بچوں پہ تشدد
بچہ گھر سے باہر والدین کا نمائندہ ہوتا ہے اس کی گفتگو، نشست و برخاست، لباس یعنی ہر شے سے لوگ والدین کی تربیت کا اندازہ لگاتے ہیں۔ بڑوں کی ہر بات خاموشی سے ماننے والا، گفتگو کے دوران ادب کو ملحوظ رکھنے والا، بڑوں کی گفتگو میں دخل نہ دینے والا، کسی بھی معاملے میں بڑوں سے بحث نہ کرنے والا، والدین سے بہت فرمائشیں نہ کرنے والا بچہ فرمانبردار سمجھا جاتا ہے۔ والدین اپنی اولاد میں فرمانبرداری کے اعلٰی معیار کو برقرار رکھنے کے لیے تربیت کے کچھ اصول بروئے کار لاتے ہیں تاکہ کل کوئی ان کی تربیت پر انگلی نہ اُٹھا سکے۔ ان میں سب سے اہم اصول سمجھا جاتا ہے کہ ’’کھلاؤ سونے کا نوالہ دیکھو شیر کی نظر سے‘‘۔
اور یہیں سے بچے پر ایک نہ ختم ہونے والے تشدد کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے بچوں کی جذباتی اور نفسیاتی ضروریات کو یکسر نظر انداز کر کے انہیں ہر وقت کڑے امتحان کی کیفیت میں رکھا جاتا ہے جہاں غلطی کی گنجائش بالکل نہیں ہوتی۔ ہماری ایک عمومی غلط فہمی یہ ہے کہ سختی کے بغیر بچوں کو سدھارا نہیں جا سکتا اور ان کے ساتھ جڑی چند اور غلط فہمیاں بھی ہوتی ہیں جیسے یہ سمجھنا کہ آج کل کے بچے پیار کی زبان نہیں سمجھتے۔ وہ فطرتاً لاپرواہ اور لالچی ہوتے ہیں۔ پڑھائی سے بھاگتے ہیں اور کھیل یا کارٹونز میں وقت ضائع کرنے کے شوقین ہوتے ہیں یعنی عموماً والدین اور اساتذہ نرمی سے سمجھانے کو بالکل غیر ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں یہ طریقہ بالکل بے اثر ہے بلکہ کچھ تو یہ سمجھتے ہیں کہ نرمی سے سمجھانا گویا بچہ کو شہ دینا ہے۔
جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے یونیورسٹی آف ہسٹبرگ کے شعبہ نفسیات کی حالیہ تحقیق کے مطابق سخت رویہ رکھنے والے والدین کے بچے تعلیمی کاکردگی میں اپنے ہم جماعتوں سے کافی پیچھے ہوتے ہیں وہ اپنی اصل ذہنی صلاحتیں بالکل استعمال نہیں کر پاتے کیونکہ سزا کا خوف انہیں کچھ بھی نیا کرنے سے روکتا ہے۔
کچھ والدین کا کہنا ہوتا ہے کہ ہم اپنے بچوں پی تشدد بالکل نہیں کرتے مگر تھوڑی بہت سختی کرنا ضروری ہے۔ جبکہ مار پیٹ بالکل غلط ہے یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ صرف جسمانی مار پیٹ تشدد ہوتی ہے۔ کسی بھی بچے کو ہر وقت طنز کا نشانہ بنانا، اس کی کسی ذہنی یا جسمانی کمی پر بار بار اعتراض کرنا، اسے دوسرے بچوں کا حوالہ دینا یا پھر یہ کہ غلطی کے ڈر سے انہیں کچھ نہ کرنے دینا اور ان کی جگہ پر ہر کام خود کر دینا یہ سب نہایت نا مناسب رویے ہیں اور نفسیاتی اور جذباتی تشدد ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا اولاد یا طالب علم کو بے سہار چھوڑ دینا چاہیے؟ کیا ذرا سا بھی سختی کیے بنا تربیت ممکن ہے۔ یقیناً سختی کیے بنا بچوں کی تربیت ممکن ہے اور بچوں کی جسمانی اور جذباتی صحت کے لیے یہی طریقہ موزوں ہے مگر اس کے لیے آپ کو کچھ بنیادی باتیں ذہن نشین کرنی ہوں گی۔
اول یہ کہ آپ کی اولاد ایک مکمل آزاد جیتا جاگتا انسان ہے اور اس کے بہت سے حقوق ہیں جو ادا کرنا والدین پر قانونی فرض ہے۔ بچے کو مناسب غذا دینا، تحفظ اور پیار دینا، تعلیم دینا، صحت کا خیال رکھنا، رائے کے اظہار کا موقع دینا اور کسی بھی قسم کے تشدد سے بچانا یہ سب ان کے حقوق میں شامل ہیں۔
دوم یہ کہ ابتدا ہی سے اولاد کی صلاحتوں اور کمزوریوں پر نظر رکھیں۔ صلاحیتوں کو اُجاگر کریں اور کمزوریوں سے نمٹنے کے لیے ان کے معاون بنیں۔ کبھی بھی انہیں ان کی کسی کمی یا کمزوری کا طعنہ نہ دیں۔ آپ کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ ہر بچہ ہر فن مولا نہیں ہو سکتا تو جن کاموں کو وہ باخوبی نہیں کر پاتے اسے کرنے کے لیے سختی نہ کریں بلکہ جو صلاحیت ان میں قدرتی طور پر موجود ہے اسے استعمال کرنے میں ان کی حوصلہ افزائی کریں۔
اس کے بعد تیسرا مرحلہ آتا ہے۔ روزمرہ کے طور طریقے سیکھنے کا مثلاً بول چال، کھانا پینا، باتھ روم، تریننگ وغیرہ۔ اس کے لیے آپ کو سمجھنا چاہیے کہ یہ انسانی نفسیات میں شامل ہے کہ اسے جو کام کر کے اچھا محسوس ہو وہ کام بار بار کرتا ہے اور جس کام کے بعد یا دوران اسے ناگوار احساس ہو وہ کام یا تو کرتا نہیں ہے یا بے دلی سے کرتا ہے۔ ڈانٹ اور مار یا والدین کا نظر انداز کرنا ناگوار احساس ہیں۔ لٰہذا اگر آپ کسی کام کو کروانے کے لیے مار پیٹ یا ڈانٹ کا سہارا لے رہے ہیں تو بچہ وہ کام دوبارہ خوش ہو کر نہیں کرے گا مگر اس کی جگہ جب اچھا کام کرنے پہ شاباشی ملے گی تو وہ کام بار بار کرے گا۔
والدین کو یہ طریقہ کار بے اثر لگتا ہے کیونکہ ڈانٹ اور مار کا اثر فوراً نظر آتا ہے جبکہ شاباشی دینے یا غلطی کو سدھارنے کا موقع دینے کا اثر بہت عرصے بعد نظر آتا ہے۔ جس سے لوگ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ طریقے بے اثر ہیں۔ جبکہ حقیقتاً نہ صرف یہ مؤثر اور دیرپا ہیں بلکہ بچوں کے مثبت کردار کی تعمیر کا ذریعہ بھی ہیں۔
اچھے کام کی صورت میں شاباشی دینا اور غلطی کی صورت میں سزا دینا عمومی چلن ہے۔ مگر آپ کو معلوم ہے کہ اس کے بھی الگ الگ طریقے ہو سکتے ہیں۔ ان دونوں کے دو دو طریقے ہوتے ہیں مثبت اور منفی یہاں مثبت اور منفی ک الفاظ حساب کی طرح رویے میں جمع یا گھٹا کرنے کے حوالے سے استعمال ہوتے ہیں۔
مثبت اور منفی دونوں قسم کی شاباشیاں کارگر ہیں اگر بر محل استعمال کی جائیں۔ مثبت شاباشی وہ کہلاتی ہے جب بچے کے کسی اچھے کام پر اسے پیار کیا جائے تعریقی جملہ بولا جائے یا کوئی تحفہ دیا جائے جبکہ منفی شاباشی وہ ہو گی کہ شاباشی کے طور پر کوئی مشکل یا ناگوار ذمہ داری اس پر سے ہٹا لی جائے مثلاً اگر بچے نے اپنے کمرے کو اچھی طرح صاف کیا ہے تو شاباشی کے طور پر پانی کی بوتلیں نا بھروائی جائیں دونوں قسم کی شاباشی میں احساس خوشگوار ہوتا ہے۔
اس کے بعد آتا ہے مثبت اور منفی سزا۔ شاباشی ہی کی طرح دونوں طریقوں کی سزا میں احساس ناگوار ہوتا ہے۔ مگر سوچ سمجھ کر استعمال کی جائے تو یہ بچوں کو سیکھانے کا طریقہ ہوتی ہے اور نفسیاتی نقصان نہیں کرتیں۔ مثبت سزا کا مطلب کوئی مشکل کام ذمہ لگانا۔ مار پیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ بھی اسی ذمرے میں ہی آتی ہیں۔ مگر یہ دونوں نفسیاتی اعتبار سے نقصان دہ سزائیں ہیں منفر سزا کا مطلب کسی پر لطیف کام سے عارضی طور پر روک دینا ہے۔
اس بات کا خیال رہے کہ سزا صرف آپ کے غصے کا اظہار نہ ہو بلکہ بچے کو غلطی سدھارنے کا موقع بھی ملے۔ مثلاً اگر آپ اپنے دو یا ڈھائی سال کے بچے کو باتھ روم کی ٹریننگ کروا رہے ہیں اور بچہ سیکھنے میں وقت لے رہا ہے تو جب بچہ صیحح وقت پر رفع حاجت کا بتائے اس کی تعریف کریں یا پیار کریں یا پسندیدہ ٹافی دیں یہ مثبت شاباشی ہو گی۔ جبکہ اگر بتانا بھول جائے تو نرمی سے کہیں کہ ٹافی نہیں ملے گی اگلی بار جب بتائیں گے تو ملے گی یہ منفی سزا ہو گی۔
ایک بات ضرور یاد رکھیں بچوں پر سختی سے وہ والدین کے من چاہے اصول سیکھ تو لیتے ہیں مگر جذباتی طور پر والدین سے دور ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ان کے سوشل فوبیا (یعنی لوگوں سے بات چیت میں خوف) میں مبتلا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ زیادہ سختی برداشت کرنے والے بچے مثبت تعلقات بنانے میں ناکام رہتے ہیں اور رشتے نبھانے کے لیے مار پیٹ اور سختی کا سہارا لیتے ہیں کبھی کسی پہ اعتبار نہیں کرتے نتیجتاً پورے معاشرے میں تشدد کی فضا قائم ہو جاتی ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔