(Last Updated On: )
کردار
راجو : لالہ جی کا ۱۶ سالہ لڑکا
لالہ جی : راجو کے پتاجی
سیٹھائن : راجو کی ماں
پنڈت جی : ایک پنڈت
بدلو : راجو کا نوکر
(منظر : راجو کے گھر کے ڈرائنگ روم کا منظر ۔لالہ جی کپڑے پہن رہے ہیں)
لالہ جی : سنتی ہو۔ اری بھاگیہ وان۔ پتہ نہیں کیا کررہی ہے۔ کس کام میں مصروف ہے۔ جب بھی کوئی اہم کام ہو آوازدوتو کبھی آواز سنائی نہیں دے گی۔ کب سے چیخ رہا ہوں چائے تیار ہوئی یا نہیں۔ آج ایک انتہائی ضروری کام کے لیے جانا ہے۔ دیر ہورہی ہے لیکن کسی کی سمجھ میں ہی نہیں آرہا ہے (آواز لگا کر) اری بھاگیہ وان۔ چائے تیار ہوئی یانہیں۔ جلدی کرو مجھے ایک بہت اہم کام کے لیے باہر جانا ہے(بڑ بڑاتے ہوئے) یہ پنڈت جی ابھی تک نہیں آئے۔ مہورت ۔شبھ مہورت کا پابند تو خودانھوں نے مجھے بنایا۔ اور شبھ مہورت کی پابندی خود ہی نہیں کرتے ہیں۔
(سیٹھائن آتی ہیں)
سیٹھائن : کیا بات ہے پتہ نہیں کب سے شور مچارہے ہیں۔ ایسی کون سی خاص بات ہے۔
لالہ جی : اری۔ آج میرے ایک بہت اہم ٹینڈر کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ ٹھیک دس بجے وہ ٹینڈر کھلنے والاہے ۔ ویسے تو وہ ٹینڈر مجھے ہی ملے گا۔ ایسا مجھے پورا یقین ہے کیونکہ اس کام کے لیے سب سے کم قیمت میں نے ہی رکھی ہے۔ اگر وہ ٹھیکہ مجھے مل گیا تو ہمارا لاکھوں کا فائدہ ہوگا۔ منیجر صاحب تو پہلے ہی وہاں پہنچ چکے ہوں گے مجھے بھی وہاں دس بجے سے پہلے پہنچنا ہے۔ تاکہ وہ ٹینڈر میرے سامنے کھلے۔ اور میں چاہتا ہوں کہ میرے گھر سے نکلنے سے پہلے بد شگونی نہ ہو۔ میں نے پنڈت جی کو بھی بلا یا ہے۔ تاکہ وہ میرے گھر سے نکلتے وقت پوتر منتر پڑھیں تاکہ ان منتروں کے اثر سے وہ ٹینڈر مجھے مل جائیں اور اس ٹینڈر کا ہمیں ملنے کا مطلب تو تم اچھی طرح سمجھتی ہو۔ یعنی ہمارا لاکھوں کا فائدہ سمجھیں۔
سیٹھائن : اگر یہ بات ہے تو شبھ کام میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔ ابھی لیجئے بدلو۔ اوبدلو۔ ذرا جلدی سے چائے لانا۔
آواز : آیا مالکن۔
(بدلو چائے لیکر آتا ہے)
بدلو : لیجئے صاحب۔ گرم گرم چائے ۔ بڑی میٹھی اچھی گرم گرم چائے ہے۔ سویرے سویرے جو میرے ہاتھ کی بنی ایک چائے پی لے دن بھر نہال رہے ۔ آہ۔آہ۔
(سیٹھ جی بدلو کے ہاتھ سے چائے کا کپ لیتے ہیں اسی وقت بدلوکو زور کی چھینک آتی ہے اور وہ ایک کے بعد ایک کئی بار چھینکتا چلا جاتا ہے لالہ جی چائے کا کپ ایک طرف رکھ کر سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں)
لالہ جی : ستیہ ناس۔ ستیہ ناس۔ سارے کیے کرائے کا ستیہ ناس ہوگیا۔ اس بدلو کے بچے نے چھینک کر سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ اس کمبخت کو بھی کیا اسی وقت چھینکنا تھا۔ جس بات سے میرا من ڈر رہا تھا آخر وہی بات ہوگئی۔ میں چاہتا تھا کہ میرے گھر سے نکلنے سے پہلے کوئی ایسی بدشگونی نہ ہو جس کے اثر سے وہ اتنا اہم اور منافع بخش ٹینڈر ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے۔ لیکن اس بدبخت نے چھینک کر ایسی بدشگونی کردی ہے کہ اب اس بدشگونی کے اثر سے وہ ٹینڈر ہمیں مل ہی نہیں سکتا۔ بدلو کمبخت تو نے ہمارا لاکھوں روپیہ کا نقصان کردیا۔۔۔۔جی تو چاہ رہا ہے کہ اسی وقت تیرا گلا گھونٹ دوں۔۔۔۔
(راجو آتا ہے)
راجو : کیا بات ہے پتاجی آپ بدلو پر کیوں بگڑ رہے ہیں۔
لالہ جی : اب کیا بتائو ں بیٹے اس نے ہمارا لاکھوں کا نقصان کر ڈالا۔۔ آج ہمارا ایک ٹینڈر کھلنے والا تھا جو ہمیں ہی ملنے والا تھا۔ اس ٹینڈر سے ہمارا لاکھوں روپیوں کا فائدہ ہونے والا تھا۔ میں وہیں جارہا تھا کہ اس کمبخت نے چھینک کر بد شگونی کردی۔ اب وہ ٹینڈر ہمیں مل ہی نہیں سکتا۔
راجو : پتا جی آپ بھی کیسی بے سر پیر کی باتیں کرتے ہیں۔ ارے بھلا کہیں کسی کے چھینکنے سے کوئی کام بگڑ سکتا ہے۔ اگر ہماری قیمت سب سے کم ہے تو وہ ٹینڈر ہمیں ہی ملے گا۔ یہ شگون بد شگونی وغیرہ سب بیکار کی باتیں ہیں۔ آپ اتنا بڑا کاروبار چلا تے ہیں پھر بھی ان دقیانوسی باتوں پر یقین رکھتے ہیں کبھی کبھی تو مجھے حیرت ہونے لگتی ہے۔
لالہ جی : بیٹے ابھی تم چھوٹے ہو۔ ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ بڑے ہونے کے بعد تمہیں پتہ چلے گا کہ یہ بیکار کی باتیں ہیں یا ان کی کوئی اہمیت ہے۔
(پنڈت جی آتے ہیں)
پنڈت جی: نمسکار سیٹھ جی۔ نمسکار راجو بیٹے۔ کیا بات ہے سیٹھ جی۔ ایسی کونسی باتیں ہیں جن کو راجو بیٹا نہیں سمجھ سکتا۔
لالہ جی : ارے پنڈت جی آپ آگئے۔ اچھا ہوا۔ میں بہت دیر سے آپ کی راہ دیکھ رہا تھا۔ لیکن یہاں سب گڑبڑ ہوگئی ہے۔ بہت بڑی بدشگونی ہوگئی ہے۔ میں ٹینڈر کھلنے والے آفس جانے والا تھا کہ اس کمبخت بدلو کو چھینک آگئی۔ اب اس بدشگونی کی وجہ سے وہ ٹھیکہ کسی بھی حالت میں مجھے نہیں مل سکتا۔
پنڈت جی: اس بدلو کے بچے کو چھینک آگئی؟ رام رام رام…… اتنی بڑی بدشگونی۔ ستیاناس۔ سارے کیے کرائے پر پانی پھر گیا۔ اب تو وہ ٹھیکہ کسی بھی صورت میں آپ کو نہیں مل سکتا۔
لالہ جی : پنڈت جی۔ کچھ کیجئے۔ اگر وہ ٹھیکہ نہیں ملا تو ہمارا لاکھوں کا نقصان ہوجائے گا۔
پنڈت جی: ہاں۔ ایک راستہ ہے۔ اس بدشگونی کو دور کرنے کے لیے پوتر منتروں کا جاپ اور ہون پوجا کرنی پڑے گی اس پر لگ بھگ دوسو روپیہ خرچ آئے گا۔
لالہ جی : تویہ لیجئے۔ دوسو روپیہ لیجئے۔ اور منتر کے جاپ اور ہون پوجا کے ذریعہ اس بدشگونی کو دور کرنے کی کوشش کیجئے۔
راجو : پتاجی آپ پاگل تو نہیں ہوگئے ہیں پہلے تو یہ شگون بدشگونی بیکار کی باتیں ہیں۔ ان باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اورآپ پیسوں کے ذریعے ہون پوجا اور منتروں کے ذریعے ان کے اثر کو دور کروارہے ہیں۔ یہ سب بیکار کی باتیں ہیں۔ پنڈت جی آپ کو لوٹ رہے ہیں۔
پنڈت جی: (غصے سے) کیا کہا۔ ہم کو لٹیرا کہا۔ ہم کو لٹیرا کہا یہ پنڈت کا گھور اپمان ہے۔ ہم اپنے اس اپمان کو برداشت نہیں کرسکتے۔ اب ہم شبھ منتروں کا جاپ نہیں کریں گے۔ بدشگونی کو دور نہیں کریں گے۔ اس گھر میں ہمارا گھور اپمان ہوا ہے ہم جارہے ہیں۔ ہم ہی تھے جو اپنے پوتر متروں کے جاپ سے اس بدشگونی کو دور کرسکتے تھے۔ لیکن اب دیکھتے ہیں اس بدشگونی کا اثرکون کیسے دور کرتا ہے۔
لالہ جی : (پنڈت جی کو روکتے ہوئے) ارے ارے پنڈت جی آپ تو ناراض ہوگئے۔ اسے معاف کردیجئے۔بچہّ ہے۔ ان باتوں کو نہیں سمجھتا ہے ۔ نادانی میں اس طرح کی باتیں کہہ گیا۔ اب بچوں کی بات کا کیا برا ماننا۔ یہ رہی آپ کی دکشنا۔ آپ پوتر منتروں کا جاپ کیجئے اور اس بدشگونی کو دور کرنے کی کوشش کیجئے۔
پنڈت جی: ٹھیک ہے۔ آپ ونتی کرتے ہیں تو ہم منتروں کا جاپ کرتے ہیں۔ منتروں کے جاپ سے بدشگونی کا اثر دور ہوجائے گا۔ اس کے بعد آپ اپنی منزل کی طرف جاسکتے ہیں۔ ان منتروں کے اثر سے وہ ٹھیکہ آپ ہی کوملے گا۔
(پنڈت جی اونچی آواز میں منتر پڑھنا شروع کرتے ہیں۔ درمیان میں راجو بار بار اپنے منہ سے طرح طرح کی آوازیں نکالتا ہے جن کی وجہ سے پنڈت جی منتر بھول جاتے ہیں اور پھر دوبارہ پڑھنے لگتے ہیں)
لالہ جی : راجو یہ کیا شرارت ہے؟
راجو : شرارت نہیں پتاجی۔ یہ امتحان ہے۔ میں پنڈت جی کا امتحان لے رہا ہوں۔ میں دیکھ رہا ہوں پنڈت جی کو منتر آتے ہیں یا نہیں۔
پنڈت جی: (غصے سے) ہمارے منتر گیان پر شنکا۔ پنڈت کا یہ گھور اپمان ہے۔ پنڈت یہ اپمان نہیں سہن کرسکتا۔ اب ہم یہ منتر نہیں پڑھیں گے۔ ہم منتر نہیں پڑھیں گے تو بدشگونی کا پربھائو دور نہیں ہوگا اور لالہ جی آپ کو ٹھیکہ نہیں ملے گا۔ ہم جاتے ہیں۔
لالہ جی : نہیں نہیں پنڈت جی ۔ایسا مت کیجئے۔ راجو کی باتوں میں مت آئیے۔ میں آپ سے کہہ چکا ہوں وہ بچہ ہے نادان ہے۔
راجو : پنڈت جی۔ آپ جانا چاہتے ہیں تو شوق سے جائیے۔ پتاجی کے دکشنا کے دوسو روپیہ بچ جائیں گے۔
پنڈت جی: ( رک کر) دکشنا، ارے ہاں ہاں۔ وہ تو میں بھول ہی گیا۔ دیکھو بیٹا۔ پنڈت کی منتر شکتی اور گیان کا اس طرح مذاق نہیں اڑاتے۔ بری بات ہے۔ ٹھیک ہے میں اپنے منتروں سے بدشگونی کا اثر ختم کردیتا ہوں۔ (منتر پڑھنے لگتے ہیں۔ ختم کرنے کے بعد) لو۔ اب ہم نے اپنے منتروں سے ساری بدشگونی دور کردی۔ اب آپ جاسکتے ہیں۔ یہ ٹھیکہ آپ ہی کو ملے گا۔
(بدلو آتا ہے)
بدلو : مالک۔ باہر بھنگن آئی ہے۔ کچھ صاف کروانا ہے۔
لالہ جی : کیا۔ باہر بھنگن آئی ہے اور اس وقت ؟ ہے بھگوان پھر بدشگونی۔
پنڈت جی: رام رام رام۔۔ لالہ جی اس بھنگن نے آکر پھر بدشگونی کردی ہے۔ اب ٹھیکہ آپ کو نہیں مل سکتا۔
راجو : کیسی باتیں کرتے ہیں آپ پنڈت جی۔ کیا بدشگونی کا اثر آپ کے منتروں کی شکتی سے بھی دور نہیں ہوسکتا۔ آپ تو بڑی آسانی سے اپنے منتروں سے اس بدشگونی کے اثر کو دور کرسکتے ہیں۔
پنڈت جی: ہاں ہاں۔۔یہ تو میرے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ٹھیک ہے سیٹھ جی ۔ آپ مجھے میری دکشنا دے دیجئے۔ میں ابھی اپنے منتروں سے اس بدشگونی کا اثر دور کیے دیتا ہوں۔
لالہ جی : (پیسے دیتے ہوئے) لیجئے پنڈت جی۔ آپ کی دکشنا لیجئے اور اس بدشگونی اور اس اثر کو دور کیجئے مجھے ہر حال میں یہ ٹھیکہ ملنا ہی چاہئے۔
راجو : آپ بھی کیسی باتیں کررہے ہیں پتاجی۔ اور کس کی باتوں پر بھروسہ کررہے ہیں ایسا لگتا ہے جیسے آپ کے پاس عقل فہم نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ ابھی پنڈت جی کہہ رہے تھے کہ آپ کو یہ ٹھیکہ کسی بھی حالت میں نہیں مل سکتا۔ لیکن جب انھیں ان کادکشنا مل رہا ہے تو کہہ رہے ہیں آپ کا یہ کام ہوجائے گا۔ یہ ٹھیکہ آپ ہی کو ملے گا۔
لالہ جی : تم چپ رہو۔ تم ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے۔
(پنڈت جی جاپ شروع کرتے ہیں راجو ایک طرف اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور کبھی لالہ جی کو دیکھتا ہے تو کبھی پنڈت جی کو)
پنڈت جی: (منتروں کا جاپ ختم کرکے) جائیے سیٹھ جی۔ بدشگونی کا سارا اثر میں نے اپنے پوتر منتروں کے جاپ سے دور کردیا ہے۔ اور شبھ مہورت بھی آپہنچا ہے۔ اسی وقت گھر سے نکل جائیے۔ وہ ٹھیکہ آپ کو ہی ملے گا۔ یہ سب میرے منتروں کی شکتی کا کمال ہے۔
راجو : جھوٹ۔ پنڈت جی۔ اگر ٹھیکہ ہمیں ملے گا تو آپ کے منتروں کی شکتی سے نہیں قیمت کی کمی بیشی کی وجہ سے ملے گا۔ اگر ٹینڈر میں ہماری قیمت زیادہ ہوئی تو آپ اپنے سارے منتروں کی شکتی کا زور لگا دیجئے پھر بھی یہ ٹینڈر ہمیں نہیں ملے گا۔ اگر ہماری قیمت سب سے کم رہی تو ساری دنیا کی بدشگونیاں ہوجائیں لیکن پھر بھی یہ ٹینڈر ہمیں ہی ملے گا۔
(لالہ جی جانے لگتے ہیں۔ اس وقت راجو کی پالتو بلّی ان کا راستہ کاٹ جاتی ہے۔)
لالہ جی : ہے بھگوان۔ ایک اور بدشگونی۔ بلی راستہ کاٹ گئی ہے۔ ارے اتنی بڑی بدشگونی کے بعد تو کسی صورت میں وہ ٹھیکہ ہمیں نہیں ملے سکتا۔اس کمبخت بلی کو بھی ابھی ہی میرا راستہ کاٹنا تھا۔ اتنی بڑی بدشگونی۔
پنڈت جی: جی ہاں لالہ جی۔ گھوراپ شگون۔ اس سے بڑی بدشگونی تو کوئی ہے ہی نہیں۔ اب آپ کا جاکر اور نہ جاکر کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کیونکہ اب تو میری منتروں اور جاپ کی شکتی بھی کچھ نہیں کرسکتی۔ وہ ٹھیکہ آپ کو کسی بھی صورت میں نہیں مل سکتا۔
راجو : اگر ہماری قیمت کم رہی تو پنڈت جی وہ ٹھیکہ ہر حال میں ہمیں مل کر رہے گا۔ یہ ساری بدشگونیاں بھی مل کر ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ کیونکہ ان باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ یہ بیکار کی باتیں اندھی عقیدت ہے۔
(پنڈت جی اور لالہ جی سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد فون کی گھنٹی بجتی ہے)
لالہ جی : (ریسیور اٹھاکر) ہیلو کو ن بول رہا ہے۔ کون منیجر صاحب، کیا ٹینڈر کھل گئے ؟ ہماری قیمت سب سے کم نکلی(سنبھل کر بیٹھ جاتے ہیں) تو کیا وہ ٹھیکہ ہمیں مل گیا ہے۔ آپ سچ کہہ رہے ہیں۔ ہرے ۔ وہ ٹھیکہ ہمیں مل گیا۔ ارے وہ لاکھوں کے منافع والا ٹھیکہ ہمیں مل گیا۔
پنڈت جی: دیکھا لالہ جی۔ یہ سب میرے منتروں کی شکتی کا کمال ہے۔
لالہ جی : (غصے سے) تم چپ رہو۔ تم نے تو صاف کہہ دیا تھا کہ بہت بڑی بدشگونی ہوگئی ہے۔ وہ ٹینڈر مجھے مل ہی نہیں سکتا۔ لیکن اتنی بدشگونیوں کے بعد بھی وہ ٹینڈر ہمیں ملا ہے کیونکہ ہماری قیمت سب سے کم تھی۔اب میری سمجھ میں آئی راجو سچ کہتا ہے کہ ان باتوں کا کوئی وجود اور حقیقت نہیں ہے۔ اب میں کبھی ان باتوںپر یقین نہیں رکھوں گا اور تم بھی یہاں سے چلے جائو۔ تم نے ہی اپنی مرضی اور اپنے مفاد کے لیے ان زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔ لیکن راجو جیسے بچے تمہاری ساری زنجیریں توڑدیں گے جن میں تم لوگوں نے ملک کے بھولے بھالے لوگوں کو جکڑ رکھا ہے۔
(پنڈت جی منہ لٹکا کر جاتے ہیں راجو مسکراتا ہے)
(پردہ گرتا ہے۔)