دو دن پہلے ہائیکورٹ نے بچوں کی فحش فلموں کے کاروبار میں ملوث ایک ملزم کو رہا کیا۔سعادت امین نامی اس شخص کو 2017 میں سرگودھا سے گرفتار کیا گیا تھا۔ملزم کے قبضے سے ایک ہزار جی بی سے زائد کا قابل اعتراض ڈیٹا برآمد ہوا تھا۔فحش ویب سائٹس سے رابطے اور اس کاروبار میں ملوث ہونے وغیرہ کا جرم ثابت ہونے پر لاہورکی سائبر کورٹ نے ملزم کو 7 سال قید اور 12 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ملزم نے ضمانت کیلئے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی جسے منظور کرتے ہوئے اسے رہا کرنے کا حکم دے دیا گیا۔
ملزم کی ضمانت پر رہائی پر سوشل میڈیا پر بڑا ردعمل آیا۔کہ سزا پوری کئے بغیر اسے کیوں رہا کر دیا گیا۔اس کے پیچھے کچھ سازش تو نہیں۔کوئی بااثر لوگ تو نہیں۔ کچھ دوست چاہتے تھے کہ میں اس پر لکھیں اور اس رہائی کی حقیقت سے آگاہ کروں۔میرا موقف پیش خدمت ہے۔
ٹرائل کورٹ سے کسی بھی ملزم کو سزا ہوتی ہے تو اسے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ملزم اس سزا کیخلاف اپیل دائر کرتے ہیں۔سزا کیخلاف اپیل کی اس درخواست کی فوری سماعت ممکن نہیں ہوتی۔کہ پہلے ہی بہت کیسز لائن میں ہیں۔اپیل کے اس کیس کو بھی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا جاتا ہے کہ جب باری آئے گی اس پر سماعت ہوگی اور فیصلہ کیا جائے گا۔2017 سے گرفتار اس ملزم نے بھی اپنی 7 سالہ قید اور جرمانے کی سزا کیخلاف اپیل دائر کی ہوئی تھی۔
ہمارے فوجداری قوانین میں ایسی شقیں موجود ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی ملزم کو سزا ہوئی ہو۔اس نے اس کیخلاف اپیل دائر کی ہوئی ہو اور یہ اپیل ایک عرصے سے تاخیر کا شکار ہو۔اس پر کوئی شنوائی اور فیصلہ نہ ہوا ہو تو پھر ایک مخصوص عرصہ گزر جانے کے بعد ملزم کو یہ حق حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی سزا معطل کروانے کی درخواست دائر کر سکتا ہے۔ اس درخواست میں یہ موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ میں اتنے عرصے سے جیل میں ہوں۔میری اپیل پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔جب تک میری اپیل پر کوئی فیصلہ نہیں ہوتا۔میری سزا معطل کی جائے اور مجھے ضمانت پر رہا کیا جائے۔
قانون کی ان شقوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کا کیس تاخیر کا شکار ہو۔اس پر کوئی فیصلہ نہ ہو پا رہا ہو تو پھر یہ نہ ہو کہ ملزم اتنا عرصہ جیل میں ہی پڑا رہے۔وہ اپنی ساری سزا ایسے ہی نہ پوری کر لے۔کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ کسی بیگناہ کو سزا ہوتی ہے۔وہ اپیل کرتا ہے اور اس کی اپیل کی باری ہی نہیں آتی۔جب تک اس کی اپیل کی باری آتی۔وہ اپنی اصل سزا پوری کرچکا ہوتا ہے۔تو اب اسے اس اپیل کی سماعت کا اس طرح کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
مجرم سعادت امین نے بھی اسی قانون کی بنیاد پر عدالت میں رہائی کی درخواست دائر کی تھی۔وہ غالبا ساڑھے تین سال سے جیل میں تھا اور ابھی تک اس کی اپیل کی سماعت اور فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ اوپر بیان کیا گیا قانون اس کی حمایت میں تھا۔لہذا جج صاحب کو اسے قانون کی بنیاد پر ضمانت پر رہا کرنا پڑا۔
اس رہائی پر سوشل میڈیا پر خوب تنقید ہوئی۔ جس کے بعد ہائیکورٹ نے تاخیر کا شکار ملزم کی مین اپیل کو فوری سماعت کیلئے مقرر کردیا۔ ایک ہی دن میں شنوائی ہوئی اور فیصلہ کر دیا گیا۔ عدالت نے نچلی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے ملزم کی سزا برقرار رکھی ہے اور سزا کیخلاف اس کی اپیل خارج کر دی ہے۔جس کا مطلب ہے کہ مجرم اب 7 سال کی سزا پوری کرے گا۔وہ اب گرفتار ہی ہے۔
ایک قانون کی آڑ لے کر مجرم نے ریلیف لیا تھا۔وہ ریلیف اب ختم ہوگیا۔
اس ایک واقعے سے 2 سبق سامنے آتے ہیں۔
1۔عدالتوں میں کیسوں کی شنوائی اور فیصلوں کے عمل میں تیزی لائی جائے۔ نظام میں ایسی بہتری لائی جائے کہ ایک کیس سالوں تاخیر کا شکار نہ ہو۔ایسی تاخیر جس سے کسی بیگناہ کو نقصان اور کسی گناہ گار کو فائدہ ملنے کے امکانات پیدا ہوجائے۔
2۔سوشل میڈیا ایک پاور ہے۔یہ بات ایک بار پھر ثابت ہوئی۔تاخیر کا شکار مجرم کی اپیل فوری ریکارڈ سے نکلوائی گئی۔اس پر سماعت کی گئی اور فیصلہ کیا گیا۔سوشل میڈیا کی اس طاقت کا مثبت استعمال جاری رکھیے۔