عامراداس بیٹھا تھا آج بھی اس کی فیس جمع نہیں ہو پاٸ تھی ابا آج بھی کام پر نہیں گۓ تھے کام نہیں تو پیسہ نہیں۔روز کی محنت مزد وری کرنے و الے بے چارے ابا۔۔ا
امی نے پوچھا
پیسہ نہ ملا تو عامر کی فیس کیسے جمع ہوگی ؟ فیس نہ جمع ہوٸی تو اس کانام کٹ جاۓ گا میرے بچے کے خواب ادھورے رہ جاٸیں گے۔۔۔امی یہ کہتے کہتے رو نے لگیں۔عامر امی کے آنسو نہ دیکھ سکا اٹھکر دادی کے کمرے میں چلا آیا ا س چھوٹے سے کمرے میں اس کی پیا ری دادی رہا کرتی تھیں محبت سے بھری دادی کتنا پیار کرتی تھیں اسے ذرابھی اداس دیکھا ۔۔۔میرا بچہ۔۔۔کہکر گودی میں بھر لیا۔
کیوں میرا چاند چپ کیوں ہے ؟
وہ دادی کی گود میں کتنا سکون پا تا تھا۔دادی کی مہک اسے کتنی اچھی لگتی تھی مگر آج دای نہی تھیں۔دادی ایک روز سو ٸیں تو ابا کے لاکھ پکارنے پر بھی نہیں اٹھیں۔آہ کیسا تھا وہ دن۔دادی پلنگ پر لیٹی سفید چادر اوڑھے چار آدمیوں کے کندھوں پرایسا گٸیں کہ پھر واپس نہیں آٸیں وہ روتارہا دادی پکارتا رہا دادی چلی گٸیں مگر ان کا بستر اور تکیہ ابّا نے دھو سکھا کے ان کے پلنگ پر لگا دیا تھا ایسا لگتا تھا دادی نماز پڑھکر اٹھیں گی اور یا اللہ کہکر اپنے بسترپر بیٹھنے کے بعد آوز دیں گی
عمو بیٹے ایک گلاس پا نی پلادے حلق نامراد سوکھاجاتاہے۔
دادی کی نرم نرم آواز اسکے کانوں میں گونجنے لگی تھمے ہوۓ آنسو پھر بہنے لگے وہ پلنگ پر چڑھ کر بیٹھا پھر لیٹ گیا دادی کا تکیہ اس کے سر کے نیچے دباتھا دھلنے کے بعد بھی تکیےسے دادی کے چمیلی کے تیل کی مہک اٹھ رہی تھی وہ تکیے پر ہاتھ بھی پھیرتا رہا اور روتا بھی رہا اچانک کچھ ایسا لگا اس کے ہاتھ کسی سخت اور گول گول چیز سے ٹکرا رہا ہے وہ چونک کر تکیہ ٹٹولنے لگا پھر اٹھکے بیٹھا اور تکیہ اپنے گھٹنوں پر رکھکر دبانے لگا وہ کوٸی ایک گول سی چیز نہیں تھی کٸی سکہ نما چیزیں ا س کی انگلیوں سے ٹکرا رہی تھیں اس نے امی کو آواز دی
امی امی جلدی سے آییے دیکھیے تو دادی کے تکیے میں کیا رکھا ہے
امی کے ساتھ ابا بھی آگۓ اور انھوں نے حیرا نی سے کہا
ہاں ا س روز جب میں اماں کا تکیہ دھو رہا تھا تب مجھے بھی لگا تھا اس میں کچھ ہے۔۔۔۔
یہ کہہ کر انھوں نے عامر کے ہاتھ سے تکیہ لیا اور اس کا قالب یعنی اس پر چڑھا کپڑاپھاڑ دیا کپڑا پھٹتے ہی معجزہ سا ہو گیا روٸی کے ساتھ سکے گرنے لگے چھن چھن چھن ڈھیر لگ گیا
سکوں کا ابا نے آنسو بھر ی آنکھوں کے ساتھ کہا
میں روز کاغذ کے نوٹ اپنے پاس رکھکر سکے اماں کو دے یا کر تا تھا میری ما ں نے یہ پیسہ خود نہ خرچ کر کے جمع کرلیا اور ہمارے لییے گویا خزانہ چھوڑ گٸیں یہ کہہ کر ابا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے تو عامر ان سے لپٹ گیا
میری دادی کتنی اچھی تھیں میری اسکول کی فیس جمع کرگٸیں اب آپ پریشان نہ ہوں ابا نہ آنسو بہاٸیں داد ی ہمیں خوش دیکھ کر خوش ہو رہی ہونگی۔۔۔۔یہ کہکر وہ خود بھی رونے لگا مگر یہ خوشی کے آنسو تھے۔۔۔
“