” کہانیاں دہرائی نہ جاتیں تو یہ کب کی ختم ہو چکی ہوتیں ”
( فینش لوک ادب سے ماخوذ )
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اس دنیا کے ایک دور دراز کے ملک جہاں فطرت ہر رات آسمانی و آفاقی روشنیوں کے نِت نئے نظارے پیش کرتی ہے ، میں ایک لڑکا رہتا تھا جس نے شیطان کو ہرایا اور اس سے اس کی بہترین شے چھین لی ۔ اس لڑکے کا نام وقاص تھا لیکن سب اسے وِکی کہتے تھے ۔اس کے دو بھائی بھی تھے اور وہ دونوں اس سے بڑے تھے ۔ان دونوں نے بھی شیطان سے پنگا لیا تھا لیکن منہ کی کھائی ۔ ان کے بعد وِکی نے اپنی قسمت آزمائی ۔ اس کے بھائیوں کو یقین تھا کہ وِکی نے بھی منہ کی کھا کر لوٹنا تھا ۔ لیکن ایسا نہ ہوا ۔ کہانی کچھ یوں شروع ہوئی :
ایک روز سب سے بڑے بھائی نے کہا :
”میرے لیے اب وہ وقت آ گیا ہے کہ میں دُنیا میں باہر جاﺅں اور کچھ کام کروں ، کچھ کماﺅں ، اپنے علاوہ تم دونوں کا بھی پیٹ بھروں ۔ تم دونوں اس وقت تک گھر پر ہی رہنا جب تک تم یہ نہ جان لو کہ میں اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا ہوں ۔ “
دونوں چھوٹے بھائیوں نے اس سے اتفاق کیا ، یوں بڑے نے باہر کی دنیا کی راہ لی ۔ وہ ملک میں ہر جگہ گیا لیکن کہیں بھی نوکری حاصل نہ کر سکا ۔ سارے ملک میں بیروزگاری عروج پر تھی ۔ ایک روز وہ درخت تلے نا امیدی کے عالم میں بیٹھا تھا کہ شیطان اس کے سامنے آیا اور اس سے مایوسی کی وجہ پوچھی ۔ لڑکے کی کتھا سن کرشیطان نے اسے فوراً کام پر رکھ لیا لیکن اس کی شرائط عجیب تھیں ۔
” آﺅ میرے لیے کام کرو ۔“ ، شیطان نے کہا ، ” میں وعدہ کرتا ہوں کہ تم میرے ہاں آرام سے رہو گے ، تمہیں اچھا پہننے کو اور اچھا کھانے کو ملے گا ۔ تم جب بھی کبھی گھر جائو گے تو معاوضے کی مناسب رقم تمہاری جیب میں ہو گی ۔ لیکن اس کے لیے ہمیں آپس میں ایک سودا کرنا ہو گا ۔ ہم دونوں میں سے جو کوئی بھی اگر اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکا تو اسے اپنی اُتنی کھال سے ہاتھ دھونا پڑے گا جس سے جوتوں کے ایک جوڑے کے تَلے بن سکیں ۔ اگر میں اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکا تو تمہیں اختیار ہو گا کہ میری کھال کا ایک بڑا ٹکڑا اتار لو ۔ لیکن اگر تم اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکے تو یہی کام میں کروں گا ۔“
بڑے والے لڑکے نے اس شرط سے اتفاق کیا تو شیطان اسے فوراً اپنے گھر لے گیا اور اسے کام پر لگا دیا ۔
”یہ کلہاڑی لو ۔“ ، اس نے کہا ، ” گھر کے پچھواڑے جاﺅ اور میرے آتش دان کے لیے لکڑیوں کے کچھ ٹکڑے کاٹ کر لاﺅ ۔“
لڑکے نے کلہاڑی لی اور باہر اس جگہ گیا جہاں لکڑیوں کا ڈھیر پڑا تھا ۔
” لکڑیاں کاٹنا تو کافی آسان کام ہے ۔“ ، اس نے دل ہی دل میں سوچا ۔
اس نے لیکن ، جیسے ہی کلہاڑی چلائی تو اسے پتہ چلا کہ کلہاڑی کی تو دھار ہی نہ تھی ۔ اس نے بہت کوشش کی لیکن وہ لکڑی کا ایک بھی ٹکڑا نہ کاٹ سکا ۔
” اس کلہاڑی کے ساتھ کام کرنا وقت ضا ئع کرنے کے برابر ہے اور یہاں ٹھہرنا بے وقوفی ہو گی ۔ “ ، وہ چلایا ۔
اس نے ، چنانچہ ، کلہاڑی پھینکی اور یہ سوچ کر کہ شیطان سے فرار حاصل کرے تاکہ کسی دوسری جگہ جا کر کام تلاش کر سکے ، وہ وہاں سے بھاگ گیا ۔ لیکن شیطان نے اسے بھاگنے نہ دیا ۔ وہ اس کے پیچھے بھاگا اور اسے جا لیا ۔ اس نے لڑکے سے پوچھا کہ وہ بِنا بتائے کیونکر وہاں سے جا رہا تھا ۔
” میں تمہارے لیے کام نہیں کرنا چاہتا ۔“ ، لڑکا رو پڑا ۔
” ٹھیک ہے ۔“ ، شیطان نے کہا ، ” لیکن اس حوالے سے غصہ مت کھاﺅ ۔“
” لیکن مجھے غصہ آ جائے گا !“ ، لڑکے نے کہا ، ” یہ خیال ہی ۔ ۔ ۔ غصہ دلانے کے لیے کافی ہے کہ تم مجھ سے یہ توقع کرو کہ میں اِس جیسی کلہاڑی کے ساتھ لکڑیاں کاٹوں ۔“
” ٹھیک ہے ۔“ ، شیطان نے جواباً کہا ، ” تم ، چونکہ ، مُصر ہو کہ تم غصہ کھاﺅ گے ، تو ایسا ہے کہ تمہیں اپنی چمڑی کا اتنا بڑا ٹکڑا مجھے دینا ہو گا جس سے میرے بڑے جوتوں کے جوڑے کے لیے تَلے بن سکیں ۔ ہمارا معاہدہ یہی تو تھا ۔“
لڑکا چیخا چلایا اور احتجاج کیا لیکن شیطان نے اس کی ایک نہ سنی اور اپنی جگہ اَڑا رہا ۔ اس نے ایک لمبا چاقو نکالا اور اپنے جوتوں کے لیے لڑکے کی کمر سے کافی ساری چمڑی اتار لی ۔
” اب جبکہ میں نے معاہدے کے مطابق اپنا حق وصول کر لیا ہے ۔“ وہ بولا ، ” تم جا سکتے ہو ۔“
سب سے بڑا بھائی لنگڑاتا ہو ا گھر کی جانب چل دیا ۔ وہ تلخی کے ساتھ اپنی قسمت کو کوس رہا تھا جو بد قسمتی بن کر اس پر آن پڑی تھی ۔
” میں تھکا ہوا ہوں اور بیمار بھی ہوں ۔“ ، اس نے اپنے بھائیوں کو بتایا ، ” میں گھر پر ہی رہوں گا اور آرام کروں گا ۔اب تم میں سے کسی ایک کو باہر جانا اور کام کرنا ہو گا ۔ “
منجھلے بھائی نے فوراً کہا ؛ ”مجھے خوشی ہو گی کہ میں باہر کی دُنیا میں جاﺅں اور اپنی قسمت آزماﺅں ۔ “ یہ کہہ کر وہ گھر سے باہر نکل گیا ۔لیکن اس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو بڑے بھائی کے ساتھ ہو چکا تھا ۔ پہلے تو اسے بھی کہیں کوئی کام نہ ملا اور پھر وہ بھی شیطان سے ملا ۔ شیطان نے اس کے ساتھ بھی وہی معاہدہ کیا جو وہ پہلے اس کے بڑے بھائی سے کر چکا تھا ۔ وہ منجھلے لڑکے کو گھر لے گیا اور اسے بھی وہی کند کلہاڑی تھمائی اور لکڑیوں کے ٹکڑے کرنے کے لیے باہر بھیج دیا ۔ جیسے ہی منجھلے نے کلہاڑی سے وار کیا تواسے بھی کلہاڑی کے کند ہونے کا احساس ہوا اور اس نے بھی اسے وہیں پھینک کر وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی ۔ لیکن شیطان نے اسے فرار ہونے نہ دیا اور اسے تب تک روکے رکھا جب تک اُس نے اِس سے بھی کھال کا ایک ٹکڑا حاصل نہ کر لیا ۔ ۔ ۔ اور پھر منجھلا بھی لنگڑاتا اور اپنی قسمت کو کوستا ہوا گھر لوٹ آیا ۔
” تم دونوں کو اس حالت تک کس نے پہنچایا ہے ؟ “ ، وِکی نے پوچھا ۔
” تم باہر کی ظالم دنیا میں جاﺅ اور کام تلاش کرو ۔“ ، انہوں نے کہا ، ” تمہیں جلد ہی معلوم ہو جائے گا کہ ہمیں کس نے اِس حال میں پہنچایا ہے ۔ ۔ ۔ اور جب تمہیں یہ پتہ چل جائے تو ہماری طرح لنگڑاتے ہوئے اور یہ توقع کرتے ہوئے گھر نہ لوٹنا کہ ہم تمہیں دلاسا دیں گے یا تم سے ہمدردی کریں گے ۔ ۔ ۔ ہم ایسا نہیں کریں گے ۔“
وِکی نے یہ سنا اور اگلے روز ہی اپنے سفر کا آغاز کر دیا جبکہ اس کے دونوں بھائی ایک دوسرے کی زخمی کمروں کی دیکھ بھال اور زخمی جذبات کی چارہ جوئی کے لیے گھر پر ہی رہے ۔
وِکی کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا ، جو اس کے بھائی پہلے بُھگت چکے تھے ۔ پہلے تو اسے بھی کسی نے کام نہ دیا اور جب بعد میں وہ شیطان سے ملا تو اُس نے بھی اس کی نوکری ، اسی شرط پر کر لی ، جس پر اس کے بھائیوں نے کی تھی ۔
شیطان نے اسے بھی وہی کند کلہاڑی دی اور اسے لکڑیاں کاٹنے بھیج دیا ۔ پہلے ہی وار سے وِکی جان گیا کہ کلہاڑی کی دھار نہیں اور یہ کہ اس نے اِس سے لکڑی کا ایک ٹکڑا بھی کاٹ نہیں سکنا تھا ۔ لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور غصے میں بھی نہ آیا بلکہ ہنس دیا ۔
” میرا خیال ہے کہ شیطان یہ سمجھتا ہے کہ میں اس چھوٹی سی بات پر اپنی چمڑی گنواﺅں گا !“ ، اس نے خود سے کہا ، ” لیکن میں ایسا نہیں ہونے دوں گا !“
اس نے کلہاڑی ایک طرف رکھی اور لکڑیوں کے ڈھیر کے پاس گیا اور لکڑیاں ہٹانا شروع کر دیں ۔ اسے لکڑیوں کے نیچے شیطان کی بلی بیٹھی نظر آئی ۔ یہ سرمئی سر والی عفریت نما مخلوق تھی ۔
” ہا! “ وِکی نے سوچا ، ” مجھے یقین ہے کہ اس میں کوئی بھید ہے اور مجھے اس بلی کے ساتھ کچھ نہ کچھ کرنا ہے !“
اس نے کلہاڑی اونچی کی اور ایک ہی وار میں بلی کا سر تن سے جدا کر دیا ۔ ایسا کرنا تھا کہ کلہاڑی کی دھار نہ صرف بحال ہو گئی بلکہ یہ تیز بھی تھی ۔ وِکی کو اس کے بعد لکڑیوں کے ٹکڑے کرنے میں چنداں مشکل پیش نہ آئی اور اس نے شیطان کی طلب سے کہیں زیادہ لکڑیاں کاٹ کر چھوٹے ٹکڑوں کا ڈھیر لگا دیا ۔
رات کے کھانے پر شیطان نے پوچھا ؛
” ہاں بھئی وِکی ، تم نے وہ کام ختم کر لیا جو میں نے تمہیں دیا تھا ؟“
” جی مالک! میں نے ساری لکڑیاں کاٹ کر چھوٹے ٹکڑوں کا ڈھیر لگا دیا ہے ۔“
شیطان حیران ہوا ۔
” واقعی ؟“
” ہاں مالک ! آپ چاہیں تو خود جا کر دیکھ سکتے ہیں ۔“
” اس کا مطلب ہے کہ تمہیں لکڑیوں کے ڈھیر میں کچھ مل گیا تھا ، کیا ایسا نہیں ہوا ؟“
” نہیں ، البتہ وہاں ایک ناگوار سی بوڑھی بلی موجود تھی ۔“
شیطان بولا ؛ تم نے اس بلی کے ساتھ کچھ کیا تو نہیں ؟“
” میں نے تو بس اس کا سر دھڑ سے جدا کیا اور اسے دور پھینک دیا تھا ۔“
” کیا!“ شیطان غصے سے چلایا ، ” کیا تمہیں معلوم نہ تھا کہ وہ میری بلی تھی !“
” مالک ،اب جبکہ یہ ہو چکا ہے۔ “، وِکی نے سکون سے کہا ، ” اب آپ ایک چھوٹی سی بات ، مطلب مری ہوئی بلی پر تو غصے میں نہیں آئیں ، یا آئیں گے ؟ ہمارے درمیان ہوئے سودے کو مت بھولیں ۔“
شیطان اپنا غصہ پی گیا اور بڑبڑایا ؛
” نہیں ، میں غصہ نہیں کر رہا لیکن مجھے یہ ضرور کہنا ہے کہ تمہیں میری بلی کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے تھا ۔“
اگلے روز شیطان نے وِکی کو حکم دیا کہ وہ جنگل میں جائے ، درختوں کے تنے کاٹے اور انہیں بیل گاڑی پر لاد کر گھر واپس لائے ۔
” میرا سیاہ کتا تمہارے ساتھ جائے گا ۔“ ، اس نے کہا ، ” اور جب تم گھر واپس لوٹو تو بالکل وہی راستہ اختیار کرنا جو میرا کتا اختیار کرے ۔“
وِکی جنگل میں گیا ، تنے کاٹے ، انہیں چھکڑے پر لادا اور پھر شیطان کے کالے کتے کے پیچھے پیچھے بیل کو ہانکتا گھر کی جانب لوٹنے لگا ۔ جیسے ہی وہ شیطان کے گھر کے پھاٹک پر پہنچے ، کالا کتا پھاٹک میں موجود ایک سوراخ میں گھسا اور پار نکل گیا ۔
” مجھے اپنے مالک کے حکم پر چلنا چاہیے ۔ “ ، وِکی نے خود سے کہا ۔
اس نے، چنانچہ ، بیل کو کاٹا ، اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کیے اور اسی سوراخ کے ذریعے پھاٹک کے اندر داخل کیے ، جس میں سے کالا کتا اندر گیا تھا ۔ اس نے پھر تنوں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹا اور انہیں سوراخ کے ذریعے اندر کر دیا ۔ اس نے چھکڑے کے بھی چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے انہیں بھی اندر دھکیل دیا اور آخر میں خود بھی رینگتا ہوا اس سوراخ سے پھاٹک پار کر گیا ۔
اس رات شیطان نے کھانے پر پھر اس سے پوچھا:
” ہاں تو ، وِکی ، کیا تم نے واپسی پر وہی راستہ اختیار کیا جیسا کہ میں نے تمہیں بتایا تھا ؟“
” جی ہاں مالک ! میں نے کالے کتے کے ہی راستے کو اپنایا تھا ۔
” کیا ! “ ، شیطان چلایا ، ” تمہارا مطلب ہے کہ تم نے بیل ، گاڑی اور تنے بھی پھاٹک میں موجود اس سوراخ سے گزارے جس کے ذریعے کتا اندر داخل ہوا تھا ؟“
” جی ، مالک ، میں نے ایسا ہی کیا تھا ۔“
لیکن تم ایسا نہیں کر سکتے ۔“ ، شیطان نے یقین سے کہا ۔
”ٹھیک ہے مالک ، لیکن آپ خود باہر جا کر دیکھ لیں ۔“
شیطان باہر گیا اور جب اس نے وہ طریقہ دیکھا جس کو برت کر وِکی نے اس کے حکم کو پورا کیا تھا تو وہ غصے سے بھر گیا ۔ وِکی نے ، لیکن اسے یہ کہہ کر چُپ کرا دیا ؛
” مالک ، اب جبکہ یہ ہو چکا ہے ۔ تو آپ اس چھوٹے سے معاملے پر غصہ کیوں ہوتے ہیں ، کیا آپ کوغصہ آ رہا ہے ؟ سمجھوتے کو یاد رکھیں!“
” نہیں ، میں آپے سے باہر نہیں ہو رہا ۔“ ، شیطان نے ایک بار پھر غصہ پیتے ہوئے کہا ، ” لیکن میں چاہتا ہوں وِکی کہ تم یہ سمجھو کہ تم نے یہ سب کام بھی بہت بری طرح سرانجام دئیے ہیں ۔“
اس رات شیطان سارا وقت غصے کی آگ میں جلتا رہا اور وِکی کے خلاف بُڑبُڑ کرتا رہا ۔
”ہمیں اس لڑکے سے جان چھڑانا ہو گی ! بس بہت ہو چکا !“ ، اس نے اپنی بیوی سے کہا ۔
ایسا بھی تھا کہ جب جب وِکی شیطان کے سامنے جاتا تو شیطان اسے مسکرا کر دیکھتا لیکن جیسے ہی وہ وِکی اس کے سامنے سے ہٹ جاتا ، شیطان کا ، اس کے بارے میں غصہ پھر سے عود آتا ۔ اس نے زور دے کر بیوی سے کہا ؛
” جب تک یہ لڑکا یہاں ہے ، ہم امن اور سکون سے نہیں رہ سکتے !“
” اچھا تو ٹھیک ہے ۔“ ، اس کی بیوی بولی ، ” اگر تم ایسا ہی محسوس کرتے ہو تو تم اس وقت ، جب وہ سو رہا ہو ، اسے مار کیوں نہیں دیتے ؟ ہم اس کی لاش دریا میں پھینک آئیں گے اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا ۔“
” یہ ایک اچھا خیال ہے !“ ، شیطان نے جواب دیا ، ” تم مجھے رات کے تیسرے پہر اٹھا دینا اور میں ایسا ہی کروں گا ۔“
وِکی نے ان کی باتیں سن لی تھیں ، وہ لہذٰا اس رات جاگتا رہا ۔ اس نے جب ، شیطان اور اس کی بیوی کے خراٹوں سے اندازہ لگایا کہ وہ گہری نیند سو چکے تھے تو وہ اٹھا ، ان کے بستر کے پاس گیا اور شیطان کی بیوی کو جگائے بغیر اسے آرام سے بازوﺅں پر اٹھایا اور لا کر اپنے بستر پر لٹا دیا ۔ اس نے پھر اس کے کپڑے پہنے اور خود شیطان کے پہلو میں لیٹ گیا ۔ پھر اس نے شیطان کو جگایا ۔
” تم کیا چاہتی ہو ؟“ ، شیطان نیند میں بُڑبُڑایا ۔
”ہش !“ ، وِکی نے سرگوشی کی ، ” کیا ہمارے اٹھنے کا اور وِکی کو مارنے کا وقت نہیں ہو گیا ؟“
” ہاں ۔“ ، شیطان نے جواب دیا ، ” ہاں ہو گیا ہے ۔ آﺅ چلیں ۔“
وہ خاموشی سے اٹھے ۔ شیطان نے دیوار پر سے ایک بڑی تلوار اتاری ۔ وہ پنجوں کے بل چلتے وِکی کے بستر کی جانب بڑھے اور پھر شیطان نے ایک ہی وار میں اپنی بیوی کا سر تن سے جدا کر دیا جو وِکی کے بستر میں لیٹی سو رہی تھی ۔
” اب چلو ۔“ ، وہ بولا ، ” ہم اسے پلنگ سمیت اٹھاتے ہیں اور جھیل میں پھینک آتے ہیں ۔“
وِکی نے پلنگ کو ایک طرف سے پکڑا اور شیطان نے دوسری طرف سے ۔ وہ اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتے کیچڑ میں پھسلتے ہوئے دریا تک پہنچے اور لاش کو پلنگ سمیت دریا برد کر دیا ۔
” ایک اچھا کام انجام پا گیا ۔ “ ، شیطان نے ہنستے ہوئے کہا ۔
وہ دریا سے لوٹے اور بستر میں جا گھسے ۔ شیطان فوراً ہی سو گیا ۔
اگلی صبح جب شیطان ناشتے کے لیے جاگا تو اس نے دیکھا کہ وِکی دلیہ بنا تے ہوئے پتیلی میں چمچ ہلا رہا تھا ۔
” تم یہاں ۔ ۔ ۔ کیسے پہنچے ؟“ ، شیطان نے پوچھا ، ”میرا مطلب ہے ۔ ۔ ۔ میرا مطلب ہے کہ میری بیوی کہاں ہے ؟ “
” آپ کی بیوی ؟ کیا آپ کو یاد نہیں !“ ، وِکی نے کہا ، ” آپ نے کل رات ان کا گلا کاٹ ڈالا تھا اور پھر ہم انہیں بستر ، پلنگ سمیت دریا میں پھینک آئے تھے ! تاکہ کسی کو پتہ ہی نہ چلے ۔“
” کیا !“ ، شیطان چِلایا اور وہ انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے ، غصے میں آپے سے باہر ہونے ہی والا تھا کہ وِکی نے اسے روکتے ہوئے کہا؛
” مالک ، اب جبکہ یہ ہو چکا ہے تو مری ہوئی بیوی جیسی ننھی سی بات پر خود میں غصہ نہ بھریں ، یا کیا آپ آپے سے باہر ہو رہے ہیں ؟ معاہدے کا تو خیال کریں ۔“
یوں شیطان کو ایک بار اور اپنا غصہ ضبط کرنے پر مجبور ہونا پڑا ۔
” نہیں ،میں غصے سے نہیں بھڑک رہا ۔“ اس نے کہا ، ” لیکن وِکی ، میں تمہیں صاف صاف یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ تم نے میرے ساتھ جو چال کھیلی ہے وہ اچھی نہیں تھی !“
شیطان کو گھر میں بیوی نہ ہونے کی وجہ سے تنہائی محسوس ہونے لگی اور کچھ دنوں بعد اس نے فیصلہ کیا کہ وہ باہر جائے اور اپنے لیے نئی بیوی تلاش کرے ۔
” اور وِکی تم ، “ ، اس نے کہا ، ” میں توقع کروں گا کہ جب میں گھر سے دور ہوں گا تو تم خود کو مصروف رکھو گے ۔ یہاں ایک لال روغن کا پیپا پڑا ہے ۔ اسے لو اور اپنا کام شروع کرو اور جب تک میں واپس آﺅں تو یہ سارا مکان لال روغن سے بھڑک رہا ہو ۔ “
”سب کچھ بھڑکیلا لال “، وِکی نے دہرایا ، ” بہت بہتر مالک ، مجھ پر اعتماد کریں ۔ آپ جب واپس آئیں گے تو یہ سب بھڑکیلا لال ہی ہو گا ۔ آپ بے فکر ہو جائیں ! “
جیسے ہی شیطان گھر سے نکلا ، وِکی نے گھر کو آگ لگا دی اور کچھ ہی دیر میں شعلوں کی لال دمک سے سارا آسمان روشن ہو گیا ۔ شیطان آسمان پر لال دمک دیکھ کر بری طرح خوفزدہ ہوا اور جلدی سے گھر واپس پہنچا ۔ اس نے دیکھا کہ پورا مکان آگ کا بگولا بنا ہوا تھا ۔
” مالک ، آپ نے دیکھا ، “ وِکی نے کہا ، ” میں نے ویسا ہی کر ڈالا ، جیسا کہ آپ نے کہا تھا ۔ یہ بہت اچھا نظارہ پیش کر رہا ہے ، ایسا نہیں ہے کیا ؟ مالک ۔“
شیطان کو اتنا غصہ چڑھا کہ اس کا دم گھٹنے لگا ۔
” تم ۔ ۔ ۔ تم ۔ ۔ ۔“، وہ بولنا شروع ہی ہوا تھا کہ وِکی نے اسے یہ کہتے ہوئے روک دیا :
” مالک ، اب آپ مکان کو لگی آگ جیسی چھوٹی سی بات کو دل پر مت لیں اور تاﺅ نہ کھائیں ، یا آپ ایسا کریں گے ؟ ذرا سمجھوتے کو ذہن میں رکھیں !“
شیطان نے بڑی مشکل سے ضبط کیا اور کہا :
” نہیں ۔ ۔ ۔ نہیں میں غصے میں نہیں ہوں ، لیکن وِکی مجھے کہنا پڑ رہا ہے میں تم سے کچھ زیادہ خوش نہیں ہوں ! “
اگلے روز شیطان پھر سے نئی بیوی کی تلاش میں جانا چاہتا تھا ۔ اس نے گھر سے نکلنے سے پہلے وِکی سے کہا :
” دیکھو اس بار کوئی گڑبڑ نہیں ہونی چاہیے ! جب میں یہاں سے چلا جاﺅں تو تم اس دریا پر تین پُل تعمیر کرو گے لیکن تم اس کے لیے لکڑی ، پتھر ، لوہا یا مٹی استعمال نہیں کرو گے ۔ سمجھے؟“
وِکی نے ایسی شکل بنائی جیسے شیطان کی بات سن کر ڈر سا گیا ہو ۔
”مالک ، آپ نے تو مجھے خاصا مشکل کام سونپ دیا ہے !“
” یہ مشکل ہے یا آسان لیکن یہ میرے آنے تک مکمل ہونا چاہیے ۔“، شیطان نے کہا ۔
وِکی شیطان کے جانے کا منتظر رہا اور جب وہ چلا گیا تو وہ مویشیوں کے باڑے میں گیا اور شیطان کے سارے مویشی کاٹ ڈالے ۔ اس نے ان کی ہڈیوں سے دریا پر تین پُل کھڑے کیے ؛ ایک میں اس نے کھوپڑیاں استعمال کیں ، دوسرے میں پسلیوں کی ہڈیاں جبکہ تیسرے میں ٹانگوں کی ہڈیاں اور کُھر برتے ۔ ۔ ۔ اور جب شیطان واپس آیا تو وِکی اس سے ملا اور پلوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ؛
” مالک ، دیکھیں ، وہ سامنے ہیں ۔ تین پل جن میں نہ تو لکڑیاں برتی گئی ہیں ، نہ پتھر، نہ لوہا اور ہی مٹی کا گارا !“
اور جب شیطان نے یہ جانا کہ وِکی نے پلوں کے واسطے ہڈیاں حاصل کرنے کے لیے اس کے سارے مویشی مار ڈالے تھے تو وہ غصے سے اتنا پاگل ہوا کہ اس کا دل چاہا کہ وہ وِکی کو قتل کر دے ۔ لیکن وِکی نے اسے یہ کہتے ہوئے چُپ کرا دیا :
” مالک ، اب دیکھیں نا آپ چند جانوروں کی ہلاکت والی چھوٹی سی بات پر تاﺅ تو مت کھائیں ۔ یا آپ غصے سے بھڑک اٹھو گے ؟ معاہدہ یاد رکھیں۔“
ایک بار پھر ایسا ہوا کہ شیطان کو غصہ پینا پڑا ۔
” نہیں “ ، اس نے کہا ، ” میں غصہ نہیں کھا رہا لیکن وِکی میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرے خیال میں تمہارے کام ٹھیک نہیں ہیں !“
اور پھر ایک روز شیطان نئی بیوی تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا اور اسے ساتھ لیے گھر آیا ۔ نئی بیوی وِکی کو اس گھر میں دیکھنا نہیں چاہتی تھی اس لیے اس نے شیطان سے وعدہ کیا کہ وہ لڑکے کو مار ڈالے گا ۔
”میں یہ کام آج رات کروں گا ۔“ ، اس نے کہا ، ” جب وہ سو رہا ہو گا ۔“
وِکی نے شیطان کی بات سن لی اور اس رات ، اس نے مکھن نکالنے والی مٹکی اور مدانی اپنے بستر میں غلاف کے نیچے چھپا دی اور جہاں اس کا سر عام طور پر دھرا رہتا تھا وہاں ایک بڑا گو ل پتھر رکھ دیا اور خود آتش دان کی طرف لڑھک کر آرام کی نیند سو گیا ۔
رات میں شیطان نے اپنی بڑی تلوار دیوار سے اتاری اور وِکی کے بستر کی جانب گیا ۔ اس کی تلوار کا پہلا وار گول پتھر پر پڑا جس نے تلوار میں دندانے ڈال دئیے ۔ دوسرے وار پر اس سے چنگاریاں پھوٹیں ۔
” مجھ پر رحم ہو ! “ ، شیطان نے سوچا ، ”اس کا سر تو بہت ہی سخت ہے! مجھے ذرا نیچے وار کرنا چاہیے ۔ “
اس کا تیسرا زور دار وار مٹکی پر پڑا ، اس کے کنارے ٹوٹے اور مٹکی پچک گئی ۔
شیطان قہقہے لگاتا اپنے بستر کی طرف لوٹ گیا ۔
” ہا ہا ہا “، اس نے فخر سے بیوی کو کہا ، ” اس بار میں نے اسے مار ہی دیا ہے !“
لیکن اگلی صبح جب شیطان جاگا تو وہ ہنسنا بھول گیا کیونکہ وِکی زندہ سلامت اس کے سامنے تھا اور ایسے ظاہر کر رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو ۔
” کیا ! “ شیطان حیرانی سے چلایا ، ” کل رات جب تم سو رہے تھے تو تمہیں یہ پتہ نہ چلا کہ تم سے کوئی شے بار بار ٹکرائی تھی ؟“
” اوہ ، ہاں مالک ، مجھے لگا تھا جیسے میرے گال پر کچھ مچھر رینگ رہے ہوں ۔“ ، وِکی نے جواب دیا ، ” اس کے سوا مجھے اور کچھ محسوس نہیں ہوا ۔“
” فولاد اس پر اثر نہیں کرتا ! “، شیطان نے اپنی بیوی سے کہا ، ” میرا خیال ہے کہ میں اس پر آگ کا استعمال کروں ۔“
شیطان نے ، چنانچہ ، اس رات وِکی کو بھوسے والے باڑے میں سونے کا حکم دیا ۔ وِکی نے اپنی کھٹیا اٹھائی اور باڑے میں جا بچھائی ۔ اور جب اندھیرا چھا گیا تو اس نے اسے اٹھایا اور غلے والے باڑے میں لے گیا ۔ وہ ساری رات آرام سے سوتا رہا ۔ رات میں شیطان نے بھوسے والے باڑے میں آگ لگا دی ۔ صبح ہونے سے ذرا قبل وِکی نے اپنی کھٹیا دوبارہ بھوسے والے باڑے میں جا بچھائی اور منہ لپیٹ کر سو گیا ۔صبح ہونے پر جب شیطان باہر آیا تو اس نے وِکی کو جلے ہوئے اور کھنڈر ہوئے بھوسے والے باڑے میں آرام سے سوتے دیکھا ۔ وہ صحیح سلامت تھا اور آگ نے اسے چھوا تک نہ تھا ۔
” مجھ پر رحم ہو ، وِکی !“ ، وہ چلایا اور اسے جھنجھوڑ کر جگانے لگا ، ” کیا تم ساری رات سوئے رہے ہو ؟“
” وِکی اٹھ کر بیٹھا اور اس نے ایک بڑی جمائی لی ۔
” ہاں مالک ، میں رات بھر اچھی نیند سویا ۔ لیکن مجھے ہلکی سی ٹھنڈ لگتی رہی ۔“
” ٹھنڈ ! “ ، شیطان خود کپکپا کر رہ گیا ۔
اس کے بعد شیطان نے ٹھانی کہ جیسے بھی ہو وِکی سے چھٹکارا حاصل کیا جائے ۔
” یہ لڑکا تو میرے سر پر سوار ہو گیا ہے !“ ، اس نے اپنی بیوی سے کہا ، ” اب میں اسے دیکھنا بھی نہیں چاہتا ! ہمیں اس کے بارے میں کیا کرنا چاہیے ؟“
انہوں نے آپس میں پہلے ایک منصوبہ بنایا ، پھر دوسرا اور پھر بالآخر یہ فیصلہ کیا کہ اس لڑکے سے جان چھڑانے کا ایک ہی راستہ بچا تھا کہ وہ وِکی کو وہیں چھوڑ خود کہیں اور چلے جائیں ۔
” میں اسے جنگل میں بھیجوں گا اور اسے کہوں گا کہ وہ سارا دن وہاں لکڑیاں کاٹے۔“ ، شیطان نے کہا ، ” اور جب وہ جنگل میں چلا جائے گا تو ہم اپنا سارا سامان لیے کشتی کے ذریعے کسی جزیرے پر چلے جائیں گے اور جب وہ واپس آئے گا تو اسے پتہ بھی نہ ہو گا کہ ہم کہاں گئے ۔“
وِکی نے اُن کی یہ تدبیر بھی سن لی اور دوسرے روز جب شیطان اور اس کی بیوی کو پکا یقین ہو گیا کہ وہ جنگل میں لکڑیاں کاٹنے میں مصروف ہے تو وِکی چپکے سے لوٹا اور اس نے خود کو بستروں کے غلافوں اور چادروں کے گٹھر میں چھپا لیا ۔
وہ دونوں جب جزیرے پر پہنچے اور انہوں نے اپنا سامان کھولنا شروع کیا تو انہوں نے وِکی کو بستر کے غلافوں اور چادروںمیں لپٹا پایا !
شیطان کی بیوی نے تلخ ہو کر اس سے گلہ کیا ۔
” اگر تم سچ میں مجھ سے پیار کرتے ہو ۔ “، اس نے کہا ، ” تو تم فوراً ہی اس لڑکے کا سر قلم کر دو ۔“
” میں اس کی کوشش پہلے کر چکا ہوں ۔“ ، شیطان نے کہا ، ” اور مجھے پتہ ہے کہ میں اسے کبھی بھی نہیں مار سکوں گا ۔ یہ لڑکا تو ہم پر اس طرح چھایا ہوا ہے جیسے دنیا پر کسی وباء کا سایہ پھیلا ہو ! میں نے اس سے پہلے بھی بہت سے بچے دیکھے ہیں لیکن وِکی جیسے بچے نے مجھ سے پہلی بار یوں ٹَکر لی ہے ۔ یہ تو مجھ سے بھی چار ہاتھ بڑھ کے ہے !“
شیطان کی بیوی پھر بھی شیطان سے ناراض ہی رہی ۔ آخر تنگ آ کر اس نے بیوی کو یقین دلایا کہ وہ ایک بار اور کوشش کرے گا تاکہ وِکی کی گردن مار سکے ۔
” ٹھیک ہے ۔“ ، اس کی بیوی نے کہا ، ” آج رات جب وہ سو جائے گا تو میں تمہیں اٹھا دوں گی ۔“
سامان باندھنے ، سفر کرنے اور پھر سامان کھولنے کی وجہ سے شیطان کی بیوی خود بری طرح تھک چکی تھی اس لیے وہ لیٹتے ہی سو گئی ۔ یوں وِکی کو پھر سے ایک موقع مل گیا کہ وہ شیطان کی نئی بیوی کے ساتھ بھی وہی سلوک کر سکے جو اس نے پہلی والی کے ساتھ کیا تھا ۔اُس نے اسے جگائے بِنا بازوﺅں پر اٹھایا اور اسے لے جا کر اپنے بستر پر لٹا دیا اور خود شیطان کے ساتھ جا کر لیٹ گیا ۔ ۔ ۔ وِکی نے شیطان کو جگایا اور اسے یاد دلایا کہ اس نے وِکی کا سر کاٹنے کا وعدہ کیا تھا ۔
بیچارہ بوڑھا شیطان اٹھا اور وِکی کے بستر کی طرف گیا اور اس نے اپنی نئی بیوی کا سر بھی قلم کر دیا ۔
اگلی صبح جب اسے پتہ چلا کہ رات میں اس سے کیا حرکت سرزد ہوئی تھی ، تو وہ غصے سے پوری طرح بھڑک اٹھا ۔
”وِکی ! تم فوراً یہاں سے نکل جاﺅ ۔“ وہ دھاڑا ، ” میں دوبارہ تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا !“
” لیکن ، مالک ! “ ، وِکی نے کہا ، ” آپ مری ہوئی بیوی جیسی چھوٹی سی بات پر کیونکر آپے سے باہر ہو سکتے ہیں ؟ یا آپ ہو رہے ہیں ؟ “
” ہاں میں غصے سے بھڑک رہا ہوں ! “ شیطان چِلایا ، ” اور یہ چھوٹی بات نہیں ہے ! میں اپنی نئی بیوی کو پسند کرتا تھا ، وہ مجھے اچھی لگتی تھی اور مجھے نہیں پتہ کہ مجھے ایک اور بیوی مل پائے گی یا نہیں ۔ اس لیے تم اپنی چیزیں سمیٹو اور یہاں سے دفعہ ہو جاﺅ اور یہ کہ جلدی کرو ۔“
” ٹھیک ہے مالک ! “، وِکی نے کہا ، ” میں چلا جاﺅں گا لیکن پہلے آپ نے مجھے وہ ادا کرنا ہے جو میرا حق ہے ۔“
” میں نے تمہیں کیا دینا ہے !“ ، شیطان دھاڑا ، ” تمہارا اپنے بارے میں کیا خیال ہے ۔ تم نے میرے گھر ، میرے مویشی ، میری پہلی بیوی اور دوسری پیاری سی بیوی چھین لی اور ساری تباہی جو تم نے پھیلائی ، ان سب کی قیمت چکانی ہے ۔“
” آپ غصہ کھا چکے ہیں اور آپے سے باہر ہو رہے ہیں ۔ “ ، وِکی نے کہا ، ” اور اب آپ کو مجھے اپنی چمڑی کا ایک ٹکڑا ۔ ۔ ۔ ایک اتنا بڑا ٹکڑا دینا ہے جس سے جوتوں کے جوڑے کے تَلے بن سکیں ۔ ہم میں یہی سودا طے ہوا تھا ۔“
شیطان پہلے تو دھاڑا ، وِکی کو ڈرایا دھمکایا ، پھر منت سماجت کی ، وہ رویا اور اس نے آسمان سر پر اٹھا لیا لیکن وِکی ڈٹا رہا اور وہ ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹا ۔ ۔ ۔ بالآخر شیطان نے وِکی کو اپنی کمر سے کھال کا ایک بڑا ٹکڑا اتارنے دیا ۔
شیطان کی چمڑی سے جوتوں کے تَلے اتنے عمدہ بنے ، کہ پہلے اس طرح کے تَلے کبھی نہ بنے تھے ۔ یہ سال ہا سال پائیداری سے چلتے رہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وِکی اب بھی ان تَلوں والے جوتوں میں ہی گھومتا پھرتا ہے ۔ ان تَلوں کی شہرت ہر سو ایسی پھیلی گئی ۔ لوگ وِکی کو دیکھ کرسڑک پر چلتے چلتے رک جاتے ہیں اور اس کے جوتوں کےتَلوں کو تکنے لگتے ہیں ۔ دوسرے ملکوں کے لوگ وِکی کے گاﺅں میں اِن جوتوں کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں اور وہ جب وِکی کے جوتے دیکھتے ہیں تو ان کے منہ پر ایک ہی سوال ہوتا ہے ؛
” ہمیں بتاﺅ ۔“ ، وہ پوچھتے ہیں ، ” تم نے اس کی ۔ ۔ ۔ مطلب شیطان کی چمڑی کیسے حاصل کی ؟“
یہ سن کر وِکی پہلے تو ہنستا ہے پھر اس کا جواب سب کے لیے ایک ہی ہوتا ہے ؛
” میں اسے اس لیے حاصل کر پایا کیونکہ میں کبھی غصے سے بھڑک کر آپے سے باہر نہیں ہوا تھا !“
جہاں تک شیطان کا تعلق ہے اس نے کبھی بھی کسی بھی بچے سے دوبارہ شرط نہیں لگائی ۔
٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...