خالد اسکول کا ہوم ورک کرکے کھانے سے فارغ ہوکرلیٹنے کیلئے بستر پر پہنچ چکا تھا کہ اچانک ماں کی آواز آئی! بیٹے ! ابھی مت سونا تھوڑا انتظار کرلو تمہیں آج بہترین کہانی سناؤں گی، کہانی کا نام سن کر خالد کی نیند اڑ گئی اب وہ بے صبری سے انتظار کرنے لگا، ادھر ماں نماز سے فارغ ہو کر ہاتھ میں دودھ کا گلاس لئے خالد کے پاس پہنچ گئی ، ماں نے دودھ کا گلاس خالد کے ہاتھ میں تھمایا اور کہا۔۔ لو بیٹا۔ بسم اللہ کر کے پیو۔۔دودھ سے فارغ ہونے کے بعد ماں نے ایک سچی کہانی شروع کی،
بہت دنوں پہلے کی بات ہے ایک نوجوان تھا، اس کو پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا ، والدین بھی اس کی پڑھائی میں دلچسپی دیکھ کر بہت متاثر تھے لیکن والدین کے پاس اتنا پیسہ نہیں تھا جس سے اس کی تعلیم کا بند و بست کر سکیں ، ایک دن کا ذکر ہے کہ اس کے والد کھیت میں کام کررہے تھے والدہ بھی ساتھ تھی اچانک دل میں خیال آیا کہ جیسے بھی ہو ہم اپنے بیٹے کو تعلیم سے آراستہ کریں گے، چنانچہ والد صاحب نے خدا پر بھروسہ کرکے اپنے لڑکے کو گاؤں سے دور ایک شہر میں پڑھنے کیلئے بھیج دیا، اس وقت والد صاحب کے پاس صرف چالیس دینار تھے اسی چالیس دینار میں گھر کا خرچ بھی وابستہ تھا لیکن والدین نے دل پر پتھر رکھ کر اور خود کو فاقہ میں دھکیل کر اپنے بیٹے کی تعلیم میں لگا دیا،
جب لڑکا جانے لگا تو اس کی والدہ نے چالیس دینار کو اس کے کپڑے کے ایک کونے میں سل دیا تاکہ کوئی خطرہ نہ ہو، ادھر والد صاحب نے ایک نصیحت کی کہ۔۔ بیٹا۔۔ جو کچھ بھی ہو جائے لیکن کبھی جھوٹ مت بولنا۔۔
اب وہ لڑکا سفر پر نکل چکا ہے ، اس زمانہ میں ڈاکوؤں کا بڑا زور تھا ، اتفاق سے جس سواری پر وہ لڑکا بیٹھا تھا اس میں ڈاکوؤں کی ایک جماعت بھی تھی، جب ڈاکوؤں کے سردار نے اس لڑکے کو صاف ستھرے لباس میں دیکھا تو اس کی نیت خراب ہوگئی اور اس لڑکے کے قریب آکر بیٹھ گیا، اور غصہ سے کہا،
بتاؤ تمہارے پاس کتنے روپے ہیں، لڑکا حیران ہوگیا کہ اب میں کیا کروں یہ ڈاکو میرے پیچھے پڑ گئے ہیں یہ تو مجھے برباد کر کے ہی چھوڑیں گے ،
اچانک اس لڑکے کو والد صاحب کی نصیحت یاد آگئی، اور اس نے یہ ٹھان لیا کہ جو کچھ بھی ہو جائے والد صاحب کی نصیحت پر عمل کرنا ہے،
فوراً جواب دیا میرے پاس صرف چالیس دینار ہیں۔۔
ڈاکؤں کے سردار نے کہا وہ ہمارے حوالے کرو،،
لڑکے نے جواب دیا ۔۔ وہ دینار میرے کپڑے میں سلے ہوئے ہیں ۔۔
وہ سردار سکتہ میں آگیا۔۔ خیر۔۔ اس نے اپنے ایک ساتھی سے کہا ۔ دیکھو اس نے کہاں چھپا کر رکھا ہے ڈھونڈ کر میرے حوالے کرو،۔ جیسے ہی اس ڈاکو نے کپڑے کے اس مقام کی تلاشی لی جہاں دینار سلا گیا تھا تو سچ مچ دینار وہاں موجود تھا ، اس نے دینار لے کر اپنے مالک کے حوالہ کر دیا،
اب مالک بھی حیران تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے ، آخر اس لڑکے نے ہمیں سب کچھ سچ بتادیا چنانچہ وہ سردار اس لڑکے کے پاس گیا اور کہا۔ بتاؤ۔ لڑکے۔ کیا ماجرا ہے،
تمہارے پاس فقط اتنے ہی دینار تھے اور تمہیں ابھی کافی سفر طے کرنا ہے اس کی تمہیں سخت ضرورت ہے، پھر تم نے جان بوجھ کر اس کو میرے حوالے کیوں کیا،
لڑکے نے جو جواب دیا اس سے سردار سمیت تمام ڈاکوؤں کی زندگیاں بدل گئیں،۔ لڑکے نے کہا، تم لوگ مجھ سے دینار حوالہ کی وجوہات پوچھ رہے ہو تو سنو،
جب میں گھر سے نکلا تو میرے والد صاحب نے کہا۔ بیٹے جو کچھ بھی ہو جائے لیکن کبھی جھوٹ مت بولنا بلکہ ہمیشہ سچ ہی کو ترجیح دینا، میں نے اپنے والد صاحب کی نصیحت پر عمل کی اور سب کچھ تمہیں بتا دیا،
یہ سن کر تمام ڈاکو آبدیدہ ہوگئے اور لڑکے کی سچائی سے متاثر ہو کر سب ڈاکوؤں نے توبہ کر لی اور مشرف باسلام ہوگئے،
اب ماں نے خالد کو نصیحت کی۔ بیٹا یہ واقعہ جو میں نے آپ کو سنایا اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیشہ سچ بھولو کیوں کہ سچ ہر بلا سے بچاتی ہے اور جھوٹ یہ ایسی بلا ہے کہ انسان ہمیشہ ذلیل وخوار ہوجاتا ہے،
خالد کیا تم جانتے ہو کہ وہ سچ بولنے والا لڑکا اگے چل کر کیا بنا؟ خالد کا جواب نفی میں تھا،
ماں نے کہا وہ ایک صاحب حیثیت بزگ اور اللہ کا ولی بنا، جس کو دنیا شیخ عبدالقادر جیلانی کے نام سے جانتی ہے،
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...