بدلنا گھر مستنصر حسین تارڑ کا….
تارڑ صاحب نے گھر بدلا اور گلبرگ سے ڈیفنس چلے گئے۔ ان کے دو کالم اس سلسلے میں آئے اور فقیر کو مار گئے۔ ویسے تو اگلے زمانوں کے فقیر کسی بھی حق بات پر چیخ مار کر لمبے لیٹ جاتے اور چادر تان کر اور کبھی بغیر تانے فوت ہوجاتے تھے۔ لیکن فقیر تھاں مر گیا! بہ خدا آپ کا حسنین جمال مر گیا! وہ کالم سینے میں ترازو ہوئے، بس، اور کچھ بھی نہ ہوا۔ اور یہ بھی اچھا ہوا، برا نہ ہوا۔
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاوں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے!
بزرگوں سے سنتے تھے کہ عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا، اچھا بھئی نہیں ہو گا۔ مردوں کا کون سا گھر ہوتا ہے؟ مڈل کلاسیوں کا تو مشکل ہی سے اپنا ذاتی گھر ہو پاتا ہے۔ تارڑ صاحب کے نوادرات، کتابیں اور پودے یہ تین دکھ ایسے ہیں جن کا احساس پانچ گھر بدلنے کے بعد فقیر کو بہت زیادہ ہے۔ راستوں میں رہے نہ گھر میں رہے / عمر بھر حالت سفر میں رہے۔ نوشی گیلانی کا یہ شعر کسی بھی سیلانی جیوڑے کے دکھ کا بہترین اظہار ہے۔
کیا آپ کو خبر ہے کہ جب آپ پہلا گھر چھوڑتے ہیں تو آپ کیا کیا چھوڑ دیتے ہیں؟ آپ اس صحن کو چھوڑتے ہیں جہاں آپ بچپن کی بارشوں میں نہائے ہوتے ہیں۔ آپ اس گلی کو چھوڑتے ہیں جہاں آپ نے سائیکل چلانا سیکھا ہوتا ہے۔ آپ اس لوہے کے پائپ کو چھوڑتے ہیں جس سے لٹک کر آپ نے قد بڑھایا تھا۔ آپ اس بیٹھک کو چھوڑتے ہیں جہاں آپ اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ آپ اس برآمدے کو چھوڑتے ہیں جہاں آپ کی ماں، آپ کی دادی دھوپ سینکا کرتی تھیں۔ آپ وہ باورچی خانہ چھوڑتے ہیں جہاں نعمت خانہ بھی ہوتا تھا۔ آپ وہ کمرے چھوڑتے ہیں جو چھوٹے ہوتے تھے، جہاں ان زمانوں میں شاید اے سی بھی نہیں ہوتا تھا، لیکن گرمی بھی نہیں لگتی تھی۔ آپ وہ بیلیں چھوڑتے ہیں جو آپ یا آپ کے باپ بہت شوق سے لگاتے تھے۔ آپ وہ درخت چھوڑتے ہیں جن کے پھل کھانے کو آپ کے دادا نے انتظار کیا تھا۔ آپ اس ڈھول والے کو بھی چھوڑ جاتے ہیں جو آپ کو سحری پر اٹھاتا تھا۔ آپ چھوڑتے ہیں کچی اینٹوں والا وہ فرش جو دھل کر نکھر جاتا تھا۔ آپ چھوڑتے ہیں چارپائیوں پر سونا، جو شدید گرمیوں میں بھی گرم نہیں ہوتی تھیں۔ ان کو چھوڑ کر آپ فوم پر سونے لگتے ہیں، اے سی بھی چلاتے ہیں کہ فوم تو بابا گرم ہوتا ہے نا۔ آپ کھلے آسمان تلے سونا چھوڑتے ہیں اور پنکھا دیکھ کر سونا پسند کرتے ہیں۔ آپ وہ روشندان چھوڑتے ہیں جو آپ کے نئے گھر میں ہرگز نہیں ہوتے۔ ایسی فضول چیز کی جگہ ہو بھی کیوں۔ آپ وہ چھت چھوڑتے ہیں جس پر پتنگ اڑانے کے بعد آپ گالیاں کھاتے تھے۔ آپ وہ سیڑھیاں چھوڑتے ہیں جن میں ریلنگ کے بجائے دیواریں ہوتی تھیں اور جہاں ہر تین ماہ بعد ہاتھوں کے نشان مٹانے کے واسطے چونا کرایا جاتا تھا۔ آپ وہ پرندے چھوڑتے ہیں جو اس دانے اور پانی پر ا
تر آتے تھے جو آپ کی دادی ڈالتی تھیں۔ واللہ آپ سب چھوڑ دیتے ہیں، وہ لوگ چھوڑ دیتے ہیں جو آپ کے اردگرد رہتے تھے، کیسے پیارے محبتی لوگ چھوڑ دیتے ہیں، اور کہاں کہاں چھوڑ دیتے ہیں۔ الغرض آپ چھوڑ دیتے ہیں وہ سب کچھ جو آپ کے خمیر میں ہوتا ہے اور نکل پڑتے ہیں ترقی کی شاہراہ پر۔
پھر کیا ہوتاہے۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ تمام عمر آپ کو جو خواب آتے ہیں وہ اسی پہلے گھر کے آتے ہیں۔ لوگ بدلتے رہتے ہیں، خوابوں میں موجود گھر نہیں بدلتا۔
اوما نے پوچھا کیا لکھ رہے ہیں، کہا تارڑ صاحب گھر بدل رہے ہیں تو چونکہ میں بھی اس معاملے میں جلے پیر کی بلی ہوں تو ان کا دکھ بانٹنا فرض سمجھتا ہوں۔ کہنے لگیں یہ تو ان کے موضوع کی نقل ہوئی۔ اس پہ انہیں وہ گیا وقت یاد دلایا جب عطاالحق قاسمی صاحب کا ویسپا چوری ہوتا تھا تو کیسے کیسے پیارے لوگ کالم لکھ مارتے تھے۔ اخوت اسی کو تو کہتے ہیں۔
آمدم بر سر مطلب، آپ گھر چھوڑ دیتے ہیں۔ نئے گھر آ جاتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس صرف دو تین ہزار کتابیں بھی ہوں تو آپ ایک امتحان میں ہیں۔ آپ کے بچے سوالیہ نظروں سے دیکھیں گے کہ ابا کتابیں کہاں رکھتے ہیں اور ہمیں کہاں ٹانگتے ہیں۔ پھر اگر آپ مجسموں کے شوقین ہیں، قطع نظر ان کے سائز کے، تو بھی آپ آزمائش میں ہیں۔ پرانے گھر میں ایک ایک کر کے کہیں نہ کہیں آپ نے جیسے تیسے تمام مجسمے اور نوادرات ٹانگ دئیے تھے، اب یہاں کیا کیا بنائیں گے۔ کتنے طاقچے، کتنے کھوپچے، کتنے شیلف، پھر بھی آپ کا آدھے سے زیادہ سامان ڈبوں میں بند رہے گا۔ کیا کہا؟ آپ کے گھر میں تصویریں بھی ہیں؟ پھر تو آپ باقاعدہ بدنصیب ذی نفس ہیں۔ آپ کے فریم سامان کی منتقلی کے دوران ٹوٹیں گے۔ جو شیشے کے ساتھ ہیں ان کا تو خدا ہی حافظ ہے۔ پھر آپ کے کینوس نے ایک نہ ایک رگڑ بھی ضرور کھانی ہے۔ جو آپ کی سب سے پسندیدہ تصویر ہے اسی کے ساتھ کچھ نہ کچھ ہو گا۔ ہمیشہ یہی ہوا ہے بھئی، تجربہ ہے، کیسے نہیں ہو گا؟ وہ فاقہ مست بدھا کا ریپلیکا جو ٹیکسلا سے آیا تھا، ایسے ہی ٹوٹا تھا۔ کمال کرتے ہیں آپ، اور وہ ایرانی فریم بھی ایسے ہی اپنے اصل سے جا ملا تھا۔
چلیے یہ سب بھی ہو گیا۔ کاغذات کہاں جائیں گے؟ کتنے خطوط، کتنے وزیٹنگ کارڈ، کتنی تصویریں، آپ کے بچوں نے بچپن میں پنسل سے جو ڈرائنگ بنائیں تھیں وہ، کہیں سے کوئی تعویز نکلے گا، کوئی گمشدہ کڑا نکل آئے گا، کبھی صرف ایک کف لنک موجود ہو گا لیکن آپ اسے بھی سنبھالنا چاہیں گے، لیکن کیوں۔ بھئی یہ سب کباڑ ہے اس سے چھٹکارا پانا ہے، نئے گھر جانا ہے، کیا کریں گے اتنا سب کچھ ساتھ لے جا کر؟ چھوڑ دیں، یہ سب بھی چھوڑ جائیں۔
استری کیے ہوئے کپڑے جب اگلی الماری میں جائیں گے تو ان کی دو دو تہیں ہوں گی جو اگلے چھ مہینے آپ کو یاد دلائیں گی کہ آپ نے گھر بدلا تھا۔ سردیوں میں آپ کے مفلر کھو جائیں گے، گرمیوں میں ٹی شرٹ والا بیگ گم جائے گا جو اگلے گھر جانے پر نکلے گا۔
پودے، آپ کے کتنے ہی عزیز از جان پودے کیوں نہ ہوں۔ بونسائی ہوں، کیکٹس ہوں، یوفوربیا ہوں یا صرف موتیے اور گلاب ہوں، سب کی آتما رل جائے گی۔ بیسیوں گملے ٹوٹیں گے، پودوں کی شاخیں ٹوٹیں گی، دھوپ کے رخ کا اندازہ دو سیزن گزار کر ہو گا اور اس بیچ کتنے ہی پودے شہادت کی معراج پائیں گے۔ اور پھر وہ پام، وہ چنبیلی اور وہ بوگن ویلیا آپ نئے مالک کے رحم وکرم پر چھوڑ جانے پر مجبور ہوں گے جو زمین میں گڑے ہیں۔ وہ آپ کے قدم بھی زمین میں بار بار گاڑیں گے، آپ بھول کر بھاگنا چاہیں گے لیکن آتے جاتے باہر سے انہیں ایک نظر دیکھنے پر مجبور ہوں گے۔ پھر کوئی حرام الدہر انہیں اکھاڑ پھینکے گا۔ آپ گھر آ کر اداس پھریں گے لیکن صاحب نیا گھر تو نیا گھر ہے۔
تو کل ملا کر یہ جان لیجیے کہ اگر آپ اس دھرتی پر موجود فانی چیزوں سے محبت کرنے والے بے وقوف ہیں اور انہیں گلے سے لگا کر رکھتے ہیں تو آپ خسارے میں ہیں۔ اور اگر آپ میں ایسی کوئی فنی خرابی نہیں تو صاحب بسم اللہ، نیا گھر مبارک!! اور اگر آپ میری طرح کرائے کے گھر میں ہیں تو آپ کو ہرگز یہ دلدر نہیں پالنے چاہیئیں۔ ورنہ کشمکش دہر سے آزادی نہیں ملتی۔ ان سب چیزوں سمیت تو کبھی بھی نہیں ملتی۔
تارڑ صاحب اس دنیا میں ایک بندہ ایسا ہے جو آپ پر گزرتے ہر لمحے کی کٹھنائی محسوس کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ آپ کے خالی شیلف کی تصویر دیکھتا ہے تو اپنا ملتان والا گھر یاد کرتا ہے۔ وہ آپ کے پودوں کا پڑھتا ہے تو اپنی پانچ شفٹنگز یاد کرتا ہے۔ آپ سامان اٹھتے دیکھ کر ہولتے ہیں تو وہ اس کا درد محسوس کرتا ہے۔ آپ نابغہ روزگار محلے داروں کو یاد کرتے ہیں تو وہ اپنے نواں شہر ملتان والے مخلص محلے داروں کو لاہور بیٹھ کر یاد کرتا ہے۔ ہاں آپ اپنے بچوں کی شادیاں یاد کرتے ہیں تو یہ بدنصیب اپنی ماں کے وہ آنسو یاد کرتا ہے جو باورچی خانے کی کھڑکی سے باہر فقیر کا سامان ٹرک پر لدتے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آئے تھے، ایک دم جو ادھر نظر گئی تو دل پہ تیر چل گئے، جب انہیں ملنے قریب گیا تو وہ موتی دوپٹے میں گم ہو چکے تھے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“