بچوں پر میری تحریروں میں ہم نے دیکھا ہے کہ سکول جانے کی مناسب عمر سات سال ہے۔ آج اسی سلسلے میں یہ دیکھتے ہیں کہ پیدائش سے لے کر ابتدائی سات سال کا بچہ کن cognitive stages (اردو ترجمہ ) شعور یا آگہی کے درجوں سے گزرتا ہے۔
اس سلسلے میں بہت سے ماہرین نفسیات نے کام کیا ہے مگر سب سے بڑا اور معتبر نام جین پیجٹ ہے وہ ایک بے حد ذہین سوئس سائنسدان تھا۔ آپ یہاں سے اندازہ لگائیے کہ اس کی پہلی سائنسی اشاعت گیارہ سال کی عمر میں چھپی اس نے بعد میں بائنٹ اور سائمن کے ساتھ بطور اسسٹنٹ کام کیا۔
بائنٹ اور سائمن دو فرانسیسی ماہرین تھے جنہوں نے آئی کیوٹیسٹ بنایا اور اس کا تصور دیا جو آج تک دنیا بھر میں استعمال ہورہا ہے۔ اس ٹیسٹ کے بنانے میں بھی پیجٹ نے کام کیا ۔اس نے اپنی بیٹی اور بھتیجوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد شہرہ آفاق تھیوری دی جو آج بھی دنیا بھر میں تعلیمی نظام کی بنیاد ہے۔
آج ہم اسی کی تھیوری کو دیکھیں گے اوپر جو فلم ہے اس کی تھیوری بہت دلچسپ ہے ایک بات سمجھ لیجئے اس تھیوری سے پہلے اور شاید بہت سے وہ لوگ جو اس تھیوری کو نہی جانتے وہ یہ سمجھتے تھے کہ بچے بالغ کے چھوٹے ورژن یعنی بچوں کو بڑوں کا چھوٹا ورژن یا نا سمجھ سمجھا جاتا تھا.
مگر اس نے ثابت کیا کہ بچے بڑوں سے مختلف طریقے سے سوچتے ہیں۔ اس نے یہ نظریہ دیا کہ ذہانت مختلف مدارج یا مراحل سے گزرتی ہے۔ ایک بڑا بچہ ایک چھوٹے بچے سے مختلف نہیں سوچتا لیکن ان کے سوچنے کا انداز اور جہت بہت مختلف ہوتی ہے۔
بہت دلچسپ بات جو اس نے لکھی وہ یہ تھی کہ بچے ایک چھوٹے سائنسدان کی طرح ہوتے جو مختلف مفروضے بناتے ہیں اور تجربات کرتے ہیں اور اس سے سیکھتے ہیں۔ آئن سٹائن اس کے کام سے اتنا متاثر ہوا کہ کہا ایسا ایک جئنئس ہی سوچ سکتا ہے۔ اب آپ سمجھ لیجئے کہ ماہرین کیوں بچوں کو سکول جلدی نہ بھیجنے کا کہتے ہیں۔
آئیے اب دیکھتے ہیں کہ پیجٹ کی تھیوری تھی کیا۔
پیجٹ نے اس کو چار مرحلوں میں تقسیم کیا۔ تاہم ہم صرف دو مرحلوںُ پر آج بات کریں گے
سینسری موٹر اسٹیج (پیدائش سے 2 سال تک)
پری آپریشنل اسٹیج ( 2 سال سے 7 سال تک)
ان دونو مرحلوں میں بچے مختلف طریقے سے سیکھتے اور ان کی شعوری آگہی ہوتی ہے۔
سینسری موٹر اسٹیج
پیدائش سے دو سال کی عمر تک کہ جو سٹیج ہوتی ہے اس میں ابتدائی چار مہینے بچہ صرف حواس خمسہ سے سیکھتا ہے چار مہینے کے بعد بچے کو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے جسم سے الگ بھی چیزیں ہو سکتی ہیں۔ وہ سیکھتا ہے کہ چیزیں اس وقت بھی وجود رکھتی ہیں جب نظر سے اوجھل ہوں۔ انہیں اندازہ ہوتا کہ ان کے ایکشن ان کے اردگرد چیزوں کو بدل بھی سکتے ہیں۔ ان تجربات کو اس فلم میں بہت عمدہ طریقے سے بیان کیا گیاہے۔
اسے دیکھئے یہ عمر بہت اہم ہوتی ہے۔ جسمانی اور ذہنی نشرونما کے لیے وہ بنیادی جسمانی حرکات اور ابتدائی زبان سیکھتے ہیں۔ اس کو مختلف مراحل میں تقسیم کیا گیا میں سب کی تفصیلات نہیں لکھ سکتا مگر کہ چیزوں کا مستقل وجود ہے آپ نے دیکھا ہو گا بچے چھپنا اور ظاہر ہونا بہت پسند کرتے ہیں۔ جسے ہمارے ہاں (چاۂ)کہا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ ابتدائی علمی اسکیما بھی بنتے ہیں۔ قدرت نے انسانی ذہن کا نظام بہت پیچیدہ بنایا ہے۔ آج کی اکثر کمپیوٹر ڈویلپمینٹ اسی نظام کی نقل ہیں۔ جن اسکیما کی میں بات کر رہا ہوں ان سے مراد ہے کہ ہمارا دماغ معلومات کن مختلف طریقوں سے محفوظ کرتا ہے۔ جیسے کمپیوٹر میں معلومات ہوتی ہیں۔ بعد میں وہ معلومات چیزوں کو سمجھنے میں ریفرنس بنتی ہیں اسی لیے بچہ اسی رومال کے نیچے ڈھونڈ رہاہوتا ہے جہاں آسے پہلے ملا تھا۔
پری آپریشنل اسٹیج
یہ دوسرا مرحلہ ہے۔ اسے ہم پری سکول ایج کہتے اور اس میں بچہ بہت کچھ سیکھتا ہے۔ یہ فلم دیکھئے اس فلم میں ماہرین اس عمر سے متعلق تین اہم پوائنٹس پر بات کر رہے جو بنیاد ہیں ان کو لازمی سمجھ لیجئے۔
بچہ اس عمر میں علامتی سوچ اور الفاظ اور تصاویر کا استعمال سیکھتا ہے۔ بچے اس عمر میں بہت ایگو سینٹرک ہوتے ہیں۔ وہ دوسروں کے نقطہ نظر سے دنیا نہیں دیکھ سکتے۔ وہ سوچ اور زبان میں بہتر ہو رہے ہوتے ہیں مگر ابھی بھی وہ کنسرٹ ٹرم میں سوچتے ہیں۔
جیسا کہ اس فلم میں بہت خوبصورتی سے یہ دکھایا گیا کہ بچے کیسے ایگو سینٹرک ہوتے ہیں وہ دوسروں کی نظر سے دنیا کو نہیں دیکھ سکتے مگر اکثر والدین غلطی کرتے ہیں اور بچوں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ان کی نظر سے دیکھیں۔ حالانکہ بچے ابھی اس قابل ہی نہیں ہوتے۔ تعلیمی سلسلہ بھی اسی لیے منع کیا جاتا ہے۔
بچے ابھی منطق اور ثابت قدمی کا خیال سیکھ رہے ہوتے ہیں مثال کے طور پر آپ ان کو مٹی کے دو ایک جیسے گولے کھیلنے کو دیں پھر ایک کو لمبائی کے رخ لمبا کر دیں بچے کہیں گے جو لمبا حصہ وہ زیادہ ہے کیونکہ بچے ابھی معلومات کو ذہنی طور پر ہیرا پھیری سے سمجھ نہیں سکتے۔ اس عمر میں میں بچے
کردار ادا کرنے والےکھیل جیسے ڈاکٹر بننا، ممی بابا بننا جیسے کھیل بہت پسند کرتے ہیں کیونکہ اس سے وہ اردگرد کی دنیا کے کرداروں کو کوئی مطلب دیتے ہیں۔ اسی طرح علامتی کھیل جیسے جھوٹ موٹ کی گاڑی چلانا وغیرہ کھیلتے ہیں۔ اسے نفسیات میں ذہنی نمائندگی کہتے ہیں اور یہ ذہانت اور زبان کی مہارت کا ایک اہم جزو ہے
میں اگلے کالم میں والدین کے لیے مشورے بھی لکھوں گا مگر اس کالم سے یہ واضح ہوتا کہ بچے سکول جانے کے قابل نہیں ہوتے ہیں۔ ایک خاص عمر سے پہلے اگر ہم بھیجیں گے تو چانس ہوتا ہے کہ بچے اس سے نقصان اٹھائیں گے۔ ان میں سے کسی اسٹیج پر اگر رکاوٹ ہو تو فیکسیشن ہو جاتی جس سے مسائل بنتے ہیں۔
بچوں کے لیے ابتدائی طور پر ایسے ادارے ہوں جو ان نشونماتی ضروریات کو پورا کریں یا ان کے قریب ہوں ڈینش سسٹم میں چھ ماہ سے دو سال کے لیے جو ادارہ ہوتا ہے اسے وگیستو کہتے اور دو سال سے چھ سال کی عمر تک Børnehave جس کا ترجمہ بچوں کا باغ ہوتا ہے اور ان میں بچوں کی انہیں نشرونما کی صلاحیتوں پر فوکس کیا جاتا میرے پہلے کالم کے بعد جیسا کہ پاکستان میں رواج ہے کچھ احباب نے کالم لکھنا شروع کر دیے کہ کنڈر گارڈن ہوتا کیا ہے وغیرہ حالانکہ میرا نقطہ نظر اور تھا وہ یہ تھا کہ کوئی بھی ایسا ادارہ جو بچوں کی نشونماتی ضروریات کے خلاف ہے وہ درست نہیں ہے۔ اس سے بچوں کو نقصان ہوتا ہے۔
اور میرا یہ اعتراض کسی سائنسی عقلیت پر بنیاد رکھتا ہے مگر یہاں بس مخالفت لازمی ہے۔ بھلے آپ بنیاد ہی نہ سمجھتے ہوں۔