نام کتاب : روشنی کا سفر (بچوں کی کہانیوں کا مجموعہ)
مصنف: جمیل اختر شفیق
ناشر: فخرالدین علی احمد
جمیل اختر شفیق کے تعارف کے کئی حوالے ہیں۔ وہ شاعر کی حیثیت سے پوری اردو دنیا میں جانے پہچانے جاتے ہیں اور مشاعروں میں اپنی خوبصورت ترنم کی بدولت جہاں محفل لوٹنے میں کامیاب رہتے ہیں وہیں ملک و بیرونِ ممالک کے رسائل و جرائد اپنی غزلوں و نظموں کی اشاعت سے قارئین کی ایک بڑی تعداد کو متاثر بھی کر لے جاتے ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ سنے جانے والے شاعر بھی ہیں اور پڑھے جانے والے بھی۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ مشاعروں کا کوئی شاعر یکساں توجہ کے ساتھ رسائل و جرائد میں چھپ کر وہاں سے بھی داد و تحسین وصول کرنے میں کامیاب ہو جائے۔2018 میں ان کا شعری مجموعہ “دھوپ کا مسافر” شائع ہوا تو ناقدین کی ایک بڑی تعداد نے ان کے فکر و فن پر مضامین لکھے اور ان کی انفرادیت اور امتیازات کو واضح کیا۔ جمیل اختر شفیق کے تعارف کا ایک بڑا حوالہ ان کا دلپذیر مقرر ہونا بھی ہے۔ وہ دینی، اصلاحی اور عصری مسائل پر جب لب کشائی کرتے ہیں تو لاکھوں کا مجمع ہمہ تن گوش ہو جاتا ہے۔ حالات حاضرہ کے موضوعات کی سمجھ نے انہیں کئی حیثیتوں سے فائدہ پہنچایا۔ اپنے زیرِ تدریس طلبہ میں مقبولیت عطا کی تو سیاسی گلیاروں کا بھی دُلارا بنایا، اپنی شاعری کے لیے خام مواد کی تلاش میں مدد دی تو کہانیوں کے نئے موضوعات کی طرف رہنمائی بھی کی۔ مطالعے کے شوق کی وجہ سے وہ تنقیدی مضامین لکھنے پر بھی قدرت حاصل کر چکے ہیں اور ڈیڑھ دہائی سے بچوں کے لیے اصلاحی و تمثیلی کہانیاں لکھ کر ادبِ اطفال کے بھی مقبول ادیب بن چکے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ان کی بچوں کے لیے لکھی گئی ڈھائی سو سے زائد کہانیوں کے انتخابات کا پہلا نقش ہے۔
اس مجموعے میں جمیل اختر شفیق نے اپنی جن کہانیوں کو شامل کیا ہے، اسے ادبی نقطہء نظر سے دیکھنے کے بجائے بچوں کی اخلاقی تعمیر کی نظر سے دیکھنا زیادہ مناسب ہوگا۔ اور حقیقت یہی ہے کہ آج ادبِ اطفال کے نام پر جن تحریروں کا وجود عمل میں آ رہا ہے، ان میں تعمیرِ اخلاق کے پہلوؤں سے صرفِ نظر کر کے اساطیری و غیر منطقی لوازمات کی طرف زیادہ توجہ کی جاتی ہے۔ اور اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ بچوں کی دلچسپی کو بنائے رکھنے اور ان کے اندر مطالعے کا شوق پیدا کرنے کےلیے یہ ایک ضروری عمل ہے۔ لیکن اس مجموعے میں شامل جمیل اختر شفیق کی 35 کہانیوں میں سے کسی ایک کہانی کو پڑھ کر ایسا نہیں لگتا کہ توجہ کہانی سے ذرا دیر کے لیے بھی ہٹی ہو۔ حالانکہ ان کہانیوں میں نہ اساطیر ہے اور نہ ہی کوئی غیر منطقی واقعہ۔ بچوں کے اندر دنیا کی آگہی اور دنیا سے جڑے مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے جمیل اختر شفیق کی کہانی کے اسلوب کی پیروی ضروری بھی ہے اور تخریبیِ اخلاق کے اس دور میں مستحسن بھی۔ جمیل اختر شفیق کی کہانیوں کے موضوعات کو ایک نظر دیکھ کر ہی اس دعوے کی دلیل قاری کو مل جاتی ہے۔
گھر واپسی، ندامت کے آنسو، حماقت، اپنی فطری خوبیوں کو پہچانو، مجبوروں کی مدد سے مصیبتیں ٹل جاتی ہیں، علامہ ابنِ باز کا دانشمندانہ فیصلہ، تمہارے لیے بھی اس میں سبق ہے، احساس، حیرت انگیز تبدیلی، حیرانی، کسان کا شاعر بیٹا، آج اللہ نے میری مراد پوری کر دی، یقین، عبرت آموز خواب، عہد، عمل کی تاثیر، ایک ایسی موت جس نے۔۔۔۔، احتساب، والدین کی صحبت کو غنیمت جانو، غیر متوقع کامیابی، بدگمانی، اولاد کو اولاد ہی رہنے دیجئے، مثالی طالب علم، ماں کی عظمت کا احساس، بیٹا غلطی میری بھی تھی، جیسی کہانیوں کے عنوانات بچوں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں ،کہانی کے اختتام تک باندھے رکھتے ہیں اور قاری کے اندر علم و حکمت کے بیج بونے میں بھی کامیاب رہتے ہیں۔
جمیل اختر شفیق نے اپنی کہانیوں کے لیے جس زبان کا استعمال کیا ہے وہ عام فہم ہیں اور بچوں کے ذخیرہء الفاظ کو بڑھانے میں کامیاب بھی نظر آ رہے ہیں۔ اور باتیں اتنی دلچسپ ہیں کہ پڑھتے جائیے اور آنکھوں پہ پڑے پردے کو ہٹاتے جائیے۔ کہیں پر بھی اُکتاہت کا احساس نہیں ہوتا۔ کہانیوں کی اسی خوبی کے پیش نظر پروفیسر شکیل احمد قاسمی نے کتاب میں شامل اپنے تاثرات میں لکھا ہے کہ ” جمیل اختر شفیق کی تحریریں پڑھتے ہوئے کئی بار میرے آنسوؤں نے ان کی کوشش و کاوش کو خراج تحسین پیش کیا ہے”۔ کتاب میں شامل تعمیر سیرت اور کردار سازی کے پہلوؤں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے وہ آگے لکھتے ہیں کہ “میرا مشورہ ہے کہ تعلیمی اداروں کے ذمہ داران اسے مناسب مقامات پر داخل نصاب یا خارجی مطالعے کا لازمی حصہ بنائیں”۔ جمیل اختر شفیق نے کتاب میں شامل اپنے مقدمے میں کہانیوں سے اپنی طبعی دلچسپی کا ذکر کرتے ہوئے امی سے کہانی سننے کی ضد اور اس کی پوری روداد کو دلنشین انداز میں بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ” وقت کے ساتھ ساتھ جب شعور کی سطح تھوڑی بلند ہوئی، زندگی کو کھلی آنکھوں سے دیکھنا شروع کیا تو قدم قدم پر رونما ہونے والے واقعات و حادثات، عبرت و موعظت کا ایک نیا تحفہ لیے کھڑے تھے۔ میں نے بس اتنا کیا کہ انھیں نظر انداز کر کے آگے بڑھ جانے کے بجائے دل کے نہاں خانوں میں ان تحفوں کو بہت سلیقے سے سنبھال کر رکھا تاکہ آنے والی نسلیں مستفید ہو سکیں”۔ جمیل اختر شفیق کے اس تحفے کو پروفیسر شکیل احمد قاسمی کے علاوہ ڈاکٹر ارشد فہیم مدنی، ڈاکٹر عطا عابدی، ڈاکٹر کامران غنی صبا اور انظار احمد صادق نے بھی قیمتی گردانا ہے اور ادبِ اطفال سے متعلق لٹریچر میں اس اضافے کو وقعت کی نظر سے دیکھا ہے۔
امید ہے جمیل اختر شفیق کی تازہ کاوش کو ادب اطفال میں ایک قیمتی اضافہ سمجھا جائے گا اور بچوں کو زبان و ادب کی طرف متوجہ کرنے والے ادارے اس کتاب کی اہمیت کو سمجھ کر اسے بڑے پیمانے پر تقسیم و تشہیر کی طرف متوجہ بھی ہوں گے۔ حکومت اترپردیش کا ادارہ فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی مبارک باد کی مستحق ہے کہ انھوں نے ادب اطفال کی طرف بھی توجہ کی اور اس کتاب کی نشر و اشاعت میں مدد فراہم کی۔ مصنف، ناشر اور ادب اطفال سے متعلق سبھی ہنرمندوں کی خدمت میں ہدیہء تبریک۔
***