پانی کے بے بہا رنگ ہے جسے ہم بے رنگ کہتے ہیں بخارات بن کر آسمان کے کسی کونے میں قطرہ قطرہ اکٹھا ہونے والا بادل جب برسنے کو دوڑتا ہے تو بجلی کوندتی ہے گرج چمک شروع ہوجاتی ہے شاٸد بادل بھی آپس میں لڑتے ہوں گے گرجتے چمکتے اور زمین کے بہترین حصہ پر برسنے کو دوڑ لگاتے ہوں گے کہ سمندر پر جا کر برسا جاۓ اور کسی سیپ میں بند ہوکر موتی بنا جاۓ،
مجھے لگتا ہے بادل بھی کبھی نہیں چاہتے ہوں کہ وہ اپنا آپ کسی کیچڑ میں ملا دیں اور ہر گزرنے والے کے کپڑوں پر چھنتوں کے نشان بنیں مگر بادلوں کی چاہت سے کیا ہوتا ہے قدرت نے جسے موتی بنانا ہو وہی سیپ تک پہنچتا ہے پانی کے وہ قطرے جو کیچڑ میں ملے وہ بھی تو اسی پاک صاف بادل کا جزو تھے جو زمین پر گرے اور ہوا اڑا کر ننھے ننھے سے قطروں کو کسی انجانی سر زمین پر لے گٸ کیا وہ قطرے اتنی شکتی رکھتے تھے کہ تیز ہواٶں سے جھگڑتے اور کسی ایسی دھرتی پر برسنے کی خواہش کرتے جہاں پانی کے چند قطرے امرت بن کر کسی کی اٹکتی ہوٸ سانسیں بحال کرتے یا کسی صحرا کی جھلستی ریت کی لحظہ بھر کو پیاس بجھا پاتے؟ آخر کیسے طے ہوتا ہے کہ بخارات سے بننے والے بادلوں کے پانی کے کون سے قطرے نے سیپ میں جا کر موتی بننا ہےاور کون سا قطرہ کیچڑ میں کیچڑ۔