا پرتو نظر آتا ہے جبکہ مرزا ہادی رسوا کے نا ولوں پر ’’میر ی کو ریلی‘‘ کے تخلیق کر دہ ادب کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ فیروز تیر تھ رام پوری نے الگزر ز ینڈر ڈوما کے انگر یز ی ناولو ں سے استفادہ کیا ۔
نذیر احمد، شرر، رسوااور فیروز تیر تھ رام پوری کے بعد انگریزی خواندہ طبقے نے بدیسی ناول کی طرف توجہ کی اور اپنی انگر یزی فکر کو اردو ناول میں پراون چڑ ھایا۔چنا نچہ یورپی ناول کے فنی عناصر پلا ٹ،کہا نی ،( ابتدا ، وسط،اختتا م) کردار ،مکا لمہ،کشمکش،زباںو بیاں اورانجام اردو ناول کا حصہ بنے ۔پلا ٹ کی ضمن میں ’’امرائو جان ادا ‘‘ کا مطا لعہ کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ شا ہد احمد دہلوی نے آندر یف۔ل کے نا ولTHE SEVEN, WHO HANGEDکا تر جمہ ’’پھا نسی‘‘ رضیہ سجاد ظہیر نے ملک راج آنند کا ناول SEVEN SUMMERS سات سال ، بلقیس جہاں نے احمد علی TWILIGHT IN DELHIکا ’’ دہلی کی شام ‘‘حجا ب ا سما عیل نے ؔ’’الکا ٹ لو لز ‘کا ناول"LITTLE WOMEN"کا ’’ننھی بیبیاں‘‘ محمد حسین عسکری نے اینڈ ر سن اشٹرو کے ناوGOOD BYE" "TO BERLIN کا ’’آخری سلام ‘‘ رئیس احمد جعفری نے ’’برو نٹی ایمل ‘‘کے ناولMUTHERING HEIGTSکا ’’ محبت کا انتقام‘‘ابو سعید قر یشی نے بک پرل ایس کے ناولGOOD EARTH کا ’دھرتی ماتا‘‘ ممتا ز شر یں نے بک جان سٹین کے ناول PEARL THE کا ’’ در شہسوار‘‘ اور منشی پر یم چند نے رابندر ناتھ ٹیگور کا بنگالی ناول’’ جو کھیر والی‘‘ کا انگر یزی ناول کے تو سط سے ’’جیو ن پر بھارت‘‘ کے نام سے تر جمہ کیا۔ان بدیسی تراجم کی بنا پرء اردو ادب کو منشی پر یم چند کا گئو دان، میدان عمل ،بازار حسن ، سجا د ظہیر کا لندن کی ایک رات عزیز احمد کا گریز کرشن چندرکا شکست عبداللہ حسین کا اداس نسلیں ،نادار لوگ،با گھ ، احسن فاروقی کا شام اودھ،سنگم ، قراہ العین کا ناو ل آگ کا دریا،آخرشب کے ہم سفر،گردش رنگ چمن ،شوکت صدیقی کا خدا کی بستی ،فضل احمد کریم فضلی کا خون جگر ہو نے تک اور جمیلہ ہاشمی کے ناول میسر آئے۔
ڈراما اگرچہ مغرب کی پیداوار ہے ہند وستا ن میں پارسی اسٹیج نے تجا رتی ضرروتوں کے پیش نظر ڈرامے کے فنی عناصر میں تبد یلیاں کی لیکن آغاحشر نے شیکسپیر کے ڈرامے ’’ کنگ لیئر ‘‘ کا تر جمہ کر انگریزی خواندہ طبقے کو یورپی ڈرامے کی طر ف کیا۔ چنا نچہ عز یزاحمد نے’’جو لیئس سیزر‘‘ مولوی عنائت الللہ نے ’’رو میو اینڈ جو لیٹ‘‘ حا مد عزیز مدنی نے’’ انطونی قلو پطرہ‘‘ ڈاکٹر عابد حسین نے’’فا ئو سٹ‘‘ نور الہی نے یور پی ڈراموں کو اردو میں منتقل کر کے ہندو ستانیوں کو دوسری اقوام کے قریب کرنے کوشش کی ۔بدیسی ادب کے تراجم میں ڈرامے کی ضمن میںآنے والے فنی عناصرپلا ٹ، کردار۔ مکا لمہ۔ تصادم، خود کلامی اور اختتام ہی اردو ڈرامے کے فنی عناصر ٹھہرے۔
ہمارے اردو کے ادیبوں نے بدیسی ادب کے تراجم کئے ۔اس ادب میں جن انسانی، تہذیبی، معاشرتی ،معاشی رویوں پر روشنی ڈالی ۔ اردو کے کم و بیش تمام ادباء نے ان اقدار پر مشرقیت کا ر نگ و روغن کر کے پیش کیا اور بیرونی ادب میں جن ادبی تحر یکیں اور ادبی رجحان پروان چڑھے ان کی با ز گشت اردو میں بھی سنی گئی۔بدیسی ادب کے تراجم میں تاریخی ناولوں کے تراجم ہوئے تو یہاں کے ادب نے تاریخ کے پس منظر میں شرر، ریئس احمد جعفری اور نسیم حجازی نے تاریخی ناول لکھ کے اردو ادب میں اضافہ کیا۔چنانچہ تاریخی ناول بھی بد یسی ادب کے طفیل ہی اردو میں آیا۔
ہمارے ادیبوں نے بدیسی ادب کے تراجم کی ذیل میں مذ ہب اور مذ ہبی شخصیا ت کے پس منظر میں لکھے گئے ادب کا بھی ترجمہ کیا ان تراجم کے پس منظر میں علامہ شبلی نے مذ ہبی شخصیا ت کی سوانح عمر یاں جمیلہ ہا شمی کا ناول د شت سو س اور اشفاق احمد نے اصلاحی ادب تخلیق کیا ۔ بدیسی ادب کے تراجم کی ذیل میں معاشرتی زند گی کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں یہ جھلکیاں شوکت صد یقی کے ناول ’’ خدا کی بستی ‘‘ اور احمد ند یم قا سمی کا افسا نوں میں بھی نظر آتی ہیں۔ بدیسی اد ب کے موضوعات میںجنس کو نما یاں مقام حاصل ہے۔
سعادت حسن منٹو نے ٹھنڈا گو شت، کھول دو، عصمت چغتائی ’’ لحاف‘‘ اور وا جدہ تبسم نے’’ نتھ اتروائی ‘‘ افسانے قلمبند کئے ۔ بد یسی ادب میں short story جس کا تر جمہ ’ مختصر کہانی یا افسا نہ کیا گیا ہے اس صنف کا موجد ایڈ گرا لین تھا۔سجا د حیدر یلدرم نے بدیسی زبان تر کی کی مختصر کہا نیاں کا تر جمہ کر کے اردو میں اس صنف کی بنیاد ڈالی۔منشی پریم چند نے رابندر ناتھ ٹیگور کی بنگالی اور انگریز ی کہا نیوں کا ترجمہ کر کے اردودنیا میں متعارف ہوئے ۔ بـدیسی ادب کے تراجم کی بدو لت ہی نیاز فتح پوری، مجنوں گور کھ پوری، سعا دت حسن منٹو، عظیم چغتائی، علی عباس حسینی، عصمت چغتائی اور محمد حسن عسکری دستیاب ہوئے۔
ّٓٓ آپ بیتی بھی بدیسی ادب کے تراجم کی وجہ سے اردو ادب میں داخل ہوتی ہے چنا نچہ دیوان سنگھ مفتوںکی ’’ناقابل فراموش‘‘ نقی محمدخاں کی ’’عمر رفتہ‘‘ جوش ملیح آبادی کی’’یادوں کی برات‘‘ اور قد رت الللہ شہاب کی ’’ شہا ب نامہ‘‘ نے اپنے ان مٹ نقوش چھوڑے بدیسی ادب کے تراجم نے اردو میں آفاقیت کو متعارف کرایا آفاقیت سے مراد ایسا فن پارہ جو ہر دور کے قارہین کو متاثر کرے چنانچہ شوکت صدیقی کا ناول ’’ خدا کی بستی‘‘ قراۃالعین کا ’’آگ کا دریا‘‘ عز یز احمد اور کرشن چندر کے ناولوں کو اردو کے آفاقی ادب میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ اردو میں ارفعیت کی اصطلا ح بھی بدیسی ادب کے تراجم کی مر ہون منت ہے۔ ارفعیت سے مراد ایسا عظیم ادب جوقا ری کو بلند تر انبساط ،وجد انگز یز جذبات اور تخیل کی اعلی سطح پر لے جائے ارفع ادب کی ضمن میں قاضی عبدالستار کی کتاب ’’ لیلیٰ کے خطوط‘‘ اور راجہ محمد انور کی کتاب’’ جھوٹے روپ کے د ر شن‘‘ کو اعلی ادب میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
تمثیل نگاری بھی بدیسی ادب کے تراجم کے ذریعے اردو ادب کا حصہ بنی۔ اس ضمن میں محمدحسین آزاد کی کتاب ’’ نیر نگ خیال ‘‘ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ ادب میںحقیقت نگاری یا حقیت پسندی بھی بدیسی ادب کے تراجم کے راستہ اردو ادب کا حصہ بنی۔ادب میں اشیائ،اشخصاص اور واقعات کو کسی تعصب،عینیت،موضوعات کو رومانیت سے آلودہ کیے بغیرپو ری صداقت اور دیانت کے پیش کر نے کوحقیت نگاری کانام دیا گیا ہے۔ منشی پر یم چند کا افسانہ’’کفن‘‘حقیت نگاری کی عمدہ مثال ہے۔ بدیسی ادب کے تراجم کی وجہ سے اردومیں جد لیاتی مادی ( DIALECTICAL MATERIALIS M) کا دروازہ کھلا۔ ہیگل، کارل مارکس اور ایف ۔ جی اینگلزکے فلسفہ مادیت کے امتزاج سے اردو ادب میں اشتراکیت اورمارکسیت کے فکر ی مباحث ادب کا موضوع بنے ۔ اس ضمن میں مجنو ںگو ر کھ پوری کی کتاب ’’ ادب اور زندگی‘‘ظہیر کا شمیری اور سید سبط حسن کا تخلیق کر دہ ادب دیکھا جا سکتاہے۔
ؓ بدیسی ادب کے تراجم نے نفسیات کے حوالے سے اردو ادب کو متاثر کیا ۔چنانچہ تحلیل نفسی کے تناظر میں شعرا ء ادبا کے فن کو دیکھنے کا عمل شروع ہوا۔ ڈاکٹر سیلم اختر نے مرزا غالب اور ڈاکٹر جمیل جالبی نے ن ۔م راشد اور میرا جی کو اسی پس منظر میں دیکھنے کی روایت ڈالی۔تراجم نے اردو ادب میں جمالیات کا باب بھی کھولا اسی تناطر میںادب میں حسن اور فنکاری کا جا ئزہ لیا جانے لگاجس میں کتاب کا موضوع، ضمنی مسائل مصنف کا نقط نظر اس کا مقصد اور اس کے فنی لوازم پر بحث ہو نے لگی۔ تراجم نے ہندوستانیوں کو مزاح لکھنے کی طر ف متوجہ کیا پطر س بخاری ،شفیق الراحمن،کرنل محمد خاں ، مشتاق احمد یوسفی اور مشکور حسین کوشش کے باوجود انگریزی مزاح کے طلسم سے نہ نکل سکے۔
تراجم نے اردو میں سفر نامے کو بھی متعارف کرایا۔ یوسف حسین کمبل پوش نے۱۸۴۷ء میں یورپ کا سفر کیا اورواپسی پر ’’عجائب فر نگ‘‘از یو سف خاں کمبل خا ں پوش کے نام سے تحر یر کیا۔ اب دوسر ے لوگ بھی اس صنف کی طرف متو جہ ہوئے۔ظفر عمر نے انگر یزی تراجم کی بدولت اردو ادب میں پر اسرایت ،تحیر اور جا سو سی ادب کی بنیاد ڈالی۔بدیسی ادب کے تراجم سے مسز عبدالقادر اور اسماعیل نے ایڈ گرا یلن پو کے زیر اثر حیرت اورتحیر کی فضا کو اردو ادب میں داخل کیا ۔ بدیسی ادب کے تراجم میںادبی فن پاروں کو جانچنے کی ضمن میں جو اصول و قواعد مقر ر کئے گئے ۔انھیں تنقید کا نام دیا گیا۔ ہمارے انگریزی خواندہ طبقے نے انھی اصو ل وقواعدکی روشنی میں اردو شعرو ادب کا جائزہ لیا جس سے یہا ںاردو تنقید کی بنیاد پڑی پھر اس سے تا ثرا تی ،جمالیاتی، مارکسی، نفسیاتی اور متنی تنقید کے دبستان وجود میں آٗئے۔ ان تراجم سے عملی تنقید نے جنم لیا۔ ان بدیسی ادب کے تراجم اردو ادب میں سارتراور کا میو کی وجودیت، ایذ را پو نڈ کا ابہا م ، فرانسیسی علامت نگاری، دادا ازم سویلرز م ،امیجر ی ازم، پسند ناپسند کاخیال ، سو چنے سمجھنے کی صلاحیت اور بچوں کی تعلیم وتر بیت، پرانی تہذ یب سے آگاہی، ذخیرہ الفاظ میں اضافہ، لا ہبریری کو سلیقے سے ترتیب دینے کا طریقہ،جدید علم الکلام لکھنے کا شعور، مذہب اور سیا ست کا جوڑ ان تراجم کے توسط سے ہوا۔
تراجم سے روایتی عقائد پر کاری ضرب لگی ما فوق الفطرت عناصر سے یقین کا اٹھنا، ْقرآن مجید اور دیگر مذہبی کتب کو حقا ئق اورسائنسی نقطہ نظر سے دیکھنے کا رجحان، جذ بہ مسا بقت، نئے علوم و فنون کی دریافت،پر نٹنگ پریس کی تنصیب، انگر یزی تعلیمی اداروں کااجراء اور رسائل و جرائد کی اشاعت بھی بدیسی ادب کے تراجم کی ہی مر ہو ن منت ہے ۔بدیسی ادب کے تراجم نے نئے اسلوب کو جنم دیا ،نئے احساس کو ابھارا، صلا بت،متانت اور منطقی اسلوب کو اردومیں داخل کیا ۔ان تراجم سے اظہار کے نئے نئے سانچے وجود میںآئے ۔ یوں اردو ادب میں تذ کرہ کی جگہ تنقید، کہا نی کی جگہ افسانہ،تمثیل کی جگہ ناول ،رہس اور نو ٹنکی کی جگہ ڈرامے نے لے لی۔ان تراجم کی بناء پر اردو زبان نے ادبیات عالم کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا سیکھ لیا۔ہما رے شعرا ء ادباء نے اردو کی عالمگیر یت کے تناظر میں عمر خیام اور رابندر ناتھ ٹیگورکے تراجم کر کے مغرب کو مشرقیت ،حسن ،تصوف او ر وجد انی قدروں سے متعارف کرایا۔
ہمیں بدیسی ادب کے تراجم کی بدو لت ہی دنیا کے مسا ئل بھوک، رہا ئش ،تعلیم ،صحت ،مہا جرین کے مسائل ،صحت اور انسانی مشکلات سے آگا ہی ہوئی ۔ان تراجم سے انسانی ہاتھوں کی محنت اور کارناموں کا پتہ چلا۔بدیسی ادب کے تراجم سے سائنسی شعور، سائنسی ترقی، انسانوںکی بے لوث خد مت، سائنسی ایجادات سے استفادہ، دنیا وی رسم ورواج ،انسانی نشیب وفراز، انگر یزی تہذ یب وتمد ن ،،انتظا می امور، سماجی شعور، نفسی بیما ریوں سے نمٹنے کا عقلی شعوراور کارو باری طریقہ کارمیسرآیا۔
بدیسی ادب کے اردو تراجم میںکی وجہ سے اردوجاننے والے عالمی برادری کاحصہ بن چکے ہیں ہم کسی بھی جگہ رہتے ہوئے ترقی یافتہ ْ اقوام کی چیزوں سے استفادہ کر سکتے ہیں گھرمیں ایل ،ای ،ڈی چائنہ کی ، جوسر مشین تائیوان کی، کار جاپان کی ، قلم تائیوان کا، بوٹ اٹلی کے، عینک برا زیل کی ،مو بائیل فن لینڈ کا ،چائے کے مگے کوریا کے ،بچوں کے کھلونے ہا نگ کانگ کے ، ریوالور امریکہ کا اور آئس کریم ڈنمارک کی کھا رہے ہیں۔کو ٹھے پر بیٹھی ماں امریکہ میں رہائش پذیر اپنے اکلوتے بیٹے سے محو گفتگو ہے ۔ ہم صحرا میں ہل چلاتے ہوئے یو ۔ٹیوب بھی دیکھ رہے ہیں یہی تو عا لمگیرت ہے کہ انسان کے دوسرے خطوں کے انسانوں سے روابط کو گلو بل ویلج کا نام دیا گیا ہے مگر اس عا لمگیرت نے انسان کو دوسروں سے اجنبی کر دیا ہے بدیسی تہذ یب سے پورے مشرق میںچکا چوند پیداکر کے س نظروں کو خیرہ کر رہی ہے بقول مشتاق احمد یوسفی:
’’ستر کشا آب وہوا میں کپڑے موسم سے بچائو کے لیے نہیں صرف قانون سے بچنے کے پہنے جاتے ہیں۔دوسروں شہروں میںاونچے گھرانوں کی فیشن پر ست خواتین اہم تقر یبوں میں
خاص طور پر کپڑ ے پہن کر جاتی ہیں یہاں اتا ر کر جاتی ہیں‘‘
یوں ہم ایک ہی جگہ رہتے ہوئے ذہنی طور پر ایک دوسرے سے دور ہیں، محض اس لیے کہ ہم سب ہی اپنے اپنے مو بائل فون پر مصرف کار ہیں۔ کاش ! کو ئی ا دارہ اشخصا ص کو ذہنی طور پر اکھٹا کرنے کی ضمن میں کو ئی ادبی سیمنار کا اہتمام کرے۔
کتابیات
۱ ۔ ڈاکٹرمرزاحا مد بیگ:’’اردو تر جمے کی روایت‘‘دوست پبلی کیشنز ،اسلا م آباد،۲۰۱۳ء ص:۱۴
۲ ۔ ایضاً ص:۱۳
۳۔ مولو ی عبدالحق ’’ مرحوم دہلی کالج‘‘ انجمن ترقی اردو ،ہند طبع دوئم،۱۹۴۵ء ص:۱۵
۴ ۔ علی عباس جلا لپوری ’’ روح عصر ‘‘ ،کتاب نما ، راولپنڈی ،۱۹۶۹ء ص : ۱۰۲
۵ ۔ مولوی عبدالحق ’’دہلی مرحوم کالج ‘‘ ص ؛۱۸۲
۶ ۔ محمد اکرام چغتائی ،’’ڈپٹی نذیر احمداحوال وآثار‘‘ پا کستان رائٹرز سو سا ئٹی، لاہور ،۲۰۱۳ء ص :۲۱۶
۷۔ ڈاکٹر جمیل جا لبی ’’ تاریخ ادب اردو‘‘ مجلس ترقی ادب لاہور ص :۱۰۳۴
۸ ۔ ڈاکٹر رفیع الد ین ہا شمی ’’ا صنا ف ادب‘‘ سنگ میل پبلی کیشنز لاہور ۱۹۹۱ء ص :۱۳۳
۹ ۔ تفصیل کے لیے دیکھئے سجا د حسین یلدرم کی کتاب ’’خیالستان‘‘
۱۰۔ ڈاکٹر مرزا حا مد بیگ ’’ اردو تر جم کی روایت ‘‘ ص : ۱۹۴
یہ مقالہ ساہیوال آرٹس کونسل کی قومی کانفرنس میں پڑھا گیا ۔ اس کانفرنس میں پڑھے گئے تمام مقالات کو محترمہ حنا جمشید نے کتابی شکل میں مرتب کیا ہے۔
کتاب کا نام : عالمگیریت، ثقافت اور ادب (ساہیوال آرٹس کونسل کی قومی کانفرنس میں پڑھے گئے مقالات)
مرتب : حنا جمشید
پبلیشر : مثال پبلیشرز، رحیم سینٹر، پریس مارکیٹ، امین پور بازار، فیصل آباد۔