ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک وڈیو کا چرچا ہے جس میں سال ڈیڑھ سال کا ایک بچہ بار بار ہنستا ہے اور آخر میں ہنس ہنس کر اتنا بے حال ہوتا ہے کہ بیٹھے بیٹھے گر جاتا ہے۔ ویڈیو میں وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ’’ہمیں وہ پاکستان چاہیے جو غربت سے آزاد ہو‘‘۔ یہ سن کر بچہ قہقہہ لگاتا ہے! پھر وزیر اعظم کہتے ہیں (اس وقت وہ وزیر اعظم نہیں تھے) ’’ اللہ نے ہمیں حکومت عطا فرمائی تو میں نے وہاں نہیں بیٹھنا‘ اسلام آباد میں‘‘۔ اس پر بچہ پھر ایک زوردار اور نسبتاً طویل قہقہہ لگاتا ہے۔ پھر وزیر اعظم کہتے ہیں: ’’انشاء اللہ اگر ایسا موقع آیا تو مجھے اور شہباز شریف کو آپ اس شہر میں، پاکستان میں، بازاروں میں، گلیوں میں، دیہاتوں میں اپنے کندھوں کے ساتھ کندھا ملاتے ہوئے دیکھیں گے‘‘۔ بچہ پھر زور سے ہنستا ہے۔ آخری جملہ وزیر اعظم کا یہ ہے: ’’اگر خدمت کرنی ہے پاکستان کی تو پھر ایسے ہی کرنی ہے‘‘۔ یہ سن کر بچہ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو سنبھال نہیں پاتا اور بیٹھے بیٹھے گر جاتا ہے۔
اس بچے کی ان دنوں پاکستان کو شدید ضرورت ہے تاکہ وہ لوگوں کو بتا سکے کہ کون کون سی باتوں پر ہنسنا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ کیجیے۔
طالبان کے ترجمان شاہداللہ شاہد نے کہا ہے کہ کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کر کے ہم نے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا بدلہ لے لیا، ابھی ابتدا ہے، مزید حملے کریں گے۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ بارہ طیارے تباہ کیے گئے ہیں۔ اب مولانا سمیع الحق کی بات سنیے۔ انہوں نے اسلام آباد کی ایک مسجد میں ’’انتخابی‘‘ مرحلہ مکمل ہونے پر میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر کراچی کے واقعے میں طالبان کا کوئی بھی گروپ ملوث ہے تو اسے بے نقاب کیا جائے۔ یہ وہ موقع ہے جس پر بچہ پاکستان کے عوام کو بتائے گا کہ ہنسنا ہے اور زور سے ہنسنا ہے۔ پھر مولانا کہتے ہیں: ’’میرے نزدیک تحریک طالبان پاکستان اب بھی مذاکرات کا انتظار کر رہی ہے‘‘۔ بچہ ہنستا ہے اور پوچھتا ہے کہ اگر انتظار کے عالم میں یہ حال ہے کہ وہ ایئرپورٹ تباہ کرنا چاہتے تھے تو اُس وقت کیا ہو گا جب وہ انتظار کے عالم میں نہیں ہوں گے!
جناب طارق عظیم، جنرل پرویز مشرف کے عہد ہمایونی میں ان کے نفس ناطقہ تھے۔ ٹیلی ویژن پر آتے تھے تو اپنے بے رنگ‘ سپاٹ اور یکسانیت سے بھرے ہوئے لہجے میں جنرل صاحب کے ہر اقدام کی مدافعت کرتے تھے۔ ہر سانس کی توضیح کرتے تھے اور ہر ارشاد کی تفسیر کرتے تھے۔ اتار چڑھائو سے پاک یہ مشین تقریباً ہر چینل پر یہ فرائض اس وقت تک سرانجام دیتی رہی جب تک اقتدار کا ہُما جنرل صاحب کے سر پر بیٹھا رہا اور اس کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ کا اثر طارق عظیم صاحب پر پڑتا رہا۔
بچہ ہنس رہا ہے کہ پرویز مشرف صاحب تو موجودہ حکومت کے نشانے پر ہیں لیکن میڈیا میں ان کے سپہ سالار جناب طارق عظیم اب حکومت کے لشکر میں ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح اگلی صف میں آ جائیں۔ بچہ جناب طارق عظیم کے سپاٹ لہجے پر تو ہنس ہی رہا ہے، ان کے دلائل کی ’’مضبوطی‘‘ اور ’’گہرائی‘‘ پر بھی ہنستے ہنستے گر پڑتا ہے۔ بچے کو بھی معلوم ہے کہ وزیر داخلہ اور وزیر اعظم کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ وزیر داخلہ بجٹ تقریر میں نہیں تھے اور کابینہ کے اجلاس سے بھی غائب تھے۔ اب طارق عظیم صاحب کی وضاحت ملاحظہ کیجیے: ’’معاملات مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات وزیر اعظم اور وزراء کو بھی غیر حاضر ہونا پڑتا ہے‘‘۔ پھر کہتے ہیں: ’’چودھری نثار کسی اورکام میں مصروف ہوں گے اس سے کوئی دوسرا نتیجہ نکالنا مناسب نہیں ہو گا‘‘۔
بچہ ہنستے ہنستے دہرا ہو جاتا ہے اور بتاتا ہے کہ استدلال کی یہی قوت پرویز مشرف صاحب کو لے ڈوبی تھی!
بچہ ہی ہنسے گا اور رونے کا کام بھی بچہ ہی کرے گا، قوم سنگدل ہو چکی ہے۔ حکومت، وفاقی ہے یا صوبائی، بے حس ہے۔ سرکاری اہلکار، شہریوں کی موت پر فتح کے شادیانے بجا رہے ہیں کہ ہم نے کراچی ایئرپورٹ کو پروازوں کے لیے کھول دیا ہے؎
لگا ہے دربار، شمع بردار سنگ کے ہیں
ہوا کے حاکم ہیں، موم کے ہیں گواہ سارے
مرحوم مظلوموں کے پس ماندگان جن لوگوں پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں وہی جج بنے بیٹھے ہیں۔ کمیٹی بنا کر جس سفاک لہجے میں اس کے دائرہ کار کو بیان کیا جا رہا ہے، وہ ملاحظہ کیجیے: ’’یہ ایک تاثر (impression) ہے کہ نصف درجن سے زیادہ افراد ایک Facility میں پھنس گئے تھے۔۔۔۔‘‘
سات افراد مدد کے لیے پکارتے رہے، ان کے لواحقین احتجاج کرتے رہے، کسی کے کان پر جوں نہ رینگی۔ یہاں تک کہ احتجاج کرنے والوں نے ٹارگٹ پر مظاہرہ کیا لیکن سول ایوی ایشن کے حکام کے نزدیک معاملہ محض ’’تاثر‘‘ کا ہے!
اور اب وزیر داخلہ اور سندھ کی صوبائی حکومت کے درمیان جنگ برپا ہے۔ وزیر داخلہ کہہ رہے ہیں کہ کراچی ایئرپورٹ بھارت میں تو نہیں کہ سندھ حکومت ذمہ دار نہ ہو۔ شرجیل میمن جواب دیتے ہیں کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے کبھی طالبان کا نام لے کر ان کی مذمت نہیں کی اور یہ کہ طالبان کے ساتھ دوستیاں نبھائی جا رہی ہیں۔
یہ وہ غلاظت بھرے کپڑے ہیں جو سب کے سامنے دھوئے جا رہے ہیں۔ کرکٹ کے میچ کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنانے والی قوم اگر یہ سمجھنے سے عاری ہے کہ بھارت ہم پر کس طرح ہنس رہا ہو گا تو تعجب ہی کیا ہے۔ جہاں ڈوم اور میراثی ہیرو ہوں، جہاں نیم خواندہ کھلاڑی نوجوانوں کے آئیڈیل ہوں اور جہاں ان پڑھ فنکار اینکر پرسن بنے پھرتے ہوں وہاں عزت نفس کا یہی عالم ہوتا ہے۔ علمائے کرام کے پاس عام آدمی کے لیے وقت نہیں لیکن فنکاروں، اداکاروں اور کھلاڑیوں کے پیچھے پیچھے پھر رہے ہیں، ہائے پبلسٹی! ہائے خود نمائی! اور ہائے ناصر کاظمی ؎
سادگی سے تم نہ سمجھے ترک دنیا کا سبب
ورنہ وہ درویش پردے میں تھے دنیادار بھی
میچ ہارنے کے بعد کھلاڑی واپس آئیں تو ہوائی اڈوں پر چپکے سے اترتے ہیں اور چھپ کر گھروں میں پہنچتے ہیں اس لیے کہ ’’غیور‘‘ عوام ان کی بوٹیاں نوچنے کو تیار کھڑے ہوتے ہیں ۔ دوسری طرف ملک کا حساس ترین ایئرپورٹ دہشت گردوں کی شکارگاہ بنتا ہے، جہازوں کوگولیاں لگتی ہیں، بے گناہ معصوم ورکر مارے جاتے ہیں، طرفہ تماشا یہ کہ دوسرے تیسرے دن دہشت گرد دوبارہ آ کر حملہ کرتے ہیں لیکن جو ادارے، جو اہلکار ایئرپورٹ کی حفاظت نہ کر سکنے کے ذمہ دار ہیں، وہ کھلے عام پھر رہے ہیں، بیانات دے رہے ہیں اور تحقیقاتی کمیٹیاں بناتے پھرتے ہیں۔ انہیں عوام سے کوئی خطرہ نہیں! انہوں نے کرکٹ میچ تھوڑی ہارا ہے کہ عوام کا ڈر ہو۔ ایئرپورٹ ہی تو دہشت گردوں کا تر نوالہ بنا ہے، کئی دن پروازیں ہی تو معطل رہی ہیں، سات پاکستانی ہی تو کولڈ سٹوریج میں ہلاک ہوئے ہیں، بھارت ہی تو ہماری سکیورٹی ’’قابلیت‘‘ پر ہنس رہا ہے، یہ تو ایسے جرائم نہیں کہ ذمہ دار افراد چھپتے پھریں!
بچے سے بات شروع ہوئی تھی۔ اس ملک کو بچانا ہے تو حکومت بچوں کے سپرد کر دو۔ خدا کی قسم! تاجروں کے اس گروہ سے بہتر ملک چلائیں گے۔ میرٹ پر فیصلے کریں گے۔ لندن، جدہ اور پیرس سے قومی دولت واپس لائیں گے، ایئرپورٹوں کی حفاظت کریں گے اور اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ وزیر خزانہ وہ ہو جس نے بازار سے آٹا دال گزشتہ دس سال میں کم از کم ایک بار خود خریدا ہو؎
ملے اک بار بچوں یا پرندوں کو حکومت
کوئی ایسا طریقہ شہر ہوں خوشحال سارے
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“