گذشتہ ہفتے شہرت پانے والی ٹین ایجر نمرہ علی ہفتے کے اندر اندر ایک سٹار سے ایک متنازعہ شخصیت بن گئیں۔ ان کا سارا ’سحر‘ہفتے کے اندر اندر تجارتی میڈیا کے ہاتھوں اس وقت ہلاک ہو گیا جب جی این این پر انہوں نے ہندوؤں کے خلاف انتہائی افسوسناک کلمات ادا کئے۔ اس پر انہوں نے معافی بھی مانگی مگر اس سارے عمل کے نتیجے میں وہ معصومیت و بھولپن کی علامت سے نفرت کی علامت بن کر اپنا سارا بھرم، سارا ’سحر‘ (Chrisma) کھو بیٹھیں۔
ان کایہ عروج و زوال نہ صرف سوشل میڈیا کی جمالیات کا بہترین نمونہ ہے بلکہ مین سٹریم تجارتی میڈیا کے ہلکے پن کا بھی ایک بد ترین (یا شاندار) اظہار ہے۔
چند دن قبل نمرہ علی کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ معصومانہ (بلکہ بے وقوفانہ) انداز میں اپنی خوشی کا اظہار کرتی ہیں۔ راتوں رات یہ ویڈیو وائرل ہو جاتی ہے۔ بغیر کچھ کئے، بغیر کسی ہنر اور جدوجہد کے، محض اس لئے کہ ان کے پاس کوئی ہنر، کوئی کامیابی، کوئی امتیاز نہیں…وہ مشہور ہو جاتی ہیں۔ ان کی اس شہرت کی واحد جمالیاتی وجہ ان کا عامیانہ پن ہے۔
یہ درست ہے کہ ان کا بے ساختہ پن، کسی بھی قسم کی منافقت سے پاک تھا۔ ان کا انداز قدرتی تھا، معصومانہ تھا…لیکن یہ سب ان کی اس شخصیت کا حصہ ہیں جو کسی بھی وجہ سے تشکیل پائی ہے۔ وہ صرف اس لئے مشہور ہو گئیں کہ وہ ایسی ہیں جیسی کہ وہ ہیں۔
گویا فیس بک کے جمالیاتی تقاضے یہ ہیں کہ سٹار بننے کے لئے سرمایہ دارانہ رواج کے مطابق بھی جو پیمانے تھے، ان کی ضرورت نہیں رہی۔اس پہ کسی کا بھولپن، کوئی انتہائی غیر شائستہ بات، کوئی انتہائی قبیحہ فوٹیج، کوئی انتہائی شرمناک حرکت بھی وائرل ہو سکتی ہے۔
نمرہ علی کا کیس مندرجہ بالا تھیوری کا ایک اور ثبوت ہے۔ دوسری طرف، نمرہ کا کیس پاکستان کے مین سٹریم تجارتی میڈیا کے دیوالیہ پن کا بھی کئی طرح سے اظہار ہے۔
اول: درجنوں انٹرٹینمنٹ چینلز کے ہوتے ہوئے حالت یہ ہے کہ لوگ یا تو ترکی کے ڈراموں سے انٹرٹین (محظوظ) ہو رہے ہیں یا سوشل میڈیا پر ہونے والی حماقتوں، بچپنے کی حرکتوں یا وحشتوں سے۔ بہ الفاظِ دیگر نمرہ علی (یا حریم شاہ) جیسے سوشل میڈیا سٹار تجارتی میڈیا کی ثقافتی، تخلیقی اور تہذیبی ناکامی کی علامت ہیں۔
دوم: ملک میں ثقافتی پیمانے اور ذوق اس قدر گر چکا ہے کہ لذت اور حظ کے پیمانے سوشل میڈیا پر ہونے والی حماقتیں بن چکی ہیں۔ لوگوں کا مذاق اس حد تک گر چکا کہ انہیں ایسی انٹرٹینمنٹ چاہئے جس پر دماغ نہ کھپانا پڑے یا جسے سمجھنے، لطف اٹھانے اور حظ اٹھانے کے لئے کسی تہذیبی تربیت کی ضرورت نہ ہو۔ شاعری کی مثال لیجئے۔ غالب، اقبال اور فیض کی شاعری کا لطف اٹھانا تب تک ممکن نہیں جب تک نہ صرف آپ اردو زبان سے اچھی طرح واقف ہوں بلکہ اردو ادب کے علاوہ عالمی ادب، تاریخ اور سیاست سے بھی شد بد موجود ہو۔ یہ شد بد نہ صرف تربیت کا تقاضا کرتی ہے بلکہ خود تربیتی کابھی تقاضا کرتی ہے۔ یہ ریاض کا کام ہے۔
سوشل میڈیا اور تجارتی میڈیا کے اس نیو لبرل ثقافتی عہد میں یہ وقت کسی کے پاس نہیں بچا۔ اس لئے آئے روز سوشل میڈیا سٹارز ابھرتے ہیں اور غروب ہو جاتے ہیں۔ ویڈیوز وائرل ہوتی ہیں اور بھلا دی جاتی ہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ اس سارے عمل کے نتیجے میں تہذیبی طور پرہم پہلے سے زیادہ غریب ہو جاتے ہیں۔
مقصد یہ بتانا نہیں کہ سوشل میڈیا کا ستعمال ترک کر دیا جائے۔ مدعا فقط اتنا ہے کہ سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا کی سرمایہ دارانہ منطق نے ہر چیز کو ’جنس‘ بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ دونوں میڈیا، سرمایہ داری کے تحت ہماری تہذیب، ذوق اور خوشی پر حملہ ہیں۔ یہ آرٹ اور فن پر حملہ ہیں۔ یہ حکمران طبقے کی داشتہ ہیں۔ ہمیں اس بہاو کے ساتھ بہنے کی بجائے انہیں اپنے مقاصد کے لئے سدھانا ہے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے