" کہانیاں دوہرائی نہ جاتیں تو یہ کب کی ختم ہو چکی ہوتیں "
ادب اطفال ۔ ۴
بخیل جادوگر
(ڈینش لوک ادب سے ماخوذ )
ری ٹولڈ بائی : قیصر نذیر خاورؔ
یہ قصہ شمالی یورپ کے نارڈک ممالک میں سے ایک کا ہے ۔ یہ ڈنمارک کے قصبے ’ جیلنگ ‘ کے ایک لڑکے کا ہے جو صدیوں پہلے بادشاہ گورم کے زمانے میں ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا ۔ وہ پڑھائی میں بہت تیز تھا اور اُسے کتابوں کے مطالعے سے بہت خوشی ملتی تھی ۔گھر کے نا مساِعد حالات کے باعث اسے ثانوی سکول میں جانے کی بجائے نوکری کرنے کے لیے گھر سے باہر نکلنا پڑا ۔ وہ روز صبح کام کی تلاش میں باہر جاتا لیکن شام کو نامراد لوٹتا ۔
ایک روز وہ ایک ایسے راستے پر جا رہا تھا جس کے اطراف میں ٹیلے اور چٹانیں تھیں ۔ اسے وہاں ایک آدمی ملا جس نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں جا رہا تھا ۔
”میں نوکری کی تلاش میں نکلا ہوں ۔“ ، لڑکے نے جواب دیا ۔
”کیا تم میرے لیے کام کرو گے ؟“ ، آدمی نے پوچھا ۔
” بالکل ، میں کروں گا ۔“ ، لڑکے نے جواب دیا ۔
” کیا تم پڑھنا لکھنا جانتے ہو ؟“، آدمی نے سوال کیا ۔
” میں اتنا پڑھنا لکھنا جانتا ہوں جتنا کہ ہمارے گاﺅں کے ابتدائی سکول کا واحد استاد ۔“
” اچھا ، پھر تو میں تمہیں نہیں رکھ سکتا ۔ “ ، آدمی نے جواب دیا ، ” اصل بات یہ ہے کہ مجھے ایسے ملازم کی تلاش ہے جو اَن پڑھ ہو ۔ ۔ ۔ اور وہ میرے کتب خانے کے قدیمی قلمی نسخوں اور کتابوں کی جھاڑ پونچھ کر سکے اور ان پر گرد نہ جمنے دے ۔“
یہ کہہ کر وہ آدمی وہاں سے چل دیا اور لڑکا اسے حیرانی سے دیکھنے لگا ۔ یہ آدمی اصل میں ایک جادوگر تھا جو نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اس کی کتابیں پڑھ کر وہ سب جادوگری جان لے جو اس نے یہ کتابیں بڑھ کر خود سیکھی تھی ۔
” یہ بات کتنی افسوسناک ہے کہ مجھے یہ کام نہ مل سکا ۔“ ، لڑکے نے سوچا ، ” میرے لیے یہی کام تو سب سے بہتر تھا ۔ مجھے ایک کوشش اور کرکے دیکھنی چاہیے تاکہ یہ کام مجھے مل سکے ۔ “
وہ ایک ٹیلے کی اوٹ میں گیا اور اس نے اپنے لمبے لبادے کو الٹایا اور پہن لیا ۔ اس نے مفلر بھی الٹا اور اس سے اپنا آدھا چہرہ چھپایا ۔ اس کا خیال تھا کہ یوں وہ آدمی اسے آسانی سے پہچان نہ پائے گا ۔ وہ ٹیلوں کی اوٹ میں تیزی سے بھاگا اور کچھ دور جا کر پھر سے سڑک پر اسی آدمی کے سامنے نمودار ہوا ۔
” لڑکے ، تم کہاں جا رہے ہو ؟ “ ، آدمی نے اس سے پوچھا ۔اس نے یہ غور ہی نہ کیا کہ یہ وہی لڑکا تھا جس سے وہ پہلے بھی مل چکا تھا ۔
” میں کام کی تلاش میں نکلا ہوں ۔“ ، لڑکے نے کہا ۔
” کیا تم میرے لیے کام کرو گے ؟“ ، آدمی نے پوچھا ۔
” کیوں نہیں جناب ، اگر آپ مجھے مناسب معاوضہ دیں گے ۔ ویسے کام کیا کرنا ہو گا ۔“
” یہ تو میں تمہیں بعد میں بتاتا ہوں ۔ تم پہلے مجھے یہ بتاﺅ کہ کیا تم پڑھنا لکھنا جانتے ہو ؟“
” نہیں جناب ، میں تو اَن پڑھ ہوں اور میں لکھنا تو کیا ایک حرف بھی نہیں پڑھ سکتا ۔“
” مجھے ایسے ہی ملازم کی تلاش تھی ، جو میرے کتب خانے میں جھاڑ پونچھ کا کام کر سکے اور قلمی نسخوں اور کتابوں پر گرد نہ جمنے دے ۔ میں تمہیں اچھا لباس پہننے اور اچھا کھانا کھانے کو دوں گا اور ساتھ میں پچاس کرونا ۔ پر دھیان رہے کہ مجھے اپنے کتب خانے میں کوئی کتاب گردآلود نظر نہ آئے ۔“
”مجھے منظور ہے جناب ۔ “ ، لڑکا خوش ہو کر بولا اور دل میں سوچا کہ یہ شخص مجھے اگر کوئی معاوضہ بھی نہ دیتا ، تب بھی یہ ملازمت ہی میرے لیے مناسب تھی ۔
آدمی لڑکے کو لیے جنگل کی طرف روانہ ہوا اور پھر اپنے مکان پر پہنچا جو جنگل کے بیچوں بیچ ایک پہاڑ کی چوٹی پر تھا ۔
لڑکے نے دل لگا کر کتب خانہ صاف کیا ، کتابوں سے گرد جھاڑی ۔ پہلی بار کی ہی صفائی میں اسے اندازہ ہو گیا کہ اس کتب خانے میں تو جادوئی علم کا ایک بڑا خزانہ موجود تھا ۔ بعد میں صفائی اور جھاڑ پونچھ کا عمل دن میں دو تین گھنٹے ہی لیتا اور لڑکا باقی وقت کتابوں کے مطالعے میں صرف کرتا ۔
اور پھر ایک دن اس نے تمام کتابیں ختم کر لیں ۔ اب وہ اتنا ہی علم جان گیا جتنا کہ اس کا مالک جانتا تھا ۔ ۔ ۔ اس کا مالک جادو گری کے دیگر کمالات کے علاوہ یہ گُر بھی جانتا تھا کہ وہ خود کو کسی بھی جانور میں ڈھال لیتا یا کسی بھی شے میں بدل لیتا ، جس میں بدلنے کو اس کا من کرتا ۔ وہ البتہ علم کو لوگوں میں تقسیم کرنے کے حوالے سے بہت ہی بخیل تھا ۔
لڑکا جب یہ سب کرتب جان گیا تو اس نے اس دانا کے گھر مزید رہنا مناسب نہ جانا اور اسے بتائے بغیر واپس گھر لوٹ آیا ۔ اس کے کچھ دیر بعد ہی گاﺅں کے قریب منڈی لگی اور ہر طرح کی اشیاء ، اجناس اور مویشیوں کا بازار سج گیا ۔ لڑکے نے اپنی ماں کو بتایا کہ اس نے یہ کرتب بھی سیکھ رکھا ہے کہ خود کو کسی بھی جانور میں بدل سکوں ۔
” اور اب وقت آ گیا ہے ۔ “ ، وہ بولا ، ” کہ میں اپنے اس کرتب کا مظاہرہ کروں اور خود کو ایک وجہیہ اور خوبصورت گھوڑے میں بدلوں ۔ میرے والد مجھے لے کر منڈی میں جائیں اور مجھے بیچ دیں ۔ میں صحیح سلامت گھر لوٹ آﺅں گا ۔“
اس کی ماں بیٹے کے اس خیال سے خوفزدہ ہوئی اور اُسے اِس سے باز رکھنا چاہا ، لیکن لڑکے نے اپنی ماں کو سمجھایا کہ وہ فکر نہ کرے اور یہ کہ سب ٹھیک ہی ہو گا ۔
لڑکے نے چنانچہ خود کو گھوڑے میں بدلا ؛ یہ ایک خوبصورت اور شاندار گھوڑا تھا ۔ اس کا باپ اسے منڈی میں لے گیا جہاں اس نے گھوڑے کے عوض ایک بڑی رقم وصول کی ۔ جب سودا طے ہونے کے بعد خریدار نے پیسے ادا کر دئیے اور وہ گھوڑا لیے اپنے گھر روانہ ہوا تو موقع پا کر لڑکا اپنی جون میں واپس آ گیا اور گھر لوٹ گیا ۔
خوبصورت اور شاندار گھوڑے کے یوں غائب ہونے کا قصہ سارے ملک میں پھیلا کہ کیسے یہ منڈی میں پہنچا ، بیچا گیا اور پھر یہ غائب ہوا ۔ یوں یہ بات ہوتے ہوتے اس جادوگر تک بھی پہنچی ۔
” آہ ! “ ، اس نے خود سے کہا ، ” یہ تو وہی لڑکا ہو سکتا ہے جو میرے لیے کام کرتا رہا ہے ۔ اس نے مجھے بیوقوف بنایا اور یہاں سے بھاگ گیا ۔ خیر کوئی بات نہیں ، میں اسے پکڑ لوں گا ۔“
اگلی بار جب منڈی لگی تو لڑکے نے خود کو پھر سے گھوڑے میں بدلا اور اس کا باپ پھر سے خوبصورت اور شاندار گھوڑے کو لیے بازار میں پہنچا ۔ جلد ہی اسے خریدار مل گیا ۔اور جب خریدار گھوڑے کی لگام تھامے ایک کھوکھے پر کھڑا چائے پی رہا تھا تو دانا جادوگر اس کے پاس گیا اور اسے اس قیمت سے چوگنی قیمت، جو اس نے لڑکے کے باپ کو دی تھی ، پر گھوڑا خریدنے کی پیش کش کی ۔ خریدار نے یہ پیش کش قبول کی اور گھوڑا دانا جادوگر کے حوالے کر دیا ۔
دانا جادوگر گھوڑے کو لیے ایک لوہار کے پاس پہنچا تاکہ گھوڑے کو نکیل ڈلوا سکے ۔ اسے معلوم تھا کہ نکیل ڈَلنے کے بعد گھوڑا اپنی ہیت نہیں بدل سکتا تھا ۔ لڑکا بھانپ گیا ، اس نے فوراً ہی اپنی جون بدلی اور ایک مرغابی بن گیا اور ہوا میں اڑ نے لگا ۔ جادوگر نے خود کو عقاب میں بدلا اور مرغابی کے پیچھے گیا ۔ مرغابی نے جب عقاب کو قریب آتے دیکھا تو اس نے خود کو ایک سونے کی انگوٹھی میں بدلا اور ایک لڑکی کی گود میں جا گری ۔ یہ دیکھ کر عقاب نے ایک مرد کی شکل اختیار کی اور لڑکی کو انگوٹھی کے عوض بھاری رقم کی پیش کش کی ۔ لڑکی نے یہ پیش کش قبول نہ کی ۔ جادوگر رقم بڑھاتا گیا لیکن لڑکی پھر بھی نہ مانی ؛ وہ اوپر سے گری اس انگوٹھی کو قدرت کی طرف سے عطا کردہ انمول تحفہ سمجھ رہی تھی ۔اس سے پہلے کہ دانا جادوگر کوئی اور حربہ سوچتا ، انگوٹھی لڑکی کی گود سے لڑھکی اور گندم کے دانے میں بدل گئی ۔ جادوگر نے فوراً ہی خود کو مرغی میں بدلا جو گندم کے دانے کو چگنے کے لیے دوڑی ۔ اس سے پہلے کہ وہ اسے چُگ پاتی ، وہ دانہ ایک بڑے نیولے میں بدلا اور اس نے مرغی کی گردن دبوچ لی اور چبا ڈالا ۔
جادوگر مر چکا تھا ۔ نیولا فوراً جنگل کی طرف بڑھ گیا اور جب وہ جادوگر کے مکان پر پہنچا تو واپس لڑکے میں بدل گیا ۔ گھر واپس آتے ہوئے اسے خیال آیا کہ اسے یہ علم خود تک ہی محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اسے اوروں تک بھی پہنچانا چاہیے اور لوگوں کو دھوکہ دے کر پیسے نہیں کمانے چاہییں ۔ اس نے جادوگر کا مال و متاع اٹھایا اور گھر لوٹ آیا ۔ اس نے جادو گر کے مال و متاع سے ایک عمارت خریدی اور اس میں جادو گری کے گُر سکھانے کے لیے ایک مدرسہ کھولا اور جادوگر کی ساری کتب اس مدرسے کے کتب خانے میں رکھوا دیں ۔ اس نے وہ لڑکی تلاش کی جس کی گود میں وہ انگوٹھی بن کر گرا تھا ۔ وہ تبھی اس کو اپنا دل دے بیٹھا تھا جب لڑکی نے انگوٹھی بیچنے سے انکار کیا تھا ۔ اس نے اس سے شادی کی اور اسے بھی جادوگری کے گُر اور کرتب سکھائے ۔
وہ دونوں جب تک زندہ رہے ، مل کر جادوگری کے کرتب دکھاتے اور مدرسے میں لوگوں کو یہ سکھاتے بھی رہے ۔
٭