بچپن میں محلے میں جب کسی کو کوئی چیز بانٹنی ہوتی تھی تو آواز دی جاتی تھی کہ “چیز ونڈی دی لئی جاؤ” یعنی چیز بانٹی جارہی ہے آکر لے لیں رمضان،شب رات،گیارہویں شریف ،جمعرات،پیر ان دنوں میں گلیوں میں کھیلتے ہوے ان آوازوں پر دھیان رکھا جاتا تھا جیسے ہی آواز کی سمت کا تعین ہوتا تو اُس سمت ڈوڑ لگا دی جاتی اور چند ہی لمحوں میں خاصی تعداد میں بچے جمع ہوجاتے پھر کچھ گھروں میں کوئی آئنٹی چھوٹے بچوں کو آگے اور بڑوں کو پیچھے کھڑا کرکے لائن بنا دیتی تو سب کو مناسب طریقے سے چیز مل جاتی اور خاطرخواہ بھنے چاول،ریوڑی،شکر والے مکئی کے دانے جیب میں یا جھولیوں میں ڈال دئیے جاتے اگر ایسی ترتیب نہ بنائی جاتی تو بڑے اور طاقتور بچے کمزوروں کو روند ڈالتے اور ساری چیز کے اُڑتے۔
کچھ بڑے ہوئے تو مسجد میں نماز کی غرض سے جانے لگے اگر کوئی فوت ہو جاتا تو خصوصاً فجر کی نماز کے بعد قل کی رسم ادا کی جاتی اس میں فوت شدگان کے لواحقین کٹا ہوا فروٹ،بھنے چاول تقسیم کرتے تو تقریب اکثر بدنظمی کا شکار ہوجاتی لوگ مار ڈھاڑ پر اتر آتے اور ماحول یکسر تبدیل ہوجاتا لوگ بھول جاتے کہ ابھی ابھی مولوی صاحب نے دُعا سے پہلے تقریر میں اس چیز پر روشنی ڈالی ہے کہ یہ دنیا عارضی مقام ہے اور سب کو ایک نہ ایک دن اس جہان فانی سے رخصت ہونا ہے اور یہ کسی فوت شدہ کو ایصال ثواب کی غرض سے تقسیم کیا جانے والا لنگر ہے
رمضان شریف میں ختم قرآن کی محافل ہوتی تو باقاعدہ لڑکے گروہوں کی شکل میں مسجدوں کا رخ کرتے اور بہت سے ایسے چہرے دیکھنے کو ملتے جو پورہ رمضان تراویح میں نہی ہوتے تھے اس کاروائی میں باقاعدہ وقت کا خیال رکھا جاتا تھا کہ پہلے کس مسجد میں جماعت ہوگی اور پھر کس مسجد میں جانا ہے مولوی صاحب بار بار اعلانات کرتے کہ شرینی کا وافر مقدار میں انتظام ہے اپنی جگہوں پر تشریف رکھیں لیکن پھر وہی ہوتا وہی معزز حضرات جو تھوڑی دیر پہلے گڑگڑا کر گناہوں کی معافی طلب کررہے ہوتے تھے اس دھینگامستی میں صفیں پھلانگتے مال غنیمت سمٹتے نظر آتے۔
جب شادی بیاہ کی تقریبات میں دعوت ولیمہ میں آواز لگائی جاتی روٹی کھل گئی ہے تو لوگ آواز کی سمت یوں حملہ آوار ہوتے کہ لباس و دستار کا خیال نہ رہتا اور طاقت ور چالاک لوگوں کی پلیٹوں میں بنا شرمندگی کے کھانے کے پہاڑ نظر آتے جو اُن کی ضرورت سے زیادہ ہونےکی وجہ سے بعد میں ضائع ہوتا جبکہ کمزور اور عزت دار لوگ شرمسار سے بچا کھچا تھوڑا بہت حاصل کرپاتے –
ان سب مناظر سے یقیناً سب ہی واقف ہوں گے یہ عام طور پر ہمارے اردگرد نظر آتے رہتے ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ ہر سطح پر ہمارا سماجی رویہ کیوں ہے عمومی طور پر ایسے رویے غیر یقینی کی صورت حال میں پیدا ہوتے ہیں جب لوگوں کو آنے والے حالات کا درست ادراک نہ ہو تو لوگ اجتماعی سوچ کے بجائے انفرادی سوچ کا شکار ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے صاحب اختیار اور طاقت ور چالاک لوگ اپنی ضرورت سے زیادہ جمع کرنے کی فراق میں رہتے ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی عوام بھی یہی رویہ اختیار کرتے ہیں جس کی وجہ سے ضرورت مندوں کی حق تلفی ہوتی ہے چاہے وہ وباء کے دنوں میں سینیٹائزر میٹریل ہو،ایکٹمرا انجیکشن ہو،پیٹرول ہو لوگ ہجوم کی صورت میں حملہ آور ہوتے ہیں اور اس مار ڈھاڑ،دھینگامستی میں طاقت ور چالاک ،صاحب اختیار ہمیشہ کامیاب اور کمزور ناکام و نامراد ہے