وہ خاموش سا کلاس روم میں بیٹھا تھا۔ "صباء" نے آتے ہی جنید کو چھیڑتے ہوۓ انداز میں کہا:کیا ہوا رومیو آج بڑے خاموش سے بیٹھے ہو آج بھابھی دکھائی نہیں دی کیا ؟جنید نے اداس سے انداز میں بتایا کہ وہ شاید اب نہ آئے صباء حیران ہو کر سوال پر سوال پوچھی جا رہی تھی لیکن جنید کسی سوچ میں گم تھا ۔۔صباء اور جنید بہت اچھے دوست تھے بہن بھائیوں کی طرح ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے اور کالج میں سب کو لگتا تھا۔ وہ دونوں بہن بھائی ہیں مگر وہ بیسٹ فرینڈ تھے۔ صباء اکیلی بہن تھی۔ "ماں باپ" کے دنیا سے جانے کے بعد صباء کو اس کی نانی نے پالا تھا۔ اس لئے صباء کی بھائی والے رشتے کی کمی جنید نے پوری کر دی تھی۔ دونوں بیسٹ فرینڈ کے ساتھ بہن بھائی بھی تھے دوسری طرف جنید کے دو بھائی تھے۔ والد "امریکہ" میں کاروبار کے سلسلے میں رہتے تھے۔ دونوں چھوٹے بھائی اسکول میں پڑھتے تھے۔ ماں گھر داری میں مصروف رہتی تھی۔ جنید کے گھر والے بھی صباء کو جانتے تھے۔ کیوں کہ صباء اکثر ان کے گھر جایا کرتی تھی اور جنید کی ماں صباء سے بہت محبّت کرتی تھی ۔۔جنید کو صباء نے بار بار تنگ کرتے ہوۓ پوچھا کیوں پریشان ہو؟ جنید نے بتایا کہ "رخسار" کے گھر والوں کو میرے اور رخسار بارے میں پتہ چل گیا ہے ۔ رخسار اور جنید کلاس فیلو تھے اور وہ ایک دوسرے کو بہت پسند کرتے تھے یہ بات رخسار نے خود اپنے گھر والوں کو بتا دی تھی تاکہ کل کو کسی اور سے پتہ چلنے پر وہ شرمندگی محسوس نہ کریں۔ مگر رخسار نہیں جانتی تھی کہ رخسار کے گھر والے اس طرح ری ایکٹ کریں گے اور رخسار کے کالج جانے پر پابندی لگا دیں گے ۔۔جنید صباء کو افسردہ انداز میں بول رہا تھا کہ شاید میں اس کو کبھی نہیں مل سکوں گا۔ جنید بھی رخسار کو بے حد محبّت کرتا تھا اور یہ بات جنید کے گھر والوں کو پتہ تھی۔ مگر ذات الگ ہونے کی وجہ سے جنید کے گھر والوں نے اس رشتے سے انکار کر دیا تھا۔ ادھر رخسار نے جنید کے بارے میں گھر بتایا تو اس کی والدہ نے سختی سے سمجھایا کہ ہم ذات سے باہر رشتہ نہیں کرتے۔ اس لئے آج کے بعد گھر میں ایسی کوئی بات نہیں ہو گی اور نہ تم کالج جاؤ گی۔ ہم تمہارے تایا ابو کے بیٹے سے تمہارا رشتہ بچپن میں ہی کر چکے ہیں۔ ہم نے ان کو زبان دی ہے۔ اب ہم پیچھے نہیں ہٹ سکتے ۔۔رخسار کے آنسوں گرتے جا رہے تھے اور وہ خاموش ہو کر باتیں سن رہی تھی لیکن اندر سے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ سمجھ نہیں پا رہی تھی کیا کرے ؟؟دوسری طرف جنید کی کوشیشوں کے باوجود بھی والدین نے رشتے کو منظوری نہیں دی ۔۔دونوں نے کالج جانا چھوڑ دیا تھا اور ان سب باتوں کی وجہ سے صباء بہت بے بس اور پریشان تھی۔ اس سے اپنے بھائی کا درد برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ جنید اور رخسار کے والدین ذات اور انا کی خاطر بچوں کی محبّت قربان کر رہے تھے۔ صباء نے جب دیکھا کہ رخسار اور جنید ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے تو اس نے حل سوچ لیا۔۔صباء نے جنید کو سمجھایا کہ ایسے ہمت چھوڑنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ حوصلہ افزائی کرتے ہوۓ صباء جنید کو اپنے ساتھ کالج لے آئی۔۔اور دوسری طرف صباء رخسار کے گھر اس کی دوست بن کر ملنے کے بہانے گئی اور اسے ہمت دے کر آنسوں صاف کرتے ہوۓ بولا کہ رونے سے کچھ نہیں ہونا یا تو والدین کی زبان اور ذات پات انا کی عزت رکھ لو اور محبّت قربان کر دو اور یا محبّت کو نکاح کا نام دے کر دونوں اپنی مرضی سے زندگی جی لو ۔۔کچھ دیر خاموشی رہی اور پھر رخسار نےگھر والوں کو تایا ابو کی طرف رشتے کو منظوری دے دی اور صباء کے ساتھ کالج آگئی ۔۔جنید پہلے ہی کالج موجود تھا۔ صباء نے دونوں کو لیا اور مولوی صاحب کے گھر جا کر دونوں کا نکاح کروا دیا ۔۔رخسار نے تایا ابو کی طرف رشتے کو منظوری اس لئے دی تاکہ وہ گھر سے باہر جا سکے ۔۔نکاح کے بعد رخسار اور جنید صباء کا شکریہ ادا کیا۔ مگر آنکھوں میں آنسوں بھی تھے کہ گھر والوں کے بغیر نکاح کر تو لیا ہے۔ مگر پھر بھی پریشان تھے۔ صباء نے سمجھایا کہ گھر گئے تو بہت معاملات خراب ہو جاۓ گے۔ صباء نے کہا کہ میری دوست ہے ایک بہت اچھی اس کے پاس چلے جاؤ۔ وہ آپ کو رہنے کیلئے جگہ بھی دے گی اور جنید کو اس کا خاوند نوکری بھی لگوا دے گا اور وہ ایسی جگہ ہے جہاں کوئی ان کو ڈھونڈ نہیں سکے گا ۔ ویسے بھی تم لوگ نکاح کر کے اسلام کے مطابق میاں بیوی ہو ۔۔وہ دونوں صباء کو مل کر اس کی دوست کے گھر چلے گئے اور جب گھر پتہ چلا تو کافی بحث اور لڑائی کے بعد صباء نے دونوں خاندان کو بھلا کر سمجھاتے ہوۓ کہا کہ آج جو بھی ہوا ہے۔ آپ کی انا اور ضد کی وجہ سے ہوا ہے غلطی ان کی بس اتنی ہے انہوں نے محبّت کی اور اگر دیکھا جاۓ تو اس رشتے کو آپ منظوری تب نہ دیتے اگر رخسار غیر مسّلم ہوتی ہے یا جنید مسلمان نہ ہوتا۔ جب دونوں مسلمان ہے اور اسلام کے مطابق عزت کے ساتھ نکاح کر کے زندگی گزارنا چاہتے ہیں پھر آپ لوگوں نے یہ سب کیوں کیا ؟؟ہر بچہ غلط نہیں ہوتا ہمہاری سوچ بس اچھی ہونی چاہیے ۔ سب خاموش تھے اور رخسار اور جنید صباء کو ملتے تھے ۔ مگر گھر والے ابھی بھی دونوں کو عزت خراب کرنے پر قصور وار سمجھتے تھے ۔۔میں یہ نہیں کہتی کہ جہاں بچے کہیں وہاں شادی کر دینی چاہیئے ۔ یہ دیکھیں کہ بچہ غلط تو نہیں کر رہا اور اگر غلطی کی ہے بچے نے تو کسی دوسرے کو غلط ٹھہرا کر اس کو بچا لیں یہ بھی تو کوئی بات نہیں ۔۔ذات الگ ہونے سے کچھ نہیں ہوتا مسلمان اور قابل انسان ہونا ضروری ہے جو آپ کی بیٹی کو خوش رکھے مانتے ہیں کہ والدین کبھی اولاد کا غلط نہیں کرتے مگر جب اولاد کی بات ماں باپ نہیں مانتے تو وہ یہی قدم اٹھاتے ہیں۔ بہتر ہے ہمیں اپنے بچوں کو سمجھنا چاہیے اور ذات معاشرہ اور انا چھوڑ کر ان کی خوشی اور آنے والے کل کے بارے میں سوچے گے تو اولاد کبھی غلط قدم نہیں اٹھائےگی۔ زیادہ تر بچے اسی وجہ سے غلط قدم اٹھاتے ہیں کہ ان کی بات نہیں سنی جاتی۔ مگر اس کا خیال ہم سب کو کرنا ہوگا تاکہ ہمارے بچے آگے جا کر اپنا اچھا سوچے اور ہمیں سوچنا ہی نہ پڑے ۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...