بچپن کی بات ہے
غربت کی وجہ سے انگریزی میڈیم میں والد پڑھا نہ پائے مگر ہر دم ان کی فرمائش مع غصہ رہتی تھی کہ انگریزی امپروو کرو اور مجھ سے انگریزی میں بات کرو
مگر بہ وجوہ والد جو کہتے تھے دل اس کے الٹ کرنے کو چاہتا تھا
سو کبھی انگریزی بولنے اور لکھنے پر توجہ نہ دی
ان دنوں شارٹ ہینڈ اور ٹائپ کا بڑا رواج تھا والد کہتے تھے شارٹ ہینڈ اور ٹائپ سیکھو مگر چونکہ یہ بات والد کہتے تھے اس لئے دل کو نہ لگتی تھی
میرے والد کے ایک دوست تھے جو ان دنوں کی ایک بڑی ملٹی نیشنل فرم میں اسٹینو تھے . میں انھیں پھوپھا کہتا تھا . وہ سختی سے منع کرتے تھے کہ بیٹے کو کبھی دفتری اسٹینو ٹائپسٹ نہ بنانا. اس لئے وہ مجھے بہت اچھے لگتے تھے . وہ اصولوں کے بڑے پکے اور نہایت سچے اور کھرے انسان تھے . میرے والد بھی ان جیسے تھے جبھی ان دونوں کی بڑی جمتی تھی . دونوں ہر دوسرے یا تیسرے اتوار ملتے تھے اور باہر گھومتے تھے . میرے والد مجھے ساتھ رکھتے تھے . پھوپھا عمر میں والد سے کافی بڑے تھے اور اکثر والد کو خانگی اور بچوں کی زندگی گذارنے کے اصول سمجھاتے رہتے تھے
پھپھو مجھے کافی ہسند تھیں . جہاں تک یاد پڑتا ہے ان کی تین بیٹیاں اور دو بیٹےتھے .پھپھو کے گھنگھریالے بال اور شرما شرما کر گفتگو کرنے کی عادت مجھے بھاتی تھی . وہ عمر میں پھوپھا سے کافی چھوٹی تھیں . ان کے گھر ہر چیز سسٹمک تھی . ان کے کچن میں ہفتے کے سات دن کا مینو چسپاں تھا جو پھوپھا نے تیار کرکے لگایا تھا . ہم جس دن جاتے زیادہ تر اتوار کو جو مینو میں تھا وہی پکتا . ان کے سارے بچے بچیاں بھیگی بلی بنے گھر میں چپ چاپ چلتے پھرتے نظر آتے . سارا حکم پھوپھا کا چلتا .
ایک وقت آیا پھوپھا اور ابا دونوں کو اپنا اپنا گھر خریدنے کی سوجھی . پھوپھا نے نارتھ کراچی میں ایک پلاٹ خرید کر اس پر ٹھیکیدار سے مکان بنوانا شروع کیا . اب اتوار کا دن پھوپھا اور ابا دونوں اسی بنتے مکان کے باہر ملتے اور گھنٹوں مکان پر بات ہوتی . ابا مجھے بھی کبھی کبھی ساتھ لےجاتے جو میرے لئے بڑی بورنگ دن ہوتا . نہ پھوپھی سے ملاقات ہوتی نہ ان کے بچوں سے . زیرتعمیر مکان کی باتوں میں میری کوئ دلچسپی نہ تھی . غرض یہ کہ ان کا مکان تو بن گیا مگر میرے ابا اتنے زیادہ پیسے جمع نہیں کرپائے کہ اپنا مکان خریدتے یا بنواتے . چنانچہ ہم دو یا تین بار ان کے نئے مکان پر گئے سب سے ملے مگر اب ان کے رویوں میں فرق آگیا تھا . میں بھی کالج میں آگیا تھا . میں نے اور امی نے جانے سے انکار کردیا کیونکہ ان کا نیا رویہ ہمیں پسند نہ تھا . یوں ہماری ملاقاتیں کم ہوتی چلی گئیں . کبھی کبھار ابا بتاتے کہ پھوپھا سے ملاقات ہوئ تھی مگر اب ہمیں ان میں کوئ خاص دلچسپی نہ تھی .
وقت گذرا ہمارا بھی اپنا مکان یوگیا . میں شادی کرکے الگ گھر میں رہنے لگا . تب مجھے کئ بار پھوپھا کی فیملی کی یاد آئ . وہ لوگ میری شادی میں بھی نہیں آئے تھے . کئ بار امی سے ہوچھا کہ ان کی لڑکیوں کی شادی ہوئ کہ نہیں. امی نے بتایا نہیں ہوئ . پھوپھا کو پتہ نہیں کن دامادوں کی تلاش تھی کہ بچیوں کی عمر کی فکر ہی نہ کرتے تھے . بچیاں ماسٹرز کرکے دفتروں میں جاب کررہی تھیں یا پڑھا رہی تھیں . 2010ء میں پاکستان گیا تو امی کے سامنے ذکر نکلا تو امی نے بتایا کہ تینوں میں سے ایک بیٹی کی بھی شادی نہیں ہوئ . ایک بیٹا باہر جاکر گم ہوگیا . دوسرے بیٹے نے گھر سے الگ ہوکر خود شادی کرلی . تینوں بیٹیاں اسی طرح مجرد زندگی گذاررہی ہیں . پھوپھا کا انتقال ہوچکا .
یہ کیسی کہانی ہے? کیسی زندگی ہے? جہاں ایک آدمی کا فیصلہ پورے خاندان کو تباہ کردیتا ہے . میری سمجھ میں نہیں آتا ہم کس کمپلیکس اور کس مردانگی کا شکار ہوجاتے ہیں کہ اپنے فیصلے تھوپتے تھوپتے اپنے بچوں کی زندگیاں تباہ کردیتے ہیں . ان کی دو بیٹیاں مجھ سے محض دو یا تین سال چھوٹی تھیں اور بیٹے پانچ سے چھ سال چھوٹے . آج بھی پھوپھا اور پھوپھی کا چہرہ نگاہوں کے سامنے آتا ہے توان کی بچیوں پر اور بچوں پر رحم آنے لگتا ہے . خدارا بچوں کو اپنے غلط فیصلوں کی بھینٹ نہ چڑھائیے . سب کےلئے دعائیں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“