بادہ نوشی مرزا غالب کی زندگی کی ایک حقیقت تھی لیکن غالب کی شاعری میں جس بادے کا ذکر ہے کیا اس کی حقیقت بھی صرف بادہ یعنی شراب ہے یا کچھ اور؟ اس سوال کے جواب کی جستجو میں شاعری اور سائنس میں دلچسپی رکھنے والے جب کھلے ذہن سے بغور مطالعہ کرتے ہیں تو جابجا غالب کے بادے، جام اور مے خانے میں سائنس کی جھلک ہی نہیں بلکہ واضح چمک نظر آتی ہے۔ غالب کی شاعری میں اہلِ بینش کو سائنسی اصولوں کی ترجمانی کرنے والے کثیر تعداد میں اشعار نظر آتے ہیں۔ لہٰذا اب تو چند کتابیں بھی منظرِ عام پر آچکی ہیں اور پہلے بھی متعدد شارحین و ماہرینِ غالب نے بعض اشعار کے تعلق سے لکھا ہے کہ اس میں فلسفیانہ یا حکیمانہ بات پیش کی گئی ہے یا واضح طور پر لکھا ہے کہ سائنس کے فلاں اصول کی ترجمانی ہے۔ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے کیوں کہ سائنس بھی تو مشاہدات، غور و فکر، تحقیق اور تجربات کی روشنی میں کائنات کی چیزوں کی حقیقت اور قوانینِ فطرت کی دریافت یا ان کی معرفت کا نام ہے جسے پہلے فلسفہ یا حکمت وغیرہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ لیکن یہاں ہم چند اشعار کی روشنی میں صرف غالب کے بادے، جام اور مے خانے میں نظر آنے والی سائنس کی چمک کو دیکھنے کی کوشش کریں گے۔ امید ہے آپ کی چشمِ مطالعہ میں بھی ایک انوکھی چمک نظر آئے گی اور غالب کی شاعری کو نئے زاویے سے دیکھنے کے لیے خود کو آمادہ پائیں گے۔
مے کشی کو نہ سمجھ بے حاصل
بادہ غالبؔ عرَقِ بید نہیں
صاف دُردی کشِ پیمانۂ جم ہیں ہم لوگ
وائے! وہ بادہ کہ افشردۂ انگور نہیں
پہلے شعر میں غالب کہتے ہیں کہ اے غالب بادہ یعنی وہ شراب جس کی بات کی گئی ہے، بِید کا عرَق یعنی بِید کے درخت سے کشید کی ہوئی نہیں ہے۔ لہٰذا اس مے کشی کو بے حاصل مت سمجھو۔ دوسرے شعر میں کہا گیا ہے کہ وہ بادہ افشردۂ انگور یعنی انگور کو نچوڑ کر بھی نہیں بنایا گیا ہے۔ تو آخر ہے کیا؟ اس کا جواب دوسرے شعر کے پہلے مصرع پر غور کرنے سے ملتا ہے۔ دُرد کے معنی ہوتے ہیں تَل چھٹ اور دُردی کش کے معنی ہوں گے تَل چھٹ پینے والے۔ پیمانۂ جم سے مراد جمشید کا پیمانہ یا جامِ جمشید ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ایسا پیمانہ یا پیالا تھا جسے جمشید کی خواہش پر یونان کے حکما یعنی سائنسدانوں نے بنایا تھا جس سے جمشید حال اور آئندہ کا حال یعنی ساری دنیا کے احوال معلوم کرتا تھا۔ جسے جامِ جہاں نما یا جامِ عالم بین بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کیسی چیز ہوگی اس کا اندازہ آج کے اسمارٹ فون کے دَور میں لگانا کچھ مشکل نہیں ہے۔ وہ ایک سائنس کی مدد سے ایجاد کردہ پیالا تھا۔ “ہم لوگ” سائنس کے متوالوں یا سائنسدانوں کے لیے کہا گیا ہے۔ غالب کہتے ہیں کہ صاف یا واضح طور پر ہم لوگ جمشید کے پیمانے کی تَل چھٹ پینے والے یا اس سے استفادہ کرنے والے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہمارا بادہ انگور سے نچوڑا ہوا نہیں بلکہ جمشید کے پیمانے کی تَل چھٹ ہے جس کی وجہ سے دوسرے لوگ اس کے نشے سے واقف نہیں ہیں کیوں کہ وہ بید کے درخت سے کشید کی ہوئی یا انگور سے نچوڑی ہوئی شراب ہی کو شراب سمجھتے ہیں۔ غالب نے ایک جگہ اور کہا ہے کہ غلفت میں پڑے لوگ اسے شراب سمجھتے ہیں حالاں کہ معاملہ کچھ اور ہے:
حالاں کہ ہے یہ سیلیِ خارا سے لالہ رنگ
غافل کو میرے شیشے پہ مے کا گمان ہے
سیلی کہتے ہیں ہاتھ کی انگلیوں کو ملا کر تلوار کی طرح مارنے کو، جس سے مراد تھپّڑ یا مارنا بھی لیا جاتا ہے۔ خارا سے مراد کنکر پتھر ہے۔ لہٰذا سیلیِ خارا کا مطلب ہوگا کنکر پتھر کا تھپّڑ یعنی کنکر پتھر کا ٹکرانا۔ لالہ رنگ سے مراد ہے گلِ لالہ کے مختلف رنگ۔ غافل یعنی غفلت میں پڑا شخص یا ناواقف۔ شعر کا مفہوم سمجھنے کے لیے الفاظ کے معنی کے ساتھ اس بات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ مے یعنی شراب کی مناسبت سے شیشے (بروزن جام) کی جگہ جام ہی کیوں نہیں باندھا گیا ہے؟ در حقیقت غالب کو یہاں جام اور مے کی بات ہی نہیں کرنی تھی۔ سیلیِ خارا، لالہ رنگ اور شیشے کے استعمال سے Refraction of Light یعنی روشنی کے انتشار کی منظر کشی کرنی تھی۔ سیلیِ خارا روشنی کے ٹکر کے لیے کہا ہے جو شیشہ یعنی prism سے ٹکرا کر سات رنگوں میں منتشر ہو جاتی ہے جس میں لال رنگ سب سے زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ چوں کہ غالب کو یہاں شیشے سے prism مراد لینا تھا اس لیے جام نہ کہہ کر شیشہ کہا۔ لال کے علاوہ دیگر رنگ بھی مراد لینے تھے اس لیے لالہ رنگ کہا۔ لائٹ یعنی روشنی، لہر اور ذرّہ (wave and particle) دونوں ہی طرح جانی پہچانی جاتی ہے۔ روشنی کے ذرّات کو photon کہا جاتا ہے جسے چھوٹے چھوٹے کنکر پتھر کی طرح سمجھا جا سکتا ہے جسے سیلیِ خارا کہا گیا ہے۔ غالب کہتے ہیں کہ حالاں کہ یہ شیشہ روشنی کے ذرّات کے ٹکرانے سے لالہ رنگ ہو گیا ہے یعنی اس پر لال کے ساتھ اور بھی کئی رنگ نظر آرہے ہیں لیکن غفلت میں پڑے لوگوں کو یہ گمان ہو رہا ہے کہ میرے شیشے پر مے لگی ہوئی ہے۔
مے نے کِیا ہے حسنِ خود آرا کو بے حجاب
اے شوق ہاں اجازتِ تسلیمِ ہوش ہے
اس شعر کی تشریح میں مرزا غالب کے اشعار کو سائنسی زاویے سے متعارف کرانے والے ایک شیدائے غالب محمد مستقیم نے اپنی کتاب ” غالب کی نئی دنیا “, جو ریختہ کی ای لائبریری میں بھی موجود ہے، میں لکھا ہے کہ “مے سے مراد سائنس ہے اور حسنِ خود آرا سے فطرت”۔ اسی بات نے مجھ میں یہ تجسس پیدا کیا کہ غالب نے کیا دیگر اشعار میں بھی مے، بادہ اور صہبا وغیرہ سے سائنسی علوم مراد لیا ہے؟ یقیناً یہاں مے سے مراد سائنس یا سائنسی علم ہے۔ شوق کے معنی عشق کے علاوہ اشتیاق، رغبت اور دریافت کرنے کی خواہش ہیں۔ تسلیم کے معنی ہیں سلام کرنا،سونپنا یا قبول کرنا۔ عشق اور عقل میں اکثر جنگ چھڑی رہتی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ مے یعنی سائنسی علوم نے حسنِ خود آرا یعنی فطرت کا حسن یا اپنے آپ سنورنے والی کائنات کی دلکشی کی گتھیوں کو سلجھایا یا بے حجاب کیا ہے۔ اس لیے اے شوق ہاں اب تجھے عقل کو تسلیم کرنے یا اسے قبول کرنے یا اس کا احترام کرنے کی اجازت ہے اور اب عقل سے جنگ مناسب نہیں ہے۔ اگر اس شعر میں مے سے مراد سائنس نہ لیا جائے تو حسنِ خود آرا تو کیا شعر کے کسی ایک مصرع کے مفہوم کو بھی پوری طرح بے حجاب کرنا مشکل ہو جائے گا۔ دوسرے مصرع میں ‘ہاں’ کی جگہ بعض جدید نسخوں میں ‘یاں’ لکھا ہوا ملتا ہے۔ ایسی صورت میں بھی مفہوم پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
مرے قدَح میں ہے صہبائے آتشِ پنہاں
بروئے سفرہ کبابِ دلِ سمندر کھینچ
قدَح یعنی پیالہ؛ پنہاں: چھپا ہوا؛ بروئے: بہ مطابق؛ سفرہ: دسترخوان؛ سمَندر: آگ میں پیدا ہو کر آگ ہی میں رہنے بسنے والا جانور جو آگ سے باہر نکالنے پر مر جاتا ہے۔ غالب کہتے ہیں کہ میرے پیالے میں ایسی صہبا یعنی شراب ہے جس میں آتش یعنی آگ پوشیدہ ہے۔ اس لیے میرے دسترخوان کے لیے عام گوشت کا کباب مہیا مت کرو بلکہ اس کے مطابق سمندر یعنی آگ میں رہنے والے جانور کے دل کا کباب کھینچ کر لاؤ۔ اس شعر میں صہبائے آتشِ پنہاں سے مراد ایسا کیمیکل ہے جس میں آگ چھپی ہوئی ہو یعنی تیزاب۔ سمندر سے مراد ایٹم، دل سے مراد ایٹم کا نیوکیلئس اور کباب سے مراد توانائی لینے پر شعر کی اصل حقیقت آشکارا ہوتی ہے۔
شراب کا نشہ کچھ وقت کے لیے ہوتا ہے نشہ اترنے کے بعد ساری مستی و بے خودی جاتی رہتی ہے بلکہ تکلیف و بے چینی کا احساس ہوتا ہے۔ غالب نے جس شراب کی بات کی ہے اس کی وجہ سے پیدا ہونے والا نشہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ ایک سائنس دان ہمیشہ سائنس کی مستی اور قوانینِ فطرت کی معرفت کی راہ میں قدم قدم پر حاصل ہونے والے سرور اور اس کی بے خودی میں رہتا ہے۔ چنانچہ غالب نے فرمایا کہ
مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو
اک گونہ بیخودی مجھے دن رات چاہیے
نشاط یعنی خوشی، مزہ؛ رو سیاہ یعنی کالے منہ والا، گنہ گار۔ غالب کہتے ہیں کہ الغرض یا قصہ مختصر یہ کہ مے سے کس رو سیاہ کو نشاط یعنی خوشی یا مزہ حاصل ہے؟ یعنی میں وہ رو سیاہ نہیں ہوں جسے مے سے نشاط حاصل ہوتی ہو۔ مجھے تو دن رات اک گونہ بے خودی چاہیے جو روایتی مے سے ممکن نہیں ہے۔
دیدارِ بادہ، حوصلہ ساقی، نگاہِ مست
بزمِ خیال مے کدۂ بے خروش ہے
خروش کے معنی ہیں شور و غل۔ بزمِ خیال سے مراد سائنسی تجربہ گاہ (Scientific Laboratory) ہے جس کی منظر کشی کی گئی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہاں شراب یعنی سائنسی آلات کا دیدار ہے ساقی یعنی سائنسدانوں کے حوصلوں کا مظہر ہے اور ہر نگاہ ایک نشے اور مستی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ یہ بزمِ خیال ایسا مے کدہ ہے جہاں کسی طرح کا شور شرابہ نہیں ہے جب کہ روایتی مے خانے میں ہنگامہ بپا ہوتا ہے۔
مے خانے سے متعلق کچھ اور اشعار:
نہ پوچھ وسعتِ مے خانۂ جنوں غالبؔ
جہاں یہ کاسۂ گردوں ہے ایک خاک انداز
اس شعر پر میں نے اپنے مضمون ” اشعارِ غالب میں سائنس کے تاندہ ذرات ” میں گفتگو کی ہے جو انٹرنیٹ پر کئی ویب سائٹوں میں موجود ہے۔ کاسہ یعنی کٹورا یا پیالہ۔ گردوں کے معنی ہیں آسمان یا گھومنے والا۔ خاک انداز سے مراد ہے کوڑا کرکٹ ڈالنے کا برتن۔ غالب کہتے ہیں کہ اے غالب جنوں کے مے خانے کی وسعت یعنی کشادگی یا پھیلاو مت پوچھ کتنی زیادہ ہے جہاں یہ آسمان کا کٹورا ایک کوڑا ڈالنے کے برتن جیسا ہے۔ کیا اس شعر میں روایتی مے خانے کی کوئی گنجائش نکلتی ہے؟ کاسۂ گردوں یعنی آسمان کے کٹورے کی مناسبت سے شعر کا مفہوم اسی وقت واضح ہوگا جب مے خانۂ جنوں سے مراد سائنس کی دنیا یا وسیع و عریض کائنات لیا جائے۔
رہا آباد عالم اہلِ ہمّت کے نہ ہونے سے
بھرے ہیں جس قدر جام و سبو، مے خانہ خالی ہے
اس شعر میں غالب اپنے زمانے میں سائنسی علوم سے دوری کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ عالم یعنی کائنات اہلِ ہمت کے نہیں ہونے کی وجہ سے صدیوں سے آباد اور خزانوں سے بھری پڑی ہے لیکن اس سے استفادہ نہیں کیا جا رہا ہے۔ جس قدر یہاں جام و سبو بھرے پڑے ہیں اسی قدر یہ مے خانہ خالی ہے اس سے فیض اٹھانے والے جواں ہمت لوگ نہیں ہیں۔ پہلے مصرع میں عالم لفظ اشارہ کر رہا ہے کہ جام و سبو قوانین فطرت یا سائنس کے مظہر ہیں اور مے خانہ سائنس کی دنیا یا کائنات ہے اور اہلِ ہمت سے مراد سائنس دان ہیں۔
علاوہ عید کے ملتی ہے اور دن بھی شراب
گدائے کُوچۂ مے خانہ نامراد نہیں
غالب کہتے ہیں کہ مے خانے کی گلیوں کے گدا نامراد نہیں ہوتے کیوں کہ یہاں عید کے علاوہ اور دوسرے دنوں میں بھی شراب ملتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہاں صرف عید کے دن ہی گداگروں کو خیرات ملتی ہو۔ اس شعر میں گدا سائنس دان ہیں اور کوچۂ مے خانہ سے مراد سائنس کی وادی کی گلیاں ہیں اور شراب سے مراد سائنس کی معرفت یا علم ہے۔ غالب کہتے ہیں کہ سائنس دانوں کو قدم قدم پر قدرت کے قوانین یعنی سائنس کے علم کا عرفان حاصل ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ مست رہتے ہیں اور انھیں اپنی چھوٹی چھوٹی کامیابیوں پر بڑی بڑی خوشی یعنی عید نصیب ہوتی ہے اور اس کے لیے کوئی خاص دن یا وقت مقرر نہیں ہے۔
مذکورہ بالا اشعار پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ غالب نے مے اور مے خانے کا سہارا لے کر جگہ جگہ سائنسی علوم کے حوالے سے اپنی بات پیش کی ہے۔ جسے شاعرانہ مجبوری کی طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ چناچہ فرمایا کہ اگرچہ حق کے مشاہدے کی گفتگو ہو رہی ہو لیکن بغیر بادہ و ساغر کا سہارا لیے بات نہیں بننے والی۔
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
مشاہدۂ حق کیا ہے؟ فطرت کے قوانین کا مشاہدہ یعنی سائنس ہی تو ہے۔
غالب کو اس بات کا ملال تھا کہ جس بادے کی بات وہ کر رہے تھے اُس دور میں لوگوں نے اسے نہیں سمجھا اور غالب کو صرف بادہ نوشی سے منسوب کر کے دیکھا لیکن انھیں اس کا بھی یقین تھا کہ اس کے بعد پھر وہ دَور ضرور آئے گا جس میں لوگ اس جامِ جم اور بادہ آشامی کی حقیقت کو سمجھیں گے۔
ہوئی اِس دَور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جامِ جم نکلے
اس شعر میں جو بمعنی جس وقت ہے۔ غالب اپنے عہد کا شکوہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اِس دَور میں مجھ سے بادہ آشامی یعنی شراب نوشی منسوب ہوئی لیکن پھر وہ زمانہ بھی آیا جس وقت دنیا میں پھر سے جمشید کے جام نمودار ہوئے یعنی سائنسی ایجادات و آلات کا زمانہ آیا اور میری بادہ آشامی کی اصل حقیقت لوگوں پر آشکار ہوئی۔ کیا اب بھی غالب کے بادے کو صرف بادہ سمجھنا مناسب ہوگا؟ یقیناً وہ وقت آگیا ہے اور ان اشارات کو اب سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ لیکن افسوس کہ اس وقت کے آنے میں تقریباً ڈیڑھ سو سال لگ گئے اور محمد مستقیم، جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے، اور وہاب قیصر، جنھوں نے تقریباً بیس سال قبل ایک کتاب ” سائنس اور غالب ” لکھی جو ریختہ کی ای لائبریری میں موجود ہے، سے پہلے اس موضوع پر کھل کر یا تفصیل سے بات نہیں ہو سکی۔ محمد مستقیم صاحب کا خیال ہے کہ غالب کی اردو شاعری میں تقریباً آدھے اشعار سائنسی موضوعات پر ہیں۔ اگر آدھے نہ ہو کر ایک تہائی بھی ہوں اور ان پر اہلِ علم سنجیدگی سے غور و فکر کریں تو یہ صدی غالب کو ایک نئے زاویے سے سمجھنے کی صدی ہو سکتی ہے۔
یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ غالب نے بیشتر جگہوں پر مے سے سائنسی علوم اور مے خانے سے سائنسی علم حاصل کرنے کی جگہ یا کائنات مراد لیا ہے، دو اشعار کی نئے زاویے سے تشریح کے بعد اجازت چاہوں گا۔
غالب کے زمانے میں مسلم قوم کی سائنس سے دوری اپنی انتہا پر تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی دور میں علم و حکمت اور سائنس پر کس قدر کام ہوا۔ تقریباً چھے سات سو سال تک مسلم سائنسدانوں نے سائنسی علوم کو فروغ دیا اور جدید سائنس کی بنیادیں قائم کیں جن سے دھیرے دھیرے مسلم قوم دور ہوتی گئی اور غیروں نے ان بنیادوں پر تعمیرات شروع کیں اور سائنسی علوم پر غلبہ حاصل کرتے گئے اور مسلمان “مے کدے” سے دور ہوتے گئے۔ جس کا ذکر غالب یوں کرتے ہیں:
جب مے کدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید
مسجد ہو، مدرَسہ ہو، کوئی خانقاہ ہو
یعنی جب ہم نے مے کدہ یعنی سائنسی علوم سے قطعِ تعلق کر لیا ہے اور صرف عبادات ہی تک محدود رہ گئے ہیں تو اب جگہ کی کیا قید ہے کسی مسجد میں بیٹھے رہیں یا مدرَسے میں توتے کی طرح سبق رٹتے رہیں یا کسی خانقاہ میں ذکر و اذکار کی محفل سجاتے رہیں سب ایک جیسا ہے اس سے دنیا میں کچھ فرق نہیں پڑنے والا۔
آخر میں دیکھیے کہ غالب کیسا ‘مے کدہ’ چاہتے تھے؟:
مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے
بھَوں، پاس آنکھ، قبلۂ حاجات چاہیے
خرابات یعنی مے خانہ اور قبلۂ حاجات یعنی ضرورتیں پوری کرنے والا یا نگرانی کرنے والا۔ مسجد کو بھوں سے اور مے خانے کو آنکھ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ غالب کہتے ہیں کہ آنکھ کے پاس اور اس کے اوپر جس طرح ہمیں بھوں چاہیے جو آنکھ کی نگرانی کرے اسی طرح ہمیں ایسا مے خانہ چاہیے جو مسجد کے زیرِ سایہ ہو یعنی مسجد اس کی نگرانی کرے اس کی ضروریات کو پوری کرے۔ یہاں مے خانے سے سائنسی علوم و ایجادات کی جگہ مراد لینے سے واضح ہوتا ہے کہ غالب یہ چاہتے ہیں کہ سائنسی علوم اسلام اور مسلم قیادت کی نگرانی میں فروغ پائیں اور عبادات کے ساتھ کائنات میں غور و فکر اور سائنسی ایجادات کا سلسلہ بھی جاری رہے۔