بچوں کی علمی اور شعوری تربیت میں میرا طریقہ:
کچھ چیزیں تو عادات ماحول اور کلچر کے ذریعے سے بچوں کو متنقل ہوتی ہیں۔ میں یہاں ان کی بات نہیں کر رہا۔ بچوں کی علمی اور شعوری تعلیم و تربیت میں میرا طریقہ یہ ہے کہ میں اپنے بچوں کو کسی بات پر کبھی لیکچر نہیں دیتا۔ میری کوشش ہوتی ہے وہ خود ہر بات سیکھیں اور سمجھیں۔ میں ضرورت پڑنے پر ان کی مختصر سی رہنمائی کرتا ہوں۔ اپنی کوئی سوچ ان پر ملسط نہیں کرتا۔ حتی کہ بعض مرتبہ ان کے سامنے انجان بن جاتا ہوں کہ مجھے معلوم نہیں تم ہی بتاؤ اور وہ بتاتے رہتے ہیں۔
اس طرح ان کی اپنی شخصیت پروان چڑھے گی، ورنہ وہ میرے طفیلی بن جائیں گے۔ میں مذھبی اور سماجی طور پر لبرل ہوں یا کسی مذھبی فرقے سے وابستہ، میرے بچے اگر لا شعوری طور پر بالکل وہی بن جائین تو یہ ان کی شخصیت کی موت ہوگی۔ میری ناکامی ہوگی اور خدا کی سکیم کے خلاف جنگ ہوگی جو ہر شخص سے اس کے عقل و شعور کی بنا پر مواخذہ کرے گا۔
اکثر دیکھنے میں آتا ہے زیادہ پڑھے لکھے یا زیادہ ذہین والدین کے بچے زہنی اعتبار سے بونے نکلتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ جو شعور والدین نے اپنے علم و تجربات سے برسوں میں حاصل کیا ہوتا ہے وہ چاہتے ہیں کہ اپنے بچوں کو اتنی ذہنی محنت کے بنا جلد فراہم کر دیں۔ اس سے ان کے بچوں میں خود سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت، اور سوال پیدا نہیں ہوتے۔ چنانچہ وہ اگر ذہین بھی ہوں تو معلومات کا انسائیکلوپیڈیا تو شاید بن جائیں مگر بڑی سوچ والے نہیں بن پاتے۔
اپنے شعور، اپنے تجربے اور اپنا ایمان بھی ذرا سنبھال کر رکھیں۔ بچے میں طلب پیدا ہونے دیں، سوال پیدا ہونے دیں، اور اس کی طلب اور سوال کے مطابق علم و شعور دیں۔ لیکن اس پر مسلط کچھ نہ کریں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“