جب میں نے پیڈوفیلیا پر تھریڈ لکھا تو ارادہ تھا کہ اگلی قسط اس کے علاج کے بارے لکھوں گا مگر ہما سیف نے مشورہ دیا کہ میں اس کی روک تھام پر پہلے لکھوں۔ اس تھریڈ کو پورا پڑھیے اور اپنی رائے ضرور دیجئے گا۔
بچوں پر جنسی تشدد بہت وسیع موضوع ہے۔ اس کی بنیاد سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ہم نے پہلے تھریڈ میں پیڈوفیلیا کے بارے بنیادی معلومات دی تھی۔ اس سے ملتی دوسری ٹرم Child Molestation کی ہے۔ ان دونو میں فرق کیا ہے۔ اس پر الگ سے لکھوں گا مگر آج اس سوال کو دیکھتے ہیں کہ ہم کیسے اپنے بچوں کو محفوظ کر سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں دنیا بھر کی گئی سائنسی تحقیقات، حکومتوں کی کوششوں، بہترین طریقوں اور بچوں کے حقوق کی عالمی تنظیموں اور یونیسف وغیرہ کا لٹریچر پڑھا ہے. اسے اس تھریڈ میں پیش کروں گا. پہلی بات بچوں کو جنسی تشدد سے بچانا فرد واحد کا کام نہی یہ ایک قومی جنگ ہے سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
چلئیے دیکھتے ہیں دنیا میں اس سلسلے میں کیا کوششیں اور تحقیقات ہو رہی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے مربوط معلومات آپ کو یونیسیف سے ملیں گی۔ یونیسف کی ایک رپوٹ اس سلسلے میں بہت مددگار ہے اس میں دنیا بھر میں بچوں پر جنسی تشدد کا جائزہ اور روک تھام پر کئیے گے اقدام پر بات کی گئ ہے
۔۔اس رپوٹ کے مطابق اس پر قومی سطح کے رسپانس کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں درج ذیل شعبوں پر کام کی ضرورت ہے۔
✔️legislative Reforms
✔️Strategy Development
✔️Mappings needs and gaps
✔️capacity building
✔️Developing service structure
✔️Mobilising change in attitudes and behaviour
اوپر جو اقدامات تجویز کئیے گۓ ہیں ان کے مطابق پہلے آپ نے مناسب قانون سازی کرنی ہے اور پھر آپ نے یہ جائزہ لینا ہے کہ کیا سہولیات میسر ہیں۔ پھر مناسب تعلیم و تربیت اور ٹرینگ کا انتظام اور رویے اور کردار تبدیل کرنے کی مہم شروع کرنا ہے۔ یاد رکھیے ماہرین کہتے کہ بچوں پر جنسی تشدد کے خاتمے کے کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات اور مہم کی ضرورت جیسے ہاتھ دھونے وغیرہ اور جراثیم سے بچاو پر ہم نے نیشنل لیول کمپین بنائی تھیں سب سے پہلے Child protection پر ایک نیشنل لیول کمشن بنانے کی ضرورت ہے جہاں ہنگامی بنیادوں پر پلانگ ہو سکے۔
جب ہم بہترین طریقوں کی بات کرتے ہیں تو ا=مریکہ کی پینسلوانیا ریاست میں ریپ کرائسس سینٹر 40 سالوں سے اس سلسلہ میں کام اور تحقیق کر رہا ہے اس کی تحقیات نے بچوں کے جنسی تشدد سے بچاو کے بہترین اقدامات کو بیان کیا ہے پہلی چیز جو وہ کہتے اسے Adult responsibility کہتے ہیں۔
بچوں پر جنسی تشدد کے خلاف دو نقطہ نظر اس وقت عام ہیں ایک Good Touch and Bad Touch ہے دوسری No,Go,Tell ہے۔ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس میں بچوں پر ذمہ داری ڈالی جاتی کہ وہ روکیں جبکہ یہ بنیادی طور پر بڑوں کی ذمہ داری ہے۔ بچوں کو ضرور دیں مگر صرف یہ کرنا کافی نہیں ہے۔ بچوں پر جنسی تشدد میں ملوث لوگوں کے بارے میں تحقیات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ لوگ Social and emotional competence نہیں رکھتے۔ انہیں اپنے جزبات و احساسات پر کنٹرول نہی ہوتا۔ وہ دوسروں کے جزبات درد وغیرہ نہیں سمجھ سکتے اکثر بچے بھی بچوں پر جنسی تشدد میں ملوث ہوتے ہیں تو اس ایلیمنٹ کو کسی بھی بچوں کے بچاو پروگرام کا حصہ بنانا لازم ہے۔
تحقیقات نے یہ بھی ثابت کیا کہ بچوں کے تحفظ کا کوئی بھی پروگرام بہت وسیع ہونا چاہیے۔ اس میں پوری سماجی ماحول کا شامل ہونا ضروری ہے۔ کمیونٹی والدین اساتذہ سرکاری ادارے سب مل کر اسے بہتر طور روک سکتے ہیں۔
ایک بات جو بہت اہم وہ یہ کہ زور زیادہ روک تھام پر ہونا چاہیے ہمارے ہاں بس سخت سزاؤں پھانسی اور لٹکانے کی بات ہوتی ہے مگر دنیا بھر میں زور اس بات پر ہے کہ بچے جنسی تشدد کا شکار ہی نہ ہوں کیونکہ یہ ایک بہت بھیانک تجزبہ ہے ۔اسے پہلے روکنا لازمی ہے۔
اس کے علاوہ والدین اساتذہ بچوں کی کپیسٹی بلڈنگ کی بہت ضرورت ہے بچوں پر جنسی تشدد ہوتا کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہوتے ہیں۔ اگر آپ کا بچہ اس کا شکار ہو تو کیا انتباہی نشانیاں ہوں گے یہ سب سیکھنا لازم ہے۔ اگر بچہ شکار ہو گیا تو کیا کرنا ہے یہ بھی سیکھنا ہے۔
امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں Sex Offender Registry ایک اہم قدم ہے۔ جنسی جرائم میں سزا یافتہ افراد پر نظر رکھنے کے لیے ہر ایسے شخص کا نام اس رجسٹری میں درج ہو جاتا ہے جس نے بچوں سے کوئی جنسی عمل کیا ہو اور آپ اپنے علاقے میں موجود پیڈوفائل کو دیکھ سکتے اس وقت امریکہ کی اس رجسٹری میں پچاس ہزار کے قریب نام شامل ہیں۔ البتہ ماہرین کا کہنا ہے اصل تعداد کے 88 فیصد کبھی بھی پکڑے ہی نہیں جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسی رجسٹری قائم کی جا سکتی ہے آپ کو یاد ہو گا ایک بچوں سے جنسی تشدد کرنے والا لندن سے سزا یافتہ فرد کے پی حکومت کا ایڈوائزر بن گیا تھا۔ اسی طرح امریکہ میں Centre for sex offender managementبھی بنا ہوا ہے یہ سینٹر sex offenders پر نظر رکھتا ہے۔ ان کے علاج اور ایسے تمام اقدامات کو یقینی بناتا ہے جو بچوں کو ایسے افراد سے محفوظ کر سکے۔
ہمارے ہاں ہر واقعے کے بعد شور اٹھتا ہے اور لوگ روتے پیٹتے ہیں اور پھر سو جاتے ہیں۔ ہمیں مسلسل کوشش کرنا ہو گی اور یہ جو نعرہ لگتا ہے پھانسی لگاؤ یقین مانیں اس سے کوئی فرق نہی پڑے گا۔ ہمارے معاشرے میں بیس پچیس فیصد تو پیڈوفیلک یا مولیسٹر ہوں گے اب اگر نمبروں میں دیکھیں تو شاید لاکھوں میں تعداد بنتی ہے۔
کیا ہم ان سب کو پھانسی لگا سکتے ہیں؟ بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم بچوں کو مخفوظ بنائیں اور اس کے لیے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہے۔ یہ تھریڈ بھی ایسی ہی ایک کوشش ہے۔ آپ بھی حصہ ڈالیے اسے قومی مہم بنائیے اور اسے زیادہ سے زیادہ شئیر کیجئے اور ڈسکس کیجئے کہ ہم مل کر کیا کر سکتے ہیں۔
پڑھنے کا شکریہ ہمیں مل کر یہ جہاد کرنا ہے۔