(Last Updated On: )
مرد کے لئے جنس بذات خود ایک منزل ہے جبکہ عورت کے لئے منزل تک پہنچنے کا فقط ایک رستہ۔ یہی وجہ ہے کہ قدرت نے یہ جذبہ مرد میں کوٹ کوٹ کر بھردیا ہے تاکہ انسانی نسل آگے بڑھ سکے جبکہ عورت کے لئے یہ تحفظ، محبت اور ممتا کے حصول کا ذریعہ ہے۔
اگر عورت میں بھی یہ جبلت مقصود بالذات ہوتی تو مرد اور عورت اپنی تمام توانائیاں اسی کی تسکین میں صرف کر دیتے اورسماجی ترقی کا کوئی امکان باقی نہ رہتا۔ اگر مرد میں یہ جذبہ اسقدر شدت سے موجود نہ ہوتا تو انسانی نسل آگے نہ بڑھ پاتی اور اگر عورت میں مرد کی طرح یہ جبلت بھر دی جاتی تو انسانی معاشرت آگے نہ بڑھ پاتی اور ہم ابھی تک غاروں میں مقید ہوتے۔
نہ ہی عورت کے جسم میں خرابی ہے اور نہ ہی مرد کی فطرت میں۔ دونوں ہی قدرت کی منشا کے اسیر ہیں۔
جب کوئی مذہبی انسان عورت کے جسم کو گناہ کا مرکز قرار دیتا ہے تو وہ منشا ایزدی کے خلاف بات کر رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح جب ایک لبرل سوچ کا حامل فرد مرد کی فطرت کوقصوروار ٹھہراتا ہے تو وہ عقل کے خلاف بات کرتا ہے۔
قدرت کی طرف سے پیدا کئے گئے اسی فرق کی وجہ سے عورت اپنا جسم ڈھانپتی ہے۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتا یعنی عورت کے لئے جنس مقصود بالذات ہوتی اور مرد میں کسی اور مقصد کے حصول کا ذریعہ تو عورت کی بجائے مرد اپنے جسم ڈھانپتے۔ اسی لئے عورت کے جسم کو قصور وار ٹھہرانا حماقت ہے۔
مسلمان معاشرے میں مردانہ جبلت کے خوف سے عورت کو سماج میں وہ آزادی نہیں دی جاتی جو مرد کو میسر ہے۔ مغرب میں عورت کو آزادی تو دے دی گئی لیکن دونوں کے درمیان موجود فطرت کے فرق کو نظر انداز کیا گیا جس کے نتیجے میں عورت کا استحصال ہو رہا ہے۔
عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے بارے میں آخری فیصلہ وہ خود کرے۔ تاہم اس فیصلے کے حوالے سے خاندان اور سماج کی سطح پر ایسی روایات موجود ہونی چاہئیں جو اسے بہتر فیصلے تک پہنچنے میں رہنمائی فراہم کر سکیں۔ یہ بھی فقط پہلا مرحلہ ہے جو ابھی تک مسلمان معاشروں میں ناپید ہے۔ اس ضمن میں کوئی سنجیدہ کوشش بھی سامنے نہیں آئی۔
جب عورت کسی فیصلے پر پہنچ جائے تودوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ اگر وہ گھر سے باہر جا کر پڑھنے یا ملازمت کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو سماج کے ساتھ ساتھ ریاست کا کردار اہم ہو جاتا ہے۔ یہ لازم ہے کہ گھر سے باہر اس کی حفاظت کے لئے ادارے تخلیق کئے جائیں جو مرد کی جارحانہ جبلت سے اس کی حفاظت کریں۔ مسلمان معاشروں میں اس سمت کوئی خاص قدم نہیں اٹھا یا گیا۔ جس کی وجہ سے گھر سے باہر نکلنے والی عورت کو قدم قدم پر یا تو تذلیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا پھر مرد کے سامنے جھک کر سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔
دورجدید میں گھر سے باہر جانے والی عورتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ روح عصر کا ایسا تقاضہ ہے جس پر کوئی بند نہیں باندھ سکتا۔ اس کی مخالفت کرنا ایک سلبی رویہ ہے۔ مثبت عمل یہ ہے کہ مرد کو نہ صرف عورت کا احترام سکھایا جائے، جس کا آغاز بہرحال گھر سے ہوگا، بلکہ قانون کوبھی اس بارے میں انتہائی حساس بنا دینا چاہئے تاکہ خوف کی وجہ سے مرد اپنی جبلت کو قابو میں رکھنے پر مجبور ہو جائے۔
اگلی ایک دو دہائیوں میں گھر پر بیٹھنے والی خواتین کی تعداد انتہائی کم ہو جائے گی۔ اس لئے ابھی سے اس جانب ایک منظم انداز میں قدم اٹھانا چاہئے اور ہر سطح پر روایات و ادارے تخلیق کرنے چاہئیں جو عورت کو تحفظ فراہم کر سکیں۔ ہم ابھی تک یہ سمجھتے ہیں کہ عورت کو گھر میں مقید کرنا ہی مسئلے کا حل ہے۔ یہ غلط فہمی ہے کیونکہ روح عصر کا تیز دھارا ہمارے تمام خیالات کو بہا کر لے جائے گا اورہم افراتفری میں ہاتھ پیر ماریں گے جب سماجی سطح پرخاندان کا ادارہ تباہی کے قریب جا چکا ہو گا۔ مسلمانوں نے پچھلی ایک دوصدیوں میں ہر معاملے پر یہی رویہ اختیارکیا ہے اور یہی ہمارے زوال مسلسل کی بنیادی وجہ ہے۔