ماں کی گود انسان کی اولین درسگاہ ہوتی ہے اور یہاں سے تربیت پانے والے دنیا میں اپنے گفتار و کردار کی بدولت آفاق کی بلندیوں کو چھوتے ہیں،بوعلی قلندرؒ، شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، حضرت امام بخاریؒ اور جانے کتنے علماء و فضلاء ماں کی گود سے جو گفتار ،کردار اور اعلیٰ اخلاق کی تربیت لے کر نکلے اور پھر درسگاہوں میں عالی نسب اور اعلیٰ وصف اساتذہ سے تربیت پاکر رہتی دنیا تک امر ہوگئے۔ایک چھوٹا بچہ قافلے کے ہمراہ سفر پر ،ڈاکوؤں کا گروہ حملہ کرتا ہے ،استفسار پر بچہ بتاتا ہے کہ میرے پاس چالیس سونے کی اشرفیاں ہیں جو کرتے کے اندر سلی ہوئی ہیں، ڈاکوؤں کا سردار اشرفیوں کا راز بتانے کی وجہ پوچھتا ہے ،بچے کا جواب ــ"میری ماں کی نصیحت تھی کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے ہمیشہ سچ بولنا" ۔یہی بچہ بڑا ہو کر شیخ عبدالقادر جیلانیؒ بنتا ہے۔ یہ تربیت پھر یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ہوتی تھی، بچے بھی اپنے والدین کی حکم عدولی نہیں کرتے تھے،ان کی پکار پر لبیک کہتے تھے، حضرت بایزید بسطامیؒ فرماتے ہیں کہ ایک رات والدہ ماجدہ نے فرمایا کہ دروازے کاایک پٹ کھول دو لیکن میں رات بھر اسی پریشانی میں کھڑا رہا کہ نامعلوم داہنا پٹ کھولوں کہ با یاں، کیونکہ اگر ان کی مرضی کے خلاف پٹ کھل گیا تو حکم عدولی میں شمار ہوگا ،چنانچہ انہی خدمتوں کی برکت سے یہ مراتب مجھ کو حاصل ہوئے۔
ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ تربیت یا کردار سازی ہمیشہ پیار محبت اور فکر و توجہ کی بدولت ہی ممکن ہوتی ہے، پیار محبت سے تو آپ جانوروں اور پرندوں کو بھی سدھا سکتے ہیں، انسان تو پھر اشرف المخلوقات ہے۔ بچپن میں دی گئی تربیت آخر وقت تک بچوں کے دلوں پر ثبت رہتی ہے ،بچے گھر میں بسکٹ،چپس ، ٹافی وغیرہ کھا رہے ہیں اور خالی لفافے نیچے پھینک رہے ہیں ،والدہ نے ایک دو بار پیار سے سمجھایا اور کوڑا دان میں پھینک کر بتایا کہ اس میں ڈالو ،یہ عملی تربیت بچہ ہمیشہ یاد رکھتا ہے، آپ ایسے ہی بچوں کو سلیقہ شعار ،نفاست پسنداور صفائی پسند دیکھیں گے۔ بچے گھر میں جھگڑ رہے ہیں ،والد نے پیار سے سمجھایا کہ" بیٹا غصہ کرنا حرام ہے،بہادر وہ ہوتا ہے جو غصے کو پی جائے اور معاف کرنے کی روش اختیار کرے " ۔چلو اپنے بھائی سے معافی مانگو اور گلے ملو، یہی بچے بڑے ہو کر درگزر کرنے والے ،معاف کرنے والے اور صبر و تحمل سے معاملات کو حل کرنے والے بنتے ہیں۔ چھوٹا بچہ کہیں سے پھول توڑ کر لے آتا ہے ،والد پوچھتے ہیں کہاں سے لیا؟ بچے کا جواب" سامنے والوں کے لان سے توڑا" ۔ والداسے پیار سے سمجھاتے ہیں کہ بیٹا آپ نے ان کی اجازت کے بنا پھول توڑا، ایک تو چوری ہوئی، دوسرا پھول ماحول کو خوبصورتی عطا کرنے کے ساتھ ساتھ جاندار بھی ہیں، آپ کو ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ایک چھوٹے بچے کے دل و دماغ میں اس ایک نصیحت کی بدولت چوری کا جرم اورپودوں سے محبت اور ان کے جاندارہونے کا تصور واضح ہوگیا ۔آپ کو پتا ہے کہ آپ کی حیثیت اپنے بچے کو قیمتی چیزیں لے کر دینے کی نہیں ہے، بچہ سکول سے گھر آتا ہے،سکول بیگ کھولتا ہے اور اس میں سے ایک قیمتی جیومیٹری بکس نکلتا ہے ۔والد یا والدہ اس جیومیٹری بکس کو دیکھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، بچے کی عملی تربیت کی ابتدا ہوگئی کہ چوری اور ڈاکہ زنی برا عمل نہیں ہے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ اس کی یہ عادت پختہ ہوتی جائے گی، اس کے برعکس اگر اسی وقت سختی سے پوچھا جاتاکہ یہ جیومیٹری آپ نے کہاں سے لی ، یا اسے خریدنے کے لیے اتنے پیسے آپ کے پاس کہاں سے آئے اوربچے کو اسی وقت سزا دی جاتی تو بچہ سمجھ جاتا کہ کسی ساتھی طالب علم کے بستے سے کوئی بھی چیز یا نقدی وغیرہ چرانا ایک برااورقابل سزا عمل ہے، جس کی دنیااور آخرت دونوں میںنہ صرف تفتیش ہوگی بلکہ جرم ثابت ہونے پر وہ سزا کا مستحق بھی ہوگا۔
اخلاق ہی انسان کو جانوروں سے ممتاز کرتا ہے ، اچھے اخلاق کے بنا انسانوں کی جماعت انسان نہیں بلکہ جانوروں کا ریوڑ کہلائے گی۔اپنے بچوں کو عزت دیں، وہ عزت و احترام جو آپ چاہتے ہیں کہ معاشرہ ان کو دے، آپ اپنے بچوں سے اسی رو یے اور الفاظ کی توقع رکھیں جو آپ ان کو سکھاتے ہیں ۔ یہ کبھی بھی نہیں ہو سکتا کہ آپ ان سے یا ان کے سامنے دوسروں سے جھوٹ بولیںاوران سے سچ سننے کی توقع رکھیں۔ ان کے سامنے اپنے رشتہ داروں، بزرگوں یا محلہ داروںسے بدتمیزی اور زبان درازی کریں گے تو وہ کبھی بھی شیریں زباں اور خوش اخلاق نہیں بنیں گے۔ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کائنات میں اخلاقیات کاسب سے اعلیٰ نمونہ ہیں جس پر اللہ کریم جل شانہ کی کتابِ لاریب مہرتصدیق ثبت کر رہی ہے۔ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلْقٍ عَظِیْمٍ o (القلم) بے شک آپ بڑے عظیم اخلاق کے مالک ہیں اورایسا کیوں نہ ہو آپ ﷺ مکارم اخلاق کے اعلیٰ معارج کی تعلیم و تربیت اور درستگی کے لیے مبعوث فرمائے گئے۔جیسا کہ خودآپ مالکِ خلق عظیم ﷺ فرماتے ہیں۔ بَعِثْتُ لِاَتَمِّمِ مَکَارَمِ اِخْلَاقٍ۔(حاکم، مستدرک) میں اعلیٰ اخلاقی شرافتوں کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں۔اسی لیے قرآن کریم میں اللہ عزوجل نے ہمیں نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَّۃٌ حَسَنَّۃٌ بے شک تمہارے لیے اخلاق کے اعلیٰ معارج کی تکمیل کرنے کیلئے رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرنے میں بہترین نمونہ ہے۔
اساتذہ کا کام بچوں کوپڑھانے اوران کی اخلاقی، ذہنی اور معاشرتی تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ صحیح غلط ، حلال حرام، سچ جھوٹ، ظلم اور انصاف کے درمیان فرق واضح کرنا اور اچھے برے کی تمیز سکھانا ہوتا ہے۔ ان کا کام بچوں کی تعلیم و تربیت میں ان گوشوں کی بار آوری کرنا ہوتا ہے جو تربیت والدین کے دوران تشنہ طلب رہ گئے ہوں۔ تربیت علم پر عمل کا نام ہے اور آپ کا علم آپ کے عمل سے چھلکتا ہے جسے آپ کو کہیں سجا کرنہیں رکھنا پڑتا۔ـ" تعلیم " تربیت کے بغیر ادھورا عمل ہے اور تربیت تعلیم کے بنا کچھ بھی نہیں۔ تربیت مال و زر سے خریدی نہیں جا سکتی بلکہ والدین، اساتذہ اور بزرگوں کے معاشرتی رویوں، چال چلن، اٹھنے بیٹھنے، اور گفتار و کردارکے انداز سے سمجھی جاتی ہے۔ تربیت کے فقدان کا رونا رونے والے جو اساتذہ کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ایک پل کے لئے بھی نہیں ہچکچاتے وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ "ایک ننھے پودے کی بے داغ اور خوشنما تراش خراش صرف تبھی ممکن ہے جب ابتداء میں اس کی کونپلیں پھوٹ رہی ہوں، تناور درخت بن جانے کے بعد آپ اس پر صرف کلہاڑی یاآری کے بدنما داغ ہی چھوڑ سکتے ہیں"۔ اسی طرح اساتذہ کے پاس بچے جب پانچ چھ سال کی عمر میں جو ان کے سیکھنے کی بہترین عمر ہوتی ہے میں لڑائی جھگڑے، دنگافساد، گالم گلوچ، صحیح غلط سے بے بہرہ، صفائی و پاکیزگی سے ناآشنا ،عدم برداشت ،غصے، حسد، بدلے کی آگ اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے والی تربیت جو وہ اپنے معاشرہ اور کسی حد تک گھریلو ماحول سے حاصل کرچکے ہوتے ہیں ،لے کر پہنچتے ہیں تو اساتذہ کے سامنے وہ معصوم بچے نہیں بلکہ احساسات اور روح سے عاری بے جان لاشیں ہوتی ہیں جن کو اساتذہ چاہے جتنا مرضی اپنے قول و عمل سے سدھارنے کی کوشش کرلیں ان کے اذہان ان باتوں کو ماننے پر آمادہ نہیں ہوتے کیونکہ بچپن میں سیکھی ہوئی باتیں ان کے دل و دماغ پر انمٹ نقوش چھوڑ چکی ہوتی ہیں۔ بچوں کی اعلی تربیت اور عمدہ اخلاق و کردار صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب والدین نے ان کی تربیت میںحتی المقدور کوشش کی ہو اور پھر اساتذہ اسی تربیت کو آگے لے کر چلیں اور انہیں معاشرہ میں ایک اعلی پائے کے ذمہ دار اور باکردار شہری بنانے میں اپنا کردار ادا کریں اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب اساتذہ کو طلباء ،ان کے والدین اور معاشرہ وہ عزت و توقیر دیں گے جس کے وہ مستحق ہیں۔ایک مرتبہ خلیفہ ہارون الرشید کے صاحبزادے اپنے استاد محترم کو وضو کروا رہے تھے اور ان کے پاؤں پر پانی ڈال رہے تھے۔ ہارون الرشید نے جب یہ منظر دیکھا تو بہت برہم ہوئے اور صاحبزادے کو ڈانٹ پلائی۔استاد صاحب نے کہا "نمازکاوقت جا رہا تھا اس لئے میں نے شہزادے کو زحمت دی"۔ خلیفہ نے کہا "میں نے شہزادے کو اس لیے ڈانٹا ہے کہ اس کا جو ہاتھ خالی تھا اس ہاتھ سے شہزادے نے آپ کے پاؤں کیوں نہیں دھوئے؟"۔
موجودہ لاک ڈائون کے دوران بچے مسلسل اپنے والدین اور بزرگوں کے زیر سایہ ہیں تو والدین کے لیے یہ ایک نادر موقع ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت اخلاق کر کے انہیں معاشرہ میں ایک ذمہ دارشہری اور مودب طالبعلم بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلام ِنرم و نازک بے اثر
نوٹ( یہ کالم طاہرہ رفیق ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر لٹریسی مظفر گڑھ کی فرمائش پر موجودہ لاک ڈائون کے تناظر میں بچوں کی عملی و اخلاقی تربیت میں والدین کی راہنمائی کرنے کے لیے تحریر کیا گیا)