آج کے بچے کل کا مستقبل ہیں اور بچوں کا ادب مستقبل کے سنہرے خواب کی تعبیر۔ اسی بات کو بنیاد بنا کر بچوں کا ادب تخلیق کرنا شاید ہر زبان و ادب کا شیوہ نہیں ہے۔ بیشتر ممالک میں بچوں کا ادب محض تفریح و طبع اور بچوں کی وقت گزاری کا زریعہ ہو لیکن میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ اردو ادب میں بچوں کا ادب خالصتاً بچوں کی ذہنی تربیت اور معاشرتی اقدار کو قائم رکھنے اور بڑھانے کے لیے تخلیق کیا جاتا رہا ہے۔
اردو زبان میں بچوں کےادب کا جائزہ لیں تو اس کے آثار ہمیں خالق باری جیسی کتابوں کے سلسلے سے شروع ہوتا دکھائی دیتاہے ۔ لیکن اس ادب میں اخلاقیات اورادب کی جگہ ہمیں لغت اور ذخیرہ الفاظ زبان و بیان سکھانے کی کوشش زیادہ نظر آتی ہے۔ اس کے بعد جو دوسرا دور بچوں کے ادب کے حوالے سے نمایاں ہوتا وہ ہمیں غالب کے قادر نامے اور نظیر اکبر آبادی کی شاعری کے زمانے میں نظر آتاہے ۔ اس ادب کا اصل آغاز 1857ء کی ناکامی اور سرسید احمدخاں کی اصلاحی تحریک سے شروع ہوا۔ یہاں بچوں کے ادب کے زریعے بالکوں میں خود شناسی اور جذبہ حریت کو ابھارنے کی مثالیں ملتی ہیں۔ یہی سلسلہ ہمیں آج تک بچوں کے ادب تحریر کرنے کا بنیادی ماخذ دکھائی دیتا ہے۔
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ ملک کی حقیقی دولت اور سرمایہ قوم کےبچے ہی ہوتے ہیں ۔ وہ بچپن میں جس قسم کی تربیت و نشوونما پاتے ہیں اسی تربیت کا اثر وہ اپنےملک کے مستقبل پر ڈالتے ہیں ۔اس ضمن میں بچوں کا ادب ان کی ذہنی اور جذباتی اٹھان پر اپنے گہرے اثرات ثبت کرتا ہے ۔ بچوں کی ذہنی ترقی اور مکمل اٹھان کیلئے نصابی تعلیم کے ساتھ جو چیز سب سے زیادہ اثر انگیز ہوتی ہے وہ ان کے مادری زبان میں اچھے ادب کی فراہمی ہے یہ ادب محض بچوں کی درس تدریس کے لئے نہیں ہوتا بلکہ ان کی تفریح طبع اور ان کی فطری رحجانات کی نشوونما کے لئے بھی ہوتاہے۔ بچوں کے ادب کو ان اقدار اورخصوصیات کا حامل بھی ہوناچاہئے۔ جو کسی زبان کی نظم و نثر کو ادب کا درجہ بخشی ہے ان میں خیال کی رفعت جذبہ کی صداقت زبان کی لطافت اور بیان کا حسن شامل ہے ۔ کوئی بھی تحریر جو دل کو چھولینے والی کیفیت اور تاثیر سے محروم ہو وہ ادب میں شامل نہیں ہوسکتی۔ بچوں کے جمالیاتی حسن کی تسکین ان کی تربیت اور نشوونما ان کا بنیادی مقصد ہوناچاہئے۔ اسی لیے شاید کہا جاتا ہے کہ بچوں کا ادب تحریر کرنا بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ ادب کے زریعے بچوں کی ذہنی تربیت ایک نہایت اہم فریضہ ہے جس پر بد قسمتی سے اردو زبان کے ادیبوں کی توجہ کم ہے۔ ہے۔ پاکستان میں پانچ کروڑ سے زائد بچے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان میں سے بڑی تعداد تعلیم، صحت، بنیادی ضرورتوں اور حکمرانوں کی توجہ سے محروم ہے۔ لیکن والدین کی توجہ اور تربیت میں کمی، ناقص تعلیمی نصاب اور میڈیا نے بچوں کو ادب سے نہ صرف دور کر دیا ہے بلکہ انٹرنیٹ اور موبائیل نے ان کی ذہنی آسودگی ختم کرکے انہیں بے چینی کی طرف لے گئے ہیں جو یقینی طور پر ایک خطرناک صورتحال کی جانب اشارہ ہے۔
یہ بات غور طلب ہے کہ آج کے بیشتر ادیب و شعراء سے جب بچوں کے ادب کے متعلق گفتگو کی جائے تو وہ اسے سنجیدہ نہیں لیتے جبکہ وہ اس بات کا کئی بار اقرار کر چکے ہوتے ہیں کہ ان کی اپنی ادبی صلاحیتیں بچوں کے رسائل و ادب کے مطالعے سے پروان چڑھی ہیں۔ علامہ اقبالؒ ، اسماعیل میرٹھی، صوفی تبسم، احمد ندیم قاسمی، محسن احسان، خاطر غزنوی، میرزا ادیب، سید نظر زیدی، خالد بزمی، عزیز اثری اور کئی آسمان ادب پر بچوں کا ادب تخلیق کرنے والوں کے ناموں کی کہکشاں آج بھی چند ان بچوں کو ادب تخلیق کرنے کی طرف ترغیب دے رہی ہے جو برسوں قبل ہمارے لیے روشنی پانے کا استعارہ تھے۔
آج نسل نو کی تعلیم و تربیت کے فقدان کے آثار ہمیں معاشرے کی بگڑتی صورتحال اورعدم استحکام کی طرف توجہ دینے کی طرف راغب کرتے ہیں اس سلسلے میں بچوں کا ادب تخلیق کرنے کے لیے آج کے تمام بڑے ادیبوں کو اپنی ذمہ داری بہ احسن و خوبی ادا کرنی ہوگی۔ اس حوالے سے سرکار کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بچکانہ ادب لکھنے والوں کے لیے تربیت کرنے کا کوئی زریعہ میسر کریں اور اردو زبان و ادب کے لکھنے والوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرئے جس پر وہ مسلسل بچوں کے ادب سے بھی جڑے رہیں اور معاشرے کے سدھار اور نسل نو کی تربیت کے حوالے سے بچوں کا ادب تخلیق کریں۔ بچوں اور بڑوں کو اس سلسلے میں آپس میں تبادلہ خیالات کے مواقع میسر ہوں اور سالانہ طور پر ان کی اس کوشش کو سرکاری سطح پر سراہا جائے تاکہ بچوں کے ادب کی صورتحال نمایاں طور پر علمی ،لسانی و سماجی سطح پر بلند ہو۔ اس حوالے سے یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ بچوں کے لئے بین الاقوامی ادب کی پہنچ آسان بنائی جائے تاکہ وہ جان سکیں کہ دوسرے ملک کا بچہ کس طرح کے ماحول میں پرورش پاتاہے۔ اس کے علاوہ اس میں عالمی علوم وفنون کی دلچسپی پیدا ہو، قدیم طلسماتی کہانیاں جادو پری ،جادو کی چھڑی وغیرہ کہانیاں آج کے دور کے بچے کو متاثر نہیں کرتی آج کا بچہ ہر چیز کو حقیقت کے رنگ میں دیکھ رہا ہے ۔ انٹرنیٹ نے آج دنیا کو سمیٹ کر صرف ایک کلک کا منتظر بنا دیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بین القوامی ادب سے بھی چھانٹ کر بہترین ادب ترجمے کی صورت میں بچوں تک پہنچایا جائے اور اردو ادب کے ذریعہ بچوں کو تنگ نظری تعصب جیسی برائیوں کو دور کیا جائے۔ ساتھ ہی ادب میں انہیں ایسی باتیں پیش کی جائیں جن سے ان کے ذہن میں وسیع النظری کوفروغ ملے اور معاشرے میں امن و محبت کی فضاء قائم ہو اور جرائم کی جانب بڑھتے ہوئے افکار و عمل کو روکا جاسکے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...