بچپن سے بچپن تک ۔۔۔۔ایک کہانی
آج آفس سے وآپسی پر کلمہ چوک میٹرو بس اسٹیشن کے باہر ایک خوبصورت بچے کو دیکھا ۔ بچے کو اس کی ماں نے گود میں اٹھا رکھا تھا ۔اس کی معصومیت اور مسکراہٹ ابھی تک میری آنکھوں میں مہک رہی ہے،مجھے ابھی تک یہ دنیا خوبصورت ،دلکش ،دلفریب اور پرکشش نظر آرہی ہے،جدھر دیکھتا ہوں وہی نظر آرہا ہے،زمین پر ہر طرف بچھے مسکراہٹیں بکھیرتے نظر آرہے ہیں اور آسمان پر چاند اور ستاروں کے بیچ و بیچ ایک خوبصورت بچہ نظر آرہا ہے ،جو میری طرف مسکرا رہا ہے ۔سوچتا ہوں یہ انسان اپنا بچپن کیوں کھودیتا ہے؟انسان اور انسانیت نے اپنا بچپن کھو دیا ہے ،اسی لئے دکھ اور تکلیف میں ہے ۔انسان نے نظریات ،فلسفے اور عقائد کی خاطر بچپن کی معصومیت کو کچل ڈالا ہے اور یہی سب سے بڑی ٹریجیڈی ہے۔آج بھی جب میں بچپن کو یاد کرتا ہوں تو حیرت زدہ رہ جاتا ہے،کس قدر خوبصورت زمانہ تھا ۔کوئی علم و فکر نہ تھا ،لیکن معصومیت تھی ،خوبصورتی تھی،ادائیں تھی ،دلکشیاں تھی ۔آسمان کی فضاؤں میں پرندوں کی طرح اڑا کرتے تھے،کبھی ہم بھی خوبصورت اور معصوم ہوا کرتے تھے ۔واہ کیا سنہری یادیں ہیں بچپن کی ۔ہر طرف خوشیوں کا رقص ہوا کرتا تھا ،کوئی غم نہ تھا ،کوئی پریشانی نہ تھی ،کاش وہ بچپن لوٹ آئے ۔پہلا بچپن اس لئے خوبصورت تھا کیونکہ وہ جہالت سے بھرپور تھا ،وہ نظریات اور فلسفے سے آزاد تھا ۔وہ بچپن خالص تھا ،مگر واضح نہیں تھا ،شاید شفاف بھی نہیں تھا ۔وہ بچپن فطری تھا ۔لیکن ایک اور بچپن بھی ہوتا ہے ، میں اسے سعید اجمل والا دوسرا بچپن کہتا ہوں ۔دوسرا بچپن انسان کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔یہ بچپن ہر کسی کو نہیں ملتا،لیکن جس کو مل جائے موت تک اس کے ساتھ رہتا ہے ۔یہ سعید اجمل والا دوسرا بچپن جہالت سے آزاد ہوتا ہے ۔یہ بچپن انسان کو خوبصورت تجربات سے حاصل ہوتا ہے ۔۔ایک بات دعوی کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ انسان کا جسم کبھی بوڑھا نہیں ہوتا ،اگر انسان خوبصورت خاموشی کو انجوائے کرنا سیکھ لے،اگر انسان پرامن رہنا سیکھ لے،اگر انسان محبت سے واقفیت اور دوستی بڑھا لے،اگر انسان آزادی کا لطف اور رقص محسوس کرنا شروع کردے۔اور اگر انسان آسمان پر پنچھی کی طرح پر پھیلا کر اڑنا سیکھ لے،ایسا انسان کبھی بوڑھا نہیں ہوتا ۔اس انسان کو معصوم فرد بننا ہوگا،اور شخصیت سے نجات حاصل کرنی ہوگی ،تب ہی وہ بچپن کو دوبارہ پا سکتا ہے ۔یہ انسان اور انسانیت بوڑھاپے کا شکار ہے ،یہ آلودگیوں اور غلاظت میں لتھری ہوئی انسانیت ہے ۔اس فیملی سسٹم نے ،اس معاشرے نے ،ان نظریات نے ،خوفناک ماضی نے انسان کو تباہ و برباد کر ڈالا ہے۔۔۔یہ انسان الہامی بچپن کو تمام زندگی انجوائے کرسکتا ہے ۔کیونکہ بچپن وہ زمانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا، آخری سانسوں تک انسان کا ساتھ دیتا ہے ۔بچپن کے وہ تازہ اور خوبصورت لمحات اب بھی ہمارے ساتھ ہیں ،لیکن ہم دیکھ نہیں سکتے ،ہم روحانی اندھے پن کا شکار ہیں ۔انسان کا شاندار احساس کبھی ختم نہیں ہوسکتا،انسان بنیادی طور پر ایک معصوم مخلوق ہے ۔بچپن کیوں خوبصورت ہوتاہے؟ اس وجہ سے کہ اس زمانے میں انسان کے پاس منافق تہذیب نہیں ہوتی،صرف اصلی اور فطری آزادی اسے میسر ہوتی ہے ۔بچپن ابھی بھی یہاں وہاں ادھر ادھر ہے ۔ہم انسان پنچھیوں کی زبان سمجھ سکتے ہیں ،آسمان ،درخت،ستارے ،چاند اور سورج کے ساتھ قہقہے لگا سکتے ہیں ،صرف اندر کی کائنات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔بہت ہو گئی انتہا پسندی،بہت ہو گئی دہشت گردی ،بہت ہوگئی قتل و غارت،بہت کر لی ہم نے اپنے ساتھ جنگیں اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ بدمعاشیاں ،اب آئے میرے پیارے پاکستانیوں اس توانائی کو دنیا کو خوبصورت اور خوش و خرم بنانے پر صرف کرو،پھر دیکھو وہ بچپن کیسے بھاگ کر تمہاری روح کا حصہ بنتا ہے ۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے پیچھے پڑے ہیں یا پھر ایک دوسرے کے پیچھے چھپے بیٹھے ہیں ،ہم انسان ایک دوسرے سے اپنا بچپن چھپاتے ہیں ،ان بچوں کو دیکھو ،یہ کیسے کھیلتے کودتے اور زندگی کا لطف لیتے نظر آتے ہیں ،لیکن ہمارا دھیان ان کی طرف جاتا ہی نہیں ،بلکہ ہم تو ان کا بچپن بھی آلودہ کررہے ہیں ۔انسان کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس نے سنجیدگی اور منافقت کے سوا اس دنیا میں کچھ اور سیکھا ہی نہیں ہے ۔اسی لئے اس آلودہ سنجیدگی اور منافقت نے ہم سے ہمارا بچپن چھین لیا ہے ۔یہ سنجیدگی اور منافقت نفسیاتی بیماریاں ہیں ،آئے انسانو،ان معصوم بچوں کا رویہ دیکھو،یہ نیک عادات سمجھو ،یہ روحانی انداز اپناؤ۔وہ آسمان پر جو ہمیں دیکھ رہا ہے ،وہ جسے تو مختلف ناموں سے یاد کرتے ہو ،وہ جسے تم سنجیدگی سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہو ،وہ بھی ایک بچہ ہے ۔بچپن میں ہی خدائی انداز ہوتے ہیں ،انسان کی معصومیت ہی اس کا اصلی اور حقیقی چہرہ ہے ،یہی بچپن ہی ہے جس میں شاعرانہ رقص و سرود ہے ،جس میں شاعرانہ اظہار خیال ہے ۔اس معاشرے ، ان نظریات نے ہمارا بچپن چھین لیا ہے ۔انسان اورانسانیت معصوم اور دلکش چہروں سے محروم ہو گئی ہے ،کیونکہ یہ سنجیدہ اور منافق جو ہو گئی ہے۔چھوڑو،ان آلودگیوں کو جو تم میں ٹھونس دی گئی ہیں ۔یہ سب نظریات کی کارستانی ہے ۔جو ہو وہی رہو،مت سوچو کہ دنیا کیا کہے گی۔ایسا کرو گے تبھی ہی تمہیں شاندار آرام و سکون میسر آئے گا ۔کہاں گیا انسان اور انسانیت کا اوریجنل چہرہ؟ہم کیوں نہیں سوچتے ؟دوڑو،بھاگو،ناچو،گاؤ،قہقہے لگاؤ اور خوب مسکراؤ،یہی زندگی ہے،دل کے ساتھ رہو ،دل کی ہی سنو،دل تو بچہ ہے،دل ہی تو بچپن ہے۔یہی دل ہی سچائی اور آزادی ہے ۔اس دل کی خوشبو کو سمجھو ،اس کی مسکراہٹ پر فدا ہو جاؤ۔ہمارا مسئلہ کیا ہے؟ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری مسکراہٹ نقلی اور منافقانہ ہے،ہم خوامخواہ کے مہذب ہیں ،ہم اپنے قہقہے چھپاتے ہیں ۔ہم سب نے ماسک پہن رکھے ہیں ،کوئی ہے جس کے بارے میں کوئی یہ کہہ کہ یہ اوریجنل انسان ہے؟دیکھو ان درختوں کو یہ حقیقی اور اصلی ہیں ،دیکھو ان پرندوں کو یہ حقیقی اور اصلی ہیں ،ساری کائنات اوریجنل ہے ،لیکن اگر کوئی اوریجنل نہیں ہے تو وہ ہے انسان ۔ہر انسان کے چہرے پر کروڑوں نقاب ہیں ،وہ ان نقاب کی دنیا میں کھو گیا ہے ۔ہم عیسائی ہیں ،ہندو ہیں ،پنجابی ہیں ،انگریز ہیں ،جرمن ہیں ،جاپانی ہیں ،کہاں گئی ہماری اصلیت،کہاں گیا ہمارا بچپن ؟انسان کو ماضی کی غلاظتوں سے نجات حاصل کرنی ہو گی ،تب جاکر وہ معصوم بچپن حاصل ہو گا جو میں نے کلمہ چوک میٹرو اسٹیشن کے پاس دیکھا تھا ۔انسان کا حقیقی چہرہ بہت خوبصورت ہے اور یہی چہرہ ہمیں پریشانیوں سے نجات دلا سکتا ہے ۔ان اسکولوں کو یاد کرو،جہاں تم تعلیم حاصل کرتے تھے،ان درختوں،ان پرندوں ،ان ستاروں کو یاد کرو جن کے ساتھ تم کھیلا کرتے تھے ،کہاں گئی وہ معصوم اور الہامی آوزیں اور باتیں ؟وہ کہیں نہیں گئی ،وہ تمہارے ساتھ ہیں ۔یہ جو انسان نے اخلاقیات کا بھوت،نظریات کا خوف،والدین کا ظلم ،استادوں کی نصیحتیں ، اپنے اوپر سوار کر رکھی ہیں ،اسی وجہ سے وہ بچپن کو بھول گئے ہیں ۔انسان کو اپنے اندر کے احساس کو جگانا ہوگا ۔اگر آزادی اور بچپن چاہیئے تو پھر ان تمام سے چیزوں سے پیچھا چھڑالو۔انسانو اپنی آنکھوں میں تازگی لاؤ،ایسی تازگی کہ اپنی اندر کی دنیا میں آسانی سے جھانک سکو ،سوچو کس قدر خوبصورت دنیا ہے جسے ہم کھو رہے ہیں ۔ہم روحانی اندھے پن کا شکار ہیں ،یہ جسمانی اندھا پن کچھ نہیں ۔کلمہ چوک میٹرواسٹیشن پر ماں کی گود میں مسکراتے بچے کی مسکراہٹ اور معصومیت کی تازگی ہے کہ ختم ہونے کانام ہی نہیں لے رہی ۔کاش اس بچے کی معصومیت اور مسکراہٹ اس دنیا میں چھا جائے ،کاش کچھ ایسا ہوجائے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔