بد بو سے خالی دن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی تاریخ تھی میں سٹاک ہولم کے ایک محلہ فیسک سیترہ (fisk sätraٌ) میں رہتا تھا ۔ میں نے کچن کی کھڑکی کھول دی تاکہ کھانے کی سمیل باہر نکل سکے ، چائے بنانے کی کیتلی چولہے پہ رکھ کے برتن صاف کرنے لگ گیا ، آخری پلیٹ دھو رہا تھا کہ نیچے سے نریجن کی آواز آئی ،، مسعود ،، میرے لیے یے یہ خلاف توقع تھا کہ سویڈن میں ایسے سڑک پہ کھڑے اتنی زور سے کسی کو کوئی نہیں پکارتا ، نیچے پوٹ ڈور کے ساتھ بلڈنگ میں رہنے والے مکینوں کے نام کے ساتھ بیل لگی ہوتی ہے ، ہر کوئی بیل دبا کر میزبان کو آنے کی اطلاع کرتا ہے
میں جب کھڑکی پہ گیا تو نریجن نے بلبلی مارتے کہا
مسعود ضیا مردود کے پرخچے اُڑ گئے
۔۔ میں نے بھی جوابی بلبی ماری اور اسے اوپر آنے کو کہا اور چائے کی کیتلی چولہے سے ہٹا دی کہ اب چائے ہپینے کا نہیں کچھ اور پینے کا وقت شروع ہو گیا ،
میں اور نریجن بئیر کے ڈبے پکڑے بھنگڑے ڈال رہے تھے جس میں میرے بچے بھی شامل ہوگئے اور ساتھ ساتھ میں دوستوں کو فون کر کے مبارک باد دیتے ان کو سٹاک ہولم کے سینڑل پب میں اکٹھا ہونے کو کہہ رہا تھا ، جب بہت سے دوستوں کو فون پہ بلبلیاں مارتے اطلاع دے چکا تو میں نریجن اور اہنے بیٹا خرم مسعود کے ساتھ سٹاک ہولم کے پب کی جانب چل پڑا ۔۔
راستے میں ٹرین میں بھی ہم ضیا مردود ٹھاہ کے نعرے مارتے رہے سویڈیش ہمیں دیکھ کر ہنس رہے تھے اور چند سویڈش نعرے مارنے میں ہمارے ساتھ شامل ہوگے
جب سٹاک ہولم کی سینڑل پب میں سب دوست اکٹھے ہوگئے تو ہر آنے والا دوست زور سے ضیا مردود ٹھا ہ کا نعرہ لگاتا جس کے جواب میں پہلے سے بیٹھے دوست ضیا مردود ٹھاہ کا نعرہ مار کر جواب دیتے
میں پب کے مینجر کے پاس گیا جو میرا بہت اچھا دوست تھا اور اسے یہ خبر سنانے کے بعد اس سے ایک بات کی اجازت چاہی اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی اتنی بڑئ خبر کئ ہپیش نظر اجازت دے دی
ہم سب اپنی ااپنی بئیر کے گلاس لے کے ایک دائرے مین کھڑے ہو گئے اور جیسے ہی سویڈیش ٹی وی نے چھ بجے کے خبر نامہ میں ضیا مردود کے پرخچے اُڑنے کی خبر اناونس کی ہم سب نے بئیر کے گلاس بوٹم اپ کرکے ضیا مردود ٹھاہ کے نعرے کے ساتھ گلاسوں کو پب کے فرش پہ زور سے پٹخ دیا
یہ ضیا مردود ٹھاہ کا نعرہ ان لوگوں کی طرف سے تھا جن کو چوکوں میں ٹکٹکی پہ باندھ کر کوڑے مارے گئے تھے
یہ ضیا مردود ٹھاہ کا نعرہ ان لوگوں کی طرف سے تھا جن کے صحنوں میں پڑے کچے گھڑوں کو توڑ کر ان کو بالوں سمیت گھسیٹ کر ٹارچر سیلوں میں لاجایا گیا تھا
یہ ضیا مردود ٹھاہ کا نعرہ ان لوگوں کی طرف سے تھا جن کی چیخیں ٹارچر سیلوں سے رات رات بھر آتی تھیں اور صبح کی پہلی کرن کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کر دی جاتی تھیں
یہ ضیا مردود ٹھا کا نعرہ بغیر دوپٹہ لیے پھرتی ان لڑکیوں کی طرف سے تھا جن کے بال صیا مردود کے گماشتے جماعت اسلامی کے الشمس البدر کاٹ دیتے تھے
یہ ضیا مردوٹھاہ کا نعرہ سندھ کے ان گاوں میں بسنے والے باسیوں کی طرف تھا جن پہ ہیلی کوپٹر سے گولیاں چلائی گئی تھیں
ضیا مردود ٹھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“