آپ نے اکثر یہ کہاوت سنی ہو گی کہ چوروں کو پڑ گئے مور۔ یہ کہاوت اُس موقع پر بولی جاتی ہے جب کسی ٹھگ کو اُس سے بھی بڑا ٹھگ، ٹھگ لے۔
تو آج ہم بات کرتے ہیں دو “ٹھگوں” کی۔ یعنی وائرس اور بیکٹیریا کی۔ گو فطرت میں ہم تمام وائرسز اور بیکٹریاز کو ٹھگ تو نہیں کہہ سکتے کیونکہ اچھے برے انساںوں کی طرح اچھے برے وائرس اور بیکٹریا بھی ہوتے ہیں مگر چلیے ذرا سمجھانے کے لیے ان میں سے نقصان دہ وائرسسز اور بیکٹریاز کو ٹھگ مان لیتے ہیں۔
بہت سے بیکٹریا انسانوں اور جانوروں کے لئے مفید ہوتے ہیں۔ مثلآ انسان کے نظامِ ہضم میں موجود اربوں کی تعداد میں وہ بیکٹریا جو انسان کو کھانا ہضم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیں بہت سی بیماریاں بھی بیکٹریاز اور وائرسز سے ہوتی ہیں۔
آج ہم یہ جانتے ہیں کہ کچھ مخصوص بیکٹریاز انسانوں اور جانوروں کے جسم میں منتقل ہو کر تیزی سے وہاں اپنی افزائش کرتے ہیں اور بیماری کا سبب بنتے ہیں۔ اسی طرح آج ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کیسے نقصان دہ وائرس جسم میں داخل ہو کر قوتِ مدافعت کو متاثر کر کے آدمی کو بیمار کرتے ہیی حتی کہ موت کا سبب بھی بنتے ہیں۔ جیسے کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران دیکھنے میں آیا۔
تو کیا بیکٹریا جو خود بیماری کا سبب بنتے ہیں اور وائرس جو بیماریاں پھیلاتے ہیں ایک دوسرے کے لیے بھی جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک وائرس کے ذریعے ایک بیکٹریا کو مارا جائے یا ایک وائرس بیکٹریا کو ہی بیمار کر دے؟
اسکا جواب ہاں میں ہے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ مختلف طرح کے مخصوص وائرسز ، مختلف طرح کے بیکٹریاز کو بیمار کر دیتے ہیں بلکہ اُنہیں مار دیتے ہیں۔ ایسے وائرسز کو ساینس کی زبان میں بیکٹیرئیوفیج (Bacteriophage) کہتے ہیں۔
بیکٹریا عمومآ سائز میں وائرس سے دس گنا یا اُس سے بھی زیادہ بڑے ہوتے ہیں۔ ایک وائرس دراصل نہ زندوں میں شمار ہوتے ہیں اور نہ ہی مردوں میں۔ ایک وائرس ڈی این اے یا ڈی این اے کا ایک حصہ ہوتا ہے جسکے گرد حفاظتی جھلی ہوتی ہے۔ کوئی بھی وائرس جب کسی خلیے میں داخل ہوتا ہے جیسا کہ بیکٹیریا(جو ایک خلوی جاندار ہوتا ہے) تو اس بیکٹیریا کی افزائش کی صلاحیت کو ہائیجیک کر لیتا ہے۔ یعنی وہ بیکٹریا کو مجبور کرتا ہے کہ بیکٹریا اپنی نسل آگے بڑھانے کی بجائے اُسکی نسل آگے بڑھائے۔ کیسے؟ ایسے کہ وہ بیکٹیریا کی تقسیم کرنے کی مشینری کو اپنے استعمال میں لاتا ہے۔ بیکٹیریا خود کو تقسیم کر کے اپنی نسل آگے بڑھانے کی بجائے وائرس کی کاپیاں بنانا شروع کر دیتا ہے۔ یوں جب ایک بیکٹریا میں سینکڑوں سے ہزاروں کی تعداد میں وائرس بنتے ہیں تو وہ ایک طرح سے پھٹ جاتا ہے اور مزید وائرسز بیکٹیریاز کی کالونی میں پھیل جاتے ہیں۔
سائنسدانوں کو پہلے بیکٹیرئیوفیج کا پتہ 1915 میں چلا مگر اسے زیادہ اہمیت نہیں دی گئی کیونکہ اُسکے بعد Antibiotics ادوایات کے آنے سے موثر طور پر بیکٹیریاز کو ختم کیا جا سکتا تھا۔ تاہم آج میڈکل سائنس میں بیکٹیرئیوفیج کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔۔کیوں؟ کیونکہ اینٹی بائیوٹک ادویات کے بے جا اور غلط استعمال سے بہت سے بیکٹیریاز میں ان ادویات کے خلاف اتقائی عمل کے تحت مدافعت پیدا ہو رہی ہے۔ جس سے مستقبل میں خدشہ ہے کہ ان ادویات کے ذریعے نقصان دہ بیکٹیریاز کو ختم کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جائے گا۔
لہذا جدید سائنس اب ایسے وائرسز کے ذریعے بیکٹریاز کا قلع قمع کرنا چاہتی ہے جو انہیں ختم کر دیں۔ اس سلسلے میں تحقیق فی الحال ابتدائی مراحل میں ہے اور اس طرح کے وائرس کے ذریعے کیے جانے والا طریقہ علاج ابھی میسر نہیں۔
ہمارے جسم میں بھی اربوں کی تعداد میں روز ایسے
بیکٹیرئیوفیج وائرس داخل ہوتے ہیں جو جسم میں موجود بیکٹریاز کو ختم کر کے ہمارے اندر انکی آبادی کو توازن میں رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ ہمارے جسم کے بیشتر حصوں جیسے کہ منہ، پھھپھڑوں، آنتوں یا پیشاب کی نالی وغیرہ میں موجود ہوتے ہیں اور ان میں سے کئی ہمارے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں۔
یوں چوروں کو مور پڑنے والی کہاوت ان پر صادق آتی ہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...