یہ واقعہ گزشتہ جون کا ہے۔ شہرہ آفاق قصبے آکسفورڈ کے لارڈ میئر ایلن آرمی ٹیج ایک تقریب میں مدعو تھے۔ تیرہ سال سے کم عمر کھلاڑیوں کے ساتھ تصویر کھچوانے کا وقت آیا تو ایک لڑکی کے بارے میں ان کے منہ سے ایک فقرہ نکل گیا جس کا مفہوم یہ تھا کہ لڑکی جب جھکی تو دلکش لگ رہی تھی۔ یہ فقرہ لارڈ میئر کے لیے عذاب بن گیا۔ لوگ معترض ہوئے کہ یہ جملہ ’’نامناسب‘‘ تھا۔ آرمی ٹیج نے آئیں بائیں شائیں بہت کی‘ کبھی کہا کہ میں نے کچھ اور کہا تھا مگر لوگوں نے غلط سنا، کبھی کوئی اور تشریح کی لیکن یہ فقرہ گلے کا ہار بن گیا۔ تین بچوں کے باپ ایلن آرمی ٹیج کی ساری زندگی سیاست میں گزری اور ایک طویل سفر کے بعد وہ آکسفورڈ کا لارڈ میئر بنا تھا۔ آکسفورڈ جس کی شہرت داستانوی ہے‘ جس میں صدیوں سے مقامی حکومت جمہوری خطوط پر چل رہی ہے اور جس کا لارڈ میئر منتخب ہونا بڑا اعزاز ہے۔
مقدمہ لمبا چلا، کونسلروں نے خفیہ اجلاس منعقد کیے۔ خفیہ اس لیے کہ لڑکی کی شناخت عام نہ ہوجائے اور اس کی بدنامی کا سبب نہ بنے۔ سیاسی پارٹی، لبرل ڈیموکریٹ نے جس کے ساتھ لارڈ میئر وابستہ تھا، فقرے کو ناقابل قبول کہا۔ آکسفورڈ کنٹری کونسل کی تنظیم بھی جو بچوں کی حفاظت کے لیے کام کرتی تھی، بیچ میں کود پڑی۔ آخر کار مسئلہ آکسفورڈ سٹی کونسل کے پاس پہنچا۔ کونسل کا فیصلہ تھا کہ لارڈ میئر نے اخلاقی حدود پامال کی ہیں اور ایک بچی کے بارے میں ایسا فقرہ کہا جو کسی صورت معاف نہیں کیا جاسکتا۔ مارچ میں لارڈ میئر کو مستعفی ہونا پڑا۔
کیلی فورنیا کی اٹارنی جنرل کمالہ حارث اور صدراوباما کی سیاسی رفاقت طویل عرصے پر محیط ہے۔ دونوں ڈیمو کریٹک پارٹی سے ہیں۔ ماضی میں دونوں انتخابی مہم میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے رہے ہیں۔ کمالہ کی ماں ڈاکٹر شمالہ چنائی (مدراس) سے تھی‘ باپ جمیکا سے تھا۔ کمالہ نے قانون کا پیشہ اپنایا۔ پہلے سان فرانسسکو میں ضلعی اٹارنی جنرل کا انتخاب جیتا‘ پھر ریاست کیلی فورنیا کی اٹارنی جنرل بن گئی۔ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ تک ترقی کرے گی۔
چار اپریل کو ڈیمو کریٹک پارٹی نے چندہ جمع کرنے کی ایک بڑی تقریب منعقد کی جس میں صدر اوباما بھی شریک ہوئے۔ یہ تقریب کیلی فورنیا کے ایک قصبے اتھرٹن میں برپا ہوئی۔ بہت سے کروڑ پتی اور ارب پتی شریک ہوئے۔ تقریب کے انعقاد میں کمالہ کا خاصا عمل دخل تھا۔ چنانچہ صدر اوباما نے اپنی تقریر میں کمالہ کی تعریف کی۔ انہوں نے اسے مخلص، انتھک اور ذہین قرار دیا اور پھر کہا کہ ’’کمالہ ملک کی سب سے زیادہ خوش شکل اٹارنی جنرل ہیں‘‘۔ یہ فقرہ جو مغربی کلچر میں ایک عام سا فقرہ ہے صدر اوباما کے لیے مصیبت بن گیا۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن نے تنقید کرنا شروع کردی۔ مجموعی ردعمل یہ تھا کہ صدر کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ نکتہ جس پر زور دیا گیا یہ تھا کہ خواتین کو ملازمت کے دوران اس قسم کی ’’تعریف‘‘ کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے اور پیشہ وارانہ مہارت کے بجائے شکل و صورت ہی کیوں دیکھی جاتی ہے۔ بارہ گھنٹوں میں معاملہ خطرناک صورت اختیار کر گیا۔ یہ تک کہا جانے لگا کہ یہ منافقت ہے اور خاتون کی بے عزتی ہے۔ آخر کار صدر نے کمالہ کو فون کیا اور اپنے ریمارکس پر معافی مانگی۔ بات یہیں ختم نہ ہوئی۔ ایوان صدر کے پریس سیکرٹری کو وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا۔ کمالہ نے یہ تو تصدیق کی کہ صدر نے فون کیا لیکن اب میڈیا اس تجسس میں ہے کہ کمالہ نے صدر کو معاف کردیا ہے یا نہیں۔
ان دو تازہ ترین واقعات کے ذکر کے بعد ہم یورپ اور امریکہ سے واپس اپنے ملک آتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک فلم گردش کررہی ہے۔ ہزاروں لاکھوں پاکستانی اسے دیکھ چکے ہیں۔ ایک تقریب میں جو شاید سیاسی نوعیت کی ہے، ایک سیاستدان دکھائی دے رہا ہے۔ یہ سیاستدان ایک خاتون کے بارے میں انتہائی ناشائستہ اور غیر مہذب بات کرتا ہے اور اشارہ بھی کرتا ہے۔ بات کرنے اور اشارہ کرنے کے بعد وہ قہقہہ لگاتا ہے اور بار بار لگاتا ہے۔ حاضرین مجلس محظوظ ہورہے ہیں۔ ہنسی کی آوازیں آرہی ہیں۔ ہفتے گزر چکے ہیں‘ ابھی تک کسی کونے سے احتجاج کی ہلکی سی آواز بھی نہیں سنائی دی۔
یہ کسی ایک شخص کا قصور نہیں‘ ہم جو غیرت مند ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں‘ ہم جو خاتون خانہ کی آواز بھی چار دیواری سے باہر نہیں جانے دیتے‘ ہم جو اب بھی اپنی خواتین کو ملازمت کی اجازت نہیں دیتے‘ ہم بنیادی طور پر ناشائستہ لوگ ہیں۔ رکھ رکھائو، نرم گفتاری اور آداب مجلس سے ہم ہمیشہ ناآشنا ہی رہے۔ چادر اور چاردیواری کا شور و غوغا ہم نے چہار دانگ عالم میں خوب برپا کیا۔ افسوس! حقیقت میں ہم خواتین کی عزت کرنا جانتے ہی نہیں!
طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہم دوسروں کو ہر وقت طعن و تشنیع کا ہدف بنائے رکھتے ہیں۔ مغرب ہمارے نزدیک عورت کی عزت نہیں کرتا۔ ایک محاورہ ہم نے ایجاد کر رکھا ہے کہ عورت شمع خانہ تھی‘ مغرب نے اسے شمع محفل کردیا۔ ہم میں سے اکثر یہ تصور رکھتے ہیں کہ عورت ایک جنس ہے جو مغربی ملکوں میں افراط کے ساتھ میسر ہے۔ وہاں نہ خاندانی نظام ہے نہ عورتوں کی حرمت ہے۔ یہ سارے الزامات ہم اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے دہراتے ہیں لیکن جو کچھ ہمارے ہاں ہورہا ہے اس کا ذکر کرتے ہیں نہ فکر۔ بیویوں پر جسمانی تشدد نہ صرف ناخواندہ، دیہاتی بلکہ تعلیم یافتہ اور شہری بھی کرتے ہیں۔ جائداد میں عورتوں کو کچھ نہیں ملتا۔ کیا مسٹر اور کیا مولانا، اس گھنائونے جرم میں سب برابر کے شریک ہیں۔ جو تنظیمیں خواتین کے حقوق کے لیے بنی ہوئی ہیں اور اندرون ملک اور
بیرون ملک سے بے تحاشا فنڈ اکٹھے کرتی ہیں ان میں سے اکثر ضرورت مند خواتین کے ساتھ سرد مہری اور رعونت کا برتائو کرتی ہیں۔ کئی سال پہلے کی بات ہے۔ اس کالم نگار کے گائوں سے ایک عورت آئی جو اپنے گھر میں سلائی کڑھائی اور دستکاری قسم کا کام کرنا چاہتی تھی اور رہنمائی کی تلاش میں تھی۔ ہم میاں بیوی اسے دارالحکومت کی اس تنظیم نما دکان میں لے گئے جو ایک معروف دانشور خاتون چلاتی ہیں اور خواتین کے حال زار پر جن کی گراں بہا تحریروں کے انبار لگ چکے ہیں۔ اعتماد کے ساتھ اس لیے گئے تھے کہ اچھی خاصی شناسائی تھی اور برسوں کی تھی۔ ان کا سلوک اور ڈیلنگ دیکھ کر آنکھوں پر اعتبار آیا نہ کانوں پر۔ ایک درشتی تھی اور تکبر جو اہل ضرورت پر برس رہا تھا! ہم حاجت مند عورت کو ناکام و نامراد واپس لے آئے۔
اس کالم کے ردعمل میں بھی خطوط اور ای میلیں موصول ہوں گی جن میں لکھنے والے کو مغرب سے مرعوبیت کے طعنے دیئے جائیں گے۔ کچھ حسب سابق امریکی ایجنٹ کہیں گے۔ کچھ پھول جھاڑنے والے قلم مغرب کی غلامی کا خطاب بھی دیں گے۔ مغل دربار سے وابستہ نظیری نیشا پوری نے ہماری بیماری کی خوب تشخیص کی ہے: ؎
کس زما سرگشتگاں رہ بر مراد خود نیافت
بال و پر درجستجوئے منزلِ عنقا زدیم
یعنی ہم بددماغ لوگ ہیں۔ ایک ایسی منزل کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں جو عنقا ہے۔ آج تک کسی کو ہماری رہنمائی سے کامیابی نہ حاصل ہوسکی!!