بابا جی کے اعضاء اور شکل و شباہت سے ضُعفِ عمر کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ عمر کی کافی بہاریں دیکھ چکے ہیں میں اور بابا جی مسجد میں اکثر دوش بدوش بیٹھ کر فریضہ نماز ادا کرتے۔۔۔نماز کے بعد بابا جی کے جب بھی دستِ دعا بلند ہوتے تو زبان پر یہی الفاظ ملتے کہ"یا اللہ میری بیوی اور بیٹوں کی خطا معاف فرما اور بیٹوں کو اولادِ نرینہ ودیت کر"وہ پژمردہ چہرے سے یہی مدعا بیان کرتے اور بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں بھی ہمہ تن گوش ہو کر سب سنتا اور پھر اپنی راہ لیتا۔۔۔۔پر آج میرے دل نے بے اختیار اس بات پر اصرار کیا کہ بابا جی سے آج وجہ گریہ زاری پوچھنی چاہیے میں یہ اسرار جاننے کیلئے ترساں بھی تھا میں نے بابا جی سے ہمت جُٹّا کے استفسار کیا کہ بابا جی کیا وجہ ہے روز اس طرح نوحہ کناں ہونے کی؟؟
بابا جی چشمِ نم لیے گویا ہوئے کہ بیٹا!!! ایک دن ہمارے ہمسائے میں رہن بسریرہ ایک عورت اپنے نوزائیدہ بچے کیلئے دودھ لینے آئی مگر میری بیوی اور بیٹوں نے اسے ذلیل کیا اور دھتکار کے گھر سے بے دخل کر دیا اس عورت نے بددعا کی کہ"ساری زندگی نہ تو تُو سکھی رہے گی اور نہ تیرے سپوت اولاد یافتہ ہوں گے "بیٹا اس وقت تو مایہ کے ضو میں ہم نے اس آہ کو بے کار و بے مطلب سمجھا پر ہوش ٹھکانے تب آئے جب بیٹوں کی شادیاں ہوئے بیس بیس برس گئے مگر اولاد نہیں ہوئی بیٹا ہر جگہ، ہر ڈاکٹر کے پاس گئے مگر افاقہ نہیں ہوا بیٹا کسی کی بدعا نہ لینا یہ نصیحت پلے باندھ لو یہ ایک پُرہول چیز ہے جو اجاڑ ڈالتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔