کتب خانوں کو متمدن دنیا میں تہذیب و ثقافت کی علامت کے طور پر تسلیم کیا جاتا رہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ معاشرے کے سمت و رفتار کے تعین میں کتب خانوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔جن اقوام نے کتب خانوں کو ان حیثیتوں میں قبول کیا وہ ہمیشہ ہی ایسی پوزیشن پر فائز رہیں جہاں وہ دنیا کو کچھ دیتی ہوئی نظر آئیں۔ اس کے برخلاف جب جب معاشرے میں کتب خانوں کی اہمیت کو پسِ پشت ڈالا گیا، وہ نہ صرف ترقی کی راہ میں پیچھے رہ گئیں بلکہ ایک زمانہ ایسا بھی آیا جب وہ کاسۂ گدائی لے کر تہذیب و تمدن اور وسائلِ حیات کی بھیک مانگتی نظرآئیں۔
کتب خانے ہی وہ مقاماتِ اختراعات ہیں جہاں نسلِ انسانی کے بے شمار تجربات کتابوں کی شکل میں موجود ہوتے ہیں۔ اگر کتب خانے نہ ہوں تو یہ سبھی تجربات حوادثِ زمانی کی شکار ہو کر انسان کی موت کے ساتھ ہی ختم ہو جائیں۔لیکن تہذیب و تمدن کی گاڑی کو بہت آگے جانا تھا اور کرۂ ارض سے لاکھوں ، کروڑوں میل کی مسافت پر واقع سیاروں کو تہذیب کا گہوارہ بنانا تھا، اور یہ کام بمشکل سوسال کی عمر پانے والے آدمِ خاکی کی ایک نسل کے ذریعے ممکن نہ ہو پاتا، اس لئے اسے سسٹمائز کرنے کے لئے ہی شاید کتب خانوں کے اختراع کی سوچ سات سو قبل مسیح میں’ نینوا‘ کے اسیری شہنشاہ ’اشوربانیپال‘(Ashurbanipal, 686-828 BC ) کے ذہن میں آیا تھا۔ اس وقت سے لے کر اکیسویں صدی تک انسانی تجربات و مشاہدات کی حفاظت کی ذمہ داری فقط کتب خانوں کے ذریعے ہی ادا ہوتی رہی۔لیکن اکیسویں صدی کے شروع ہوتے ہوتے امریکی دفاعی ادارے سے وابستہ رابرٹ ٹیلر (۲۰۱۷۔۱۹۳۲) کے ہاتھوں ’ارپانیٹ‘ کی شکل میںانٹرنیٹ کی ایجادہوئی تو دھیرے دھرے یہ ذمہ داری انٹرنیٹ کو منتقل ہوتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔ لیکن ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ڈیجیٹل کاپی کی انٹرنیٹ کے ذریعے محفوظ ہوجانے کے بعد کسی چیز کی تلاش میں آسانی ضرور ہوگئی ہے مگر علم کو ایک سینے سے دوسرے سینے تک محفوظ طریقے سے منتقل کرنے کا کام اب بھی کتب خانے ہی انجام دے سکتے ہیںاور اس کی یہ حیثیت ہمیشہ برقرار رہے گی۔جیساکہ ٹیلی ویژن کے آنے کے بعد اخبارات کی اشاعت ختم نہیں ہوئی بلکہ اور بھی بڑھ گئی ہے۔اس لیے کتب خانے کی مسلمہ حیثیت میں کبھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔علم و ادب کی بحافظت منتقلی کا کام کتب خانے ہی انجام دیتے رہیں گے۔کیونکہ ہارڈ کاپی ہی ذہن میں دائمی نقش چھوڑنے میں کامیاب ہوپاتی ہے اور انسان کو اپنی سوچ کے ساتھ تبدیل ہونے پر مجبور کرتی ہے جس کے نتیجے میں انسان ترقی کے منازل کو طے کرنے میں کامیاب ہو پاتا ہے ۔کتابوں کی اسی طاقت کو سمجھتے ہوئے ایسے جابر حکمراںجو نہیں چاہتے تھے کہ ان کی رعایا میں سے کوئی فرد اپنی شخصیت کا ارتقاء اس حد تک کر لے جائے کہ ایک دن ان کے اقتدار کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں آجائے، وہ اپنے کتب خانوں میں عام داخلے کی نہ صرف سخت ممانعت عائد کر رکھتے تھے بلکہ کتابوں کو زنجیر سے باندھ کر بھی رکھتے تھے۔ تاکہ کوئی غیر متعلقہ شخص اس سے فیضیاب نہ ہو سکے۔کون بھول سکتا ہے فرانس کے موجودہ قومی کتب خانے کے بانی ’شہنشاہ چارلس ہشتم‘ (۱۴۹۸۔۱۴۷۰)کے ناہنجار ذہن کے تنگ خیال کردار کو ، جنہوں نے کتابوں کو زنجیروں سے باندھ کر اس سے استفادے کی راہ کو مسدود کر دیا تھا۔یوروپ اپنے علم کو دوسروں سے چھپانے اور دوسروں کے علم کو اپنا ثابت کرنے کے معاملے میں بدنامی کی حد تک مشہور رہاہے۔اپنے علم کو تو انہوں نے اس طرح سے زنجیروں میں باندھ کر رکھالیکن جہاں بھی وہ حملہ آور ہوئے،ان کی نگاہ کتب خانوں پر پہلے پڑی اور موقع ملتے ہی اپنے کام کی کتابوں کواپنے یہاں منتقل کر لیا اور بقیہ کو یا تونذرِآتش کر دیا، یا پھر دریابرد کردیا۔اس روش کو اپنا کر یوروپی ممالک نے اپنے یہاں اس قدر علم و حکمت کی کتابیں جمع کر لیں کہ وہ اپنی بنیاد کو مضبوط کرنے میں بآسانی کامیاب ہوگئے۔ ان کی لائبریریوں میں عربی ، فارسی و دیگر مشرقی زبانوں کی نادر کتابوں کے اسٹاک کو دیکھ کر ہی علامہ اقبال نے کہا تھا: مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یوروپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ
کیا یہ صحیح نہیں کہ یوروپ کا یہ طرزِعمل کوئی نیا نہیں ہے۔ یہ سب انہوں نے سیکھا ہے اپنے پیشرو سفاک اور ظالم بادشاہ ہلاکو خان(۱۲۶۵۔۱۲۱۸) سے، جنہوں نے ۱۲۵۸ میں جب بغداد پر حملہ کیا تو قتل عام مچانے کے ساتھ ساتھ ’بیت الحکمۃ‘ اور دیگر سرکاری و نجی کتب خانوں کی کتابوں کو دریا برد کردیا۔ یہ کتابیںاتنی تعداد میں تھیں کہ مؤرخین لکھتے ہیں کہ ان کی وجہ سے دجلہ و فرات جیسی عظیم ندیوں کا پانی کا رنگ بھی سیاہ پڑ گیا تھا۔آخر سوال یہ ہے کہ ہلاکو خان یا یوروپی طاقتوں کو ایسی پالیسی اپنانے پر کون سی چیز آمادہ کرتی رہی ہیں؟ جواب جتنا سادہ ہے ،اسی قدر کتب خانوں سے موجودہ نسل کی بے اعتنائی بھی واضح ہے۔لائبریریوں میں جمع علم کو بروئے کار لا کر جب کوئی قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتی ہے تو دشمنوں کی نظر میں وہ قوم کھٹکنے لگتی ہے۔پھر اس پرحملہ آور ہو کر جانی و مالی نقصان پہنچانے کے بعداس اندیشے کا بھی خاتمہ چاہتی ہیں کہ یہ مقتول قوم مستقبل میں پھر کبھی اپنا اقبال بلند کر کے بدلہ لینے پر آمادہ نہ ہو جائے۔اس لیے تاریخی ورثے سے ان کا رشتہ منقطع کرنے کے لیے کتب خانوں کو ظلم کی آماجگاہ بنایا جاتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ اسی خیال سے ۱۹۴۸ میں پولیس ایکشن کے ذریعے سقوطِ حیدرآباد کے بعد شرپسندوں کے اشارے پر دارالترجمہ، جامعہ عثمانیہ کی لائبریری میں آگ لگا دی گئی تھی۔ تاکہ عثمانیہ یونیورسٹی سے اردو ذریعۂ تعلیم کا خاتمہ کیا جا سکے اور حیدرآباد کے بھارت میں انضمام کا راستہ ہمیشہ کے لیے صاف ہوجائے۔
دریں اثنا اس موضوع پر لکھنؤ میں ہوئے ایک سمپوزیم کے انعقاد کے بعد دانشوروںاور خاص کر لائبریری سائنس کے اسکالرز کے درمیان زیرِ بحث مدعا یہ ہے کہ بدلتے سماج میں لائبریریوں کا کیا کردار ہونا چاہئے؟ سوال یہ ہے کہ بدلتے سماج سے مرادکیا ہے ؟ اگر ہندوستان کے موجودہ حالات کے پسِ منظر میںسماج کے بدلنے کی بات ہو رہی ہے تو اس سلسلے میں راقم اپنی چند گزارشات پیش کرنے کی جسارت کر ے گا۔
اس وقت علم کی پیاس نوجوانوں کے اندر محسوس تو کی جارہی ہے لیکن انہیں لائبریریوں کے گرد آلود ماحول سے رشتہ جوڑنے سے بَیرہے۔انہیں اس سے زیادہ آسانی اس میں محسوس ہو تی ہے کہ انٹرنیٹ کی مدد سے مطلوبہ مواد حاصل کر لیا جائے۔اس ذہنیت کے نتیجے میں نقصان یہ ہو رہا ہے ہے کہ وہ مطلوبہ مواد تو جلد اور بآسانی حاصل کر لیتا ہے لیکن یہ علم ان کے ذہن پر نقش نہیں ہو پاتا۔جس کی وجہ سے علمی گہرائی نہیں آ پاتی۔ اس کی طرف بارہا مختلف سیاسی ،سماجی و علم و ادب سے جڑی شخصیات نے توجہ مبذول کرائی ہے۔اس صورتحال کے خاتمے کے لیے سرکاری سطح پر ایک قدم اٹھانا پڑے گا ، یا کم از کم کتب خانوں سے جڑے افراد و ملازمین کو کمربستہ ہونا ہوگا۔انہیں سماج اور انسانی تہذیب کے وسیع تر مفاد میںاپنی اپنی لائبریریوں کی کتابوںکے گرد کو صاف کرنے اور اس کی میزکرسیوں کو حتی الامکان پرکشش بنانے کی کوشش کرنی ہوگی۔تاکہ نوجوانوں کو اپنے مطلوبہ مواد کی تلاش میں ان کی لائبریریوں کی طرف رجوع ہونے میںکسی طرح کے بوجھل پن کا احساس نہ ہو۔ورنہ اگر ایسے ہی لائبریریوں کے قارئین کی تعداد گھٹتی رہی توسرکار کتب خانوں کے ملازمین کی تعداد کو کم کرنے پر مجبور ہوجائے گی۔جس کا خمیازہ آخرکار ملازمین کو ہی اٹھا ناپڑے گا۔
لائبریریوں میں قدیم کتابوں کا ایک عظیم ذخیرہ بھی ہوتا ہے۔جس میں اصل حقائق چھپے ہوتے ہیں اور ان حقائق تک عام لوگوں کی رسائی نہیں ہوتی۔اس کی وجہ سے سماج کے شرپسند عناصر بارہا سازش رچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔جبکہ لائبریری سے جڑے افراد کی نظر ان حقائق تک ہوتی ہے۔مثال کے طور پر اسّی کی دہائی میں اورنگ زیب عالمگیر کو معتوب کرنے کا ایک لمبا سلسلہ چل پڑا تھا۔خدابخش لائبریری،پٹنہ نے اسے اپنی ذمہ داری سمجھا اورمشہور مؤرخ ڈاکٹر اوم پرکاش پرسادسے گزارش کی کہ ہمارے یہاں کے وسائل سے استفادہ کر کے ایک لیکچر تیار کریں۔لائبریری نے ان کے مطالعے کے نچوڑ کو ’ اورنگ زیب : ایک نیا زاویۂ نظر‘ کے نام سے ایک کتابچہ کی شکل میں ۱۹۸۶ میں شائع کر دیا اور بتایا کہ جن بنیادوں پراورنگ زیب کو معتوب کیا جارہا ہے،انہی بنیادوں پر شاہجہاں اور اکبر ہی نہیں ،اشوک اعظم بھی معتوب ٹھہرائے جانے کے سزاوار ہیں۔ لائبریری کی طرف سے اس کتابچے کی اشاعت کے بعد شرپسندوں کی دھار کند ہونے لگی۔اسی طرح آج ضرورت اس بات کی ہے کہ گئو کشی کے نام پر ہو رہی موب لنچنگ کے اس تفرقہ پرور زمانے میں سماج کو یکجا کرنے کے کام میں لائبریریاں بھی اپنا رول ادا کریں۔قدیم لائبریریوں میں اس طرح کے کتب کی موجودگی یقیناََ ہوگی جن میں گائے کے تقدس یا عدمِ تقدس پر گفتگو کی گئی ہے۔ان کتب کی مدد سے ایک ایسے کتابچے کی مختلف زبانوں میں اشاعت وقت کی ضرورت ہے ،جس میں اس مسئلے پر سیر حاصل گفتگو کی جائے۔تاکہ جو نوجوان سازشوں کا شکار ہو کر موب لنچنگ میں حصہ لے رہے ہیں، ان کے سامنے حقیقت آشکارا ہو جائے۔ لائبریریوں کی طرف سے اس طرح کے قدم اٹھانے کے بعد بعید نہیں کہ موب لنچنگ کی رفتار تھم جائے۔
آج جس طرح سرکار اور پولیس کی شہہ پر میڈیا اور سماج میں لوگوں کو ’دیش دروہ‘ ٹھہرائے جانے کی ہوڑ مچی ہوئی ہے، اس تناظر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ لائبریریاں بھی اپنا کردار ادا کریں۔مشہور صحافی افتخار گیلانی نے ۲۰۰۶ میں اپنی شائع کتاب’تہاڑ میں میرے شب و روز‘ میںایک جگہ لکھا ہے کہ ’مجھے سرکار اور فوج کے خلاف اعداد وشمار اکٹھا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔پیشہ ورانہ ضرورتوں کے لیے ان اعداد و شمار کی ہر صحافی کو ضرورت ہوتی ہے۔چنانچہ میں نے پبلک ڈومین میں موجود کچھ اعداد و شمار کو اپنے کمپیوٹر میں سیو کر رکھا تھا۔ پولیس نے چارج شیٹ میں اسی چیز کو گناہ کے طور پر پیش کیا۔اس میں دہلی کی لائبریریوں میں موجود ایک کتاب بھی تھی۔لیکن پولیس نے اسے میرا ذہنی اختراع قرار دیا اور مجسٹریٹ کے سامنے لائبریریوں میں اس کی موجودگی سے انکار کیا ۔میرے وکلاء نے جب ان لائبریریوں کا رخ کیا ،جہاں یہ کتاب دیکھی گئی تھی ، وہاں پہنچ کر مطلوبہ کتاب کی مانگ کی گئی تو وہ سبھی لائبریریوں سے ایک ساتھ غائب ملی۔بعد میں تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ پولیس نے لائبریریوں کے ذمہ داران پر دباؤ ڈال کر کتاب غائب کروائی تھی‘۔ ایسے ماحول میں ایک مظلوم کی مدد کے لیے کیا لائبریریوں سے جڑے افراد کو آگے نہیں آناچاہئے اور اگر کبھی پولیس ان کی مدد سے اپنے سازشی پلان کو کامیاب کرانا چاہے تو انہیں پولیس کے سامنے انکار کی جرأت نہیں دکھانی چاہئے ! جس سے ایک معصوم مظلوم بننے سے بچ جائے؟
چوتھی ذمہ داری جو لائبریریوں سے جڑے افراد کو نبھانی چاہئے،وہ ہے لائبریریوں میں خیرسگالی کا ماحول قائم رکھنا۔مجھ سمیت نہ جانے کتنے ہی ایسے افراد ہوںگے جن کی بین مذہبی دوستیوں کی شروعات لابئریریوں سے ہی ہوئی ۔لیکن آج حالات بے حد حساس ہوتے جارہے ہیں۔اس لیے زیادہ چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔ کتابوں کے ایشو کرنے سے لے کر ریڈنگ روم میں علم پرور اور برادرانہ ماحول کی آبیاری تک میں حساس ہونے کی ضرورت ہے۔کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ فلاں کتاب فلاں کمیونٹی کے فرد کو ایشو نہیں ہوتی، ایسا نہیں ہونا چایئے۔لائبریری سائنس کے طلبہ کو پہلے ہی دن بتایا جاتا ہے کہ کتابیں پڑھنے والوں کے لیے ہوتی ہیں، ناکہ ریک میں سجا کر رکھنے کے لیے۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر حال میں کتاب حقدار قاری تک پہنچے، اس میں کسی طرح کا بھید بھاؤ نہیں ہونا چاہیے۔اسی طرح ریڈنگ روم میں فرقہ وارانہ جھگڑے تک بات قطعی نہیں پہنچنی چاہئے۔ایک متمدن سماج میںخیرسگالی کے جذبات کو فروغ پانا چاہئے اور آگے بڑھنا چاہئے، ناکہ لائبریریوں میں یہ جذبہ الٹے قدم کی راہ اپنانے لگے۔ اگر ایسا ماحول قائم رکھنے میں کامیابی مل گئی تو آدھے جھگڑے یوں ہی ختم ہو جائیں گے۔
میں سمجھتا ہوں کہ بدلتے سماج میں کتب خانوں سے جڑے افراد کو ان حیثیتوں سے بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔نا وہ لائبریریوں کو آگ لگنے یا دریا برد ہونے دیں اور نا ہی سماج میں دشمنی کے جذبات کو فروغ پانے کی راہ دیں ۔ اور سب سے آخری و ضروری بات، پولیس کی سازشوں کا شکار لائبریری کو قطعی نہ بننے دیں۔ یہی بدلتے سماج میں وقت کا اہم تقاضہ ہے۔