اسماعیل میرٹھی 12 نومبر 1844ء کو ضلع میرٹھ میں پیدا ہوئے تھے۔
انہوں نے بچوں کے لیے اردو میں بہت سی درسی کتابیں تحریر کیں۔
ان درسی کتب کے زیادہ تر مضامین، نظمیں، حکایات اور کہانیاں خود مولوی محمد اسماعیل میرٹھی کی تصنیف کردہ ہیں اور کچھ فارسی اور انگریزی سے ماخوذ ترجمے ہیں۔
مولوی محمد اسماعیل میرٹھی کی مرتب کردہ یہ درسی کتابیں ایک صدی گزرنے کے بھی بچوں کے ادب میں اسی مقبولیت اور اہمیت کی حامل ہیں اور آج بھی بڑے ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔
اسماعیل میرٹھی نے نہ صرف بچوں کے لیے بے حد خوب صورت شاعری کی بلکہ انہوں نے نظم نگاری میں مختلف تجربے بھی کیے ان کی نظم اردو کی پہلی معریٰ کہلاتی ہے۔ ان کی نظموں میں ایسے متعدد شعر موجود ہیں جو آج بھی زبان زد ِ خاص و عام ہیں۔
ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں
نائو کاغذ کی سدا چلتی نہیں
……٭٭٭……
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
……٭٭٭……
نہر پر چل رہی ہے پن چکی
دھن کی پوری ہے کام کی پکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسماعیل میرٹھی نے 73 سال کی عمر میں یکم نومبر 1917ء کو میرٹھ میں وفات پائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدید ذہن کا قدیم شاعر: اسماعیل میرٹھی
تحریر:
ڈاکٹر شاداب علیم
انیسویں صدی کے اواخر سے بیسویں صدی کے اواخر تک نسل در نسل اردو داں طبقہ اردو کے حروف تہجی سے بھی قبل مولانا اسماعیل میرٹھی کے نام سے واقف ہوتا رہا ہے۔ اس طویل عرصے میں اسماعیل میرٹھی نے اپنی نصابی کتب اور ان میں تحریر کردہ اپنے مضامین اور شاعری کے ذریعہ متعدد نوخیز نسلوں کی ذہنی آبیاری کی۔ مولانا اسماعیل میرٹھی کی حیات کا یہ پہلو ان کی جملہ زندگی اور کارناموں پر اس قدر حاوی ہوا کہ اسماعیل میرٹھی کو محض بچوں کا شاعر سمجھ لیا گیا۔ حالانکہ بچوں کی زبان میں ان کے ذہن، ان کی استعداد اور نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا شعری ادب تخلیق کرنا جس کے باعث بچوں کے شعور اور لاشعور میں اعلیٰ اخلاقی اقدار، کندا ہو کر ان کے کردار کی تخلیق کریں اوران کے لئے مسرتوں اور انبساط کا ذریعہ بھی بنیں۔ بذات خود ایک مہتم باالشان کارنامہ ہے۔ انگریزی کا مقولہ ہے Child is the Father of Manیعنی آج کے اطفال ہی مستقبل کی جوان قوم ہے۔ اس لئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہندوستان میں ملت اسلامیہ کی کئی نسلیں اپنی تعلیم و تربیت کے لئے مولانا کی مرہون منت ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسماعیل میرٹھی ایک ہمہ جہت و ہمہ صفت شخصیت تھے۔
جب ہم اسماعیل میرٹھی کی شاعری کا تجزیہ کرتے ہیں تو ایک حقیقت واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہے کہ مولانا ایک جدید انقلابی شاعرتھے۔ اس خطاب پر یقیناًمتعدد پیشانیوں پرشکنیں ابھریں گی۔ لیکن ہمارے پاس ان کو ایک مجدد انقلابی شاعر کہنے کا جواز موجود ہے۔ یہاں لفظ انقلاب کے استعمال سے میرا مقصد یہ ہے کہ اسماعیل میرٹھی نے شاعری کی ہر صنف میں خواہ وہ غزل ہو یا قصیدہ، رباعیات ہوں، نظمیں ہوں، یا قطعات، انہوں روایت سے انحراف کرتے ہوئے ہیئت کے نئے نئے تجربات کیئے۔ ان کے تجربات صرف ہیئت تک محدود نہیں رہے۔ انہوں نے اصناف کے مواد اور زبان میں بھی تبدیلیاں کیں اور نئے تجربات کئے۔
اردوزبان کی سب سے ہر دلعزیز صنف غزل ہے۔ جب بھی اردو شاعری کا تصور ذہن میں آتا ہے ہے توغزل اپنے پورے حسن و جمال، رعنائیوں و دلآویزیوں اور خوبیوں کے ساتھ نگاہوں کے سامنے جلوہ گر ہوتی ہیں۔ مولانا اسماعیل میرٹھی نے اپنی غزلوں میں دو طریقوں سے روایت سے روگردانی کی ہے۔ اولا یہ کہ ان کی کئی غزلوں میں مطلع مفقود ہے۔ اس کی وجہ استعداد کی کمی نہ تھی بلکہ عادتا روایت سے انحراف تھا۔ دوسرا روایت سے انحراف اور ہیئت میں تبدیلی یہ ہے کہ مولانا کی کلیات میں ۶۸؍ غزلیں موجود ہیں۔ لیکن ان کی ایک غزل بھی ایسی نہیں جن میں مولانا نے مقطع کہا ہو۔ دو غزلوں میں ضرور قمر تخلص کیا گیا ہے۔ لیکن یہ وہ غزلیں ہیں جو اسماعیل میرٹھی نے اپنے بہنوئی قمر الدین کومشاعروں میں پڑھنے کے لئے کہہ کردیں تھیں۔ بذات خود اپنے نام کا استعمال انہوں نے غزل میں کبھی نہیں کیا ۔ لہٰذا ان کی کسی بھی غزل میں مقطع نہیں پایا جاتا۔ غالبا وہ اردو شاعری میں ایسے پہلے غزل گو شاعر ہیں جنہوں نے مقطع کہنے سے احتراز کیا۔ یہ روایت سے انحراف نہیں بلکہ بغاوت ہے۔ مولانا اسماعیل میرٹھی فارسی کے مدرس تھے۔ فارسی کے اثرات ان کی شاعری میں ہونا فطری عمل ہے۔ اس لئے جو زبان دن کے بیشتر حصے میں ان کے استعمال میں رہتی تھی وہ ان کے شعور اور لاشعور کا حصہ بن گئی تھی۔ اس لئے اس زبان کا اثر ان کی شاعری میں ہونا فطری بھی تھا اور ناگزیر بھی۔ اس لئے ان کی غزل میں فارسی تراکیب اور فارسی الفاظ کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ مثلا
جز دل پاک نہ پایا حرم خاص کہیں
دیر و کعبہ میں عبس ناصیہ فرسائی کی
لیکن سرسید کی تحریک پراسماعیل میرٹھی نے اپنی غزلوں میں نہ صرف سادہ و سلیس الفاظ کا استعمال شروع کیا بلکہ مقامی الفاظ، مقامی محاوروں اور ہندی الفاظ کو بھی غزل کا حصہ بنادیا۔
ہے اشارے پر قلم کے لشکروں کی صلح و جنگ
دو گروہ کی چوپ سے دم بند ہے شمشیر کا
دو جگہ خفتگان خاک مجھے
تھوڑے تھوڑے ذرا پرے سرکو
دو گرہ کی چوپ، پرے سرکو، مقامی الفاظ و محاورے ہیں جن کا استعمال اسماعیل میرٹھی نے غزلوں میں کیا ہے۔
قصیدہ کی باقاعدہ ہیئت مقرر ہے جس کے اجزائے ترکیبی میں مطلع، تشبیب، گریز، مدح اور دعایا حسن طلب شامل ہے۔ کلیات اسماعیل میں قصائد کے عنوان کے تحت ۱۹؍ شعری تخلیقات درج ہیں۔ مدح قصیدہ کا لازمی جزو ہے حقیقت تو یہ ہے کہ قصیدہ اور مدح اردو میں ہم معنی الفاظ بن چکے ہیں۔ اس پیمانے پر اگر ہم ناپیں تو قصائد کے تحت درج شعری تخلیقات میں صرف چند کوہی قصیدہ کہہ سکتے ہیں۔ ان قصائد میں بھی مولانا نے قصیدہ کی روایت کا احترام نہیں کیا اور قصیدہ کے اجزائے ترکیبی میں سے کوئی نہ کوئی جز مفقود ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ مولانا نے قصیدہ کے ایک نئے طرز کی بنیاد ڈالی ہے۔ دو قصائد ملکہ وکٹوریہ اور دو جارج پنجم سے متعلق ہیں۔ دونوں مدحیہ قصائد ہیں، مگر ان کے قصائد میں بھی وکٹوریہ اورجارج پنجم سے زیادہ انگریزی نظام حکومت کے قائم کردہ اداروں اور ان سے عوام کو جو منفعت حاصل ہوئی اورامن و آتشی اور ایک مستحکم حکومت کے قیام کی مدح ہے۔ اس کے علاوہ عصری تعلیم اور سائنس کو بھی عملی جامہ پہنانے سے جو نئے اختراعات، ایجادات و مصنوعات وجود میں آئیں اور عوام الناس کے لئے فلاح و بہبودی اور خوش حالی کا ذریعہ بنی اس کی مدح ہے۔موضوعات کی طرح قصائد کی زبان میں بھی مولانا نے تجربات کیے ہیں۔ قصائد کی زبان میں جہاں فارسی الفاظ و تراکیب کا استعمال کیا گیا ہے وہیں کچھ اشعار کی زبان سادہ سلیس ہے، قصیدہ کی روایت سے انحراف کرتے ہوئے انہوں نے متعدد الفاظ بھاشا یا مقامی زبان کے استعمال کیے ہیں۔ ان میں مقامی محاورے اور کہاوتیں بھی شامل ہیں۔ جیسے:
نہ پرنالے چلے اب کے دھڑا دھڑ
نہ گذری کی سڑک رونے بہائی
نہ اے بھادوں بھرن برسائی تونے
نہ اے ساون جھڑی تونے لگائی
اس کے علاوہ انہوں نے گوہار، جھوٹ موٹ، بور کے لڈو، چر کٹے، پھاؤلا، ڈھئی ہوئی، اوٹ پٹانگ، پوٹیہ، پنڈا، میل کچیل، مڑک، اٹک، ٹھیکرا، بکھیڑا، جمگھٹا، ریل پیل جیسے الفاظ کااستعمال فارسی الفاظ کے پہلو بہ پہلو کیا۔
اردو میں رباعی کی ہیئت مقرر ہے۔ یہ چار مصرعوں کی صنف ہے۔ اس کا پہلا، دوسرا اور چوتھا مصرعہ مردف ہوتا ہے۔ جب کہ تیسرا مصرعہ غر مردف، اسماعیل میرٹھی نے رباعی کی ہیئت سے انحراف کرتے ہوئے نئے تجربات کیئے ہیں۔ مولانا اسماعیل میرٹھی کے یہاں تین طرح کی رباعیاں ملتی ہیں۔ مردف، چارقوافی اور سہ قوافی رباعیاں۔ مولانا نے اپنی رباعیوں کو عنوانان بھی دیئے ہیں۔
مولانا اسماعیل میرٹھی کے ساتھ قلق میرٹھی بھی سرشتہ تعلیم،میرٹھ سرکل میں ملازم تھے۔ قلق میرٹھی نے انگریزی کی ۱۵؍ اخلاقی نظموں کے منظوم تراجم کیئے۔ جس پر مرزا غالب نے نظر ثانی کی۔ تراجم کا یہ مجموعہ ۱۸۶۴ ء میں یعنی انجمن تحریک پنجاب سے دس سال قبل ’’جواہر منظوم‘‘ کے نام سے گورنمنٹ پریس، الٰہ آباد سے شائع ہوا۔ مولانا کے بیٹے اسلم سیفی ’’حیات و کلیات اسماعیل‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’ مولانا کے لئے اس ترجمہ کا مطالعہ ایک امر اتفاق تھا۔ جس نے مولانا کی طبیعت کا رخ بالکل بدل دیا۔‘‘
اسماعیل میرٹھی نے اس ترجمہ کو دیکھ کر بعض انگریزی نظموں کا ترجمہ کیا، یہ نظمیں کلیات اسماعیل میں موجود ہیں، اس کے علاوہ آئندہ کے لئے اپنے کلام کی بنیاد اس نئے انداز پر رکھی، یہ نظمیں انجمن پنجاب کی نظم جدید کی تحریک سے کئی سال قبل کہی گئی ہیں، اس لئے بقول گوپی چند نارنگ
’’ ان کا شمار اردو نظم کے بنیاد گزاروں میں ہونا چاہئے‘‘
اسماعیل میرٹھی نے بھی اپنی متعدد نظموں کے لئے مثنوی کی صنف کو چنا، لیکن اس کے علاوہ آپ نے مثلث، مربع، مخمس، مثمن اور ترجیع بند اصناف میں بھی نظمیں کہیں۔ آثار سلف، (مشعر کیفیت قلعہ اکبر آباد) مولانا اسماعیل میرٹھی کی طویل نظم ہے ، جو ۷۰؍ بندو پر مشتمل ہے اس میں مولانا نے مثمن کی صنف استعمال کی ہے، اس نظم کی اشاعت کے بعد مولانا اسماعیل میرٹھی کا مرتبہ استادی عام طور پر تسلیم کیا جانے لگا تھا۔
وہ عیش کے مملوک تھے نے بندہ راحت
گلگشت چمن زار تھی گویا انہیں عزت
برداشت جفا کرتے تھے سہتے تھے صعوبت
اوروں کے بھروسے پہ نہ کرتے تھے معیشت
دنیا کے کسی کام میں ہیٹی نہ تھی عزت
بے غیرتی زنہار نہ تھی ان کی جبلت
ہمت میں تھے شاہین تو جرأت میں تھے شہباز
عزت کی بلندی پہ کیا کرتے تھے پرواز
اس بند میں ’’شاہین، شہباز‘‘ کی علامتیں مستعمل ہوئی ہیں۔ یہ مولانا اسماعیل میرٹھی کا اختراعی ذہن ہے۔ ممکن ہے اقبال نے ان علامتوں کو مولانا اسماعیل میرٹھی سے شعور یا غیر شعور طور پر مستعار لیا ہو اور بعد میں ان کو اپنالیا ہو۔ اقبال کے یہاں خودی کا فلسفہ شاہین اور شہباز کی مدد سے ہی مرتب ہوا ہے اور انہیں علامتوں سے ابلاغ میں مدد لی گئی ہے۔
چونکہ مولانا کا مقصد نصیحتیں کرنا و تربیت دینا تھا اس لئے یہ ضر وری ہوا کہ زبان وہی استعمال کی جائے جسے عوم الناس با آسانی سمجھ سکیں۔
جگر بریلوی نے تحریر کیا ہے:
’’ حقیقت یہ ہے روانی میں مولانا کی بعض نظمیں سحر البیان سے بھی آگے نظر آتی ہیں اور جس سہل ممتنع کو غالب سے خاص طور پر منسوب کیا جاتا ہے مولانا اس کے بادشاہ تھے۔‘‘
مقامی الفاظ، روز مرہ اور مقامی محاوروں کے استعمال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسماعیل میرٹھی کی شاعری میں دیہی عناصر جابجا ملتے ہیں اور ظاہر ہے کہ دیہی مناظر کے بیان کے لئے دیہی زبان سے بہتر کون سی زبان ہوسکتی ہے۔ مولانا کی ان نظموں میں بھی جو دیہی فضا سے دور علمی نظمیں ہیں۔ یہ مقامی عناصر مولانا کے لاشعور سے نکل کر ان کی نظموں میں سب سے الگ تھلک مگر حسین لبادے میں ملبوس کھڑے نظر آتے ہیں۔ اگر دیگر شعرا نے بھی اس طرح کے الفاظ کا استعمال اپنی شاعری میں کیا ہوتا تو اردو شاعری کا ذخیرہ الفاظ بے انتہا وسیع ہو گیا ہوتا اور اردو آج بے حد مالدار زبان ہوتی۔
مولانا اسماعیل میرٹھی کی دو نظمیں ان کا نادر و عظیم کارنامہ ہیں۔ ’’تاروں بھری رات‘‘ اور ’’چڑیا کے بچے‘ ‘ ان کو اپنے ہم عصروں میں نہ صرف ممتاز ترین مقام عطا کرتی ہیں بلکہ یہ امربھی واضح کرتی ہیں کہ مولانا اپنے ہم عصروں سے میدان نظم میں برسوں آگے تھے۔
اولا غیر مقفیٰ اور بعد میں نظم معریٰ کے نام سے موسوم کی جانے والی نظموں کا اردو میں یہ پہلا نمونہ ہے۔ مولانا اپنی’’ چڑیا کے بچے‘‘ میں مصرع کا ایک نیا تصور سامنے لائے ہیں جو اردو فارسی شاعری کے مصرع کے تصور سے بالکل مختلف ہے۔ لیکن جو انگریزی نظموں میں رائج ہے جس کو مصرع مسلسل کہا جاتا ہے۔
مولانا نے نظموں میں ہیئت کا ایک اور تجربہ کیا۔ انہوں نے اردو ادب میں ’’ابیات‘‘ کا اضافہ کیا۔ فردیات کا رواج زمانہ قدیم سے ہے لیکن مطلع کی صورت میں ایک خیال کو صرف دو مصرعوں میں مرکوز کردینا مولانا کی اختراع ہے۔ انہوں نے ایک مکمل خیال کو قطعہ سے بھی چھوٹی ہیئت میں پیش کرکے اردو شاعری میں ایک نئی صنف کا اضافہ کیا۔
یہ ایجازد بیان اور جامعیت کی نادر مثال ہے۔ ہم اس کو بیت یا یک شعری نظم بھی کہہ سکتے ہیں۔ مولانا نے ہر ’’بیت‘‘ کو ایک عنوان بھی دیا ۔ ان کی ’’ابیات‘‘ ضرب المثل بن کر زبان زد خاص و عام ہے۔
ہیئت میں نئے تجربے کرنے سے مولانا ایک جدید مزاج کے حامل نظر آتے ہیں۔ جب کہ شاعری میں معنوی تسلسل اور اعلیٰ اخلاقی اقدار شامل کرنے کے باعث وہ ایک قدیم ذہن کے مالک نظر آتے ہیں۔ در حقیقت ان کا ذہن قدیم تھا مگر ان کامزاج جدید، قدیم و جدید کے اس حسین امتزاج سے انہوں نے قارئین کے دلوں میں اپنے لئے جگہ بنالی تھی۔ ان کا دو ر ادبی اورسماجی آگہی کا دور تھا، مغربی تہذیب، ادب و شاعری ہندوستان کی زر خیز زمین میں تخم ریزی کررہی تھی۔ اسماعیل میرٹھی نے مغربی شعری و ادبی خیالات کی تازہ ہوا کے لئے اپنے ذہن کی کھڑکیاں کھول دی تھیں اور اس اثر کو اتنی خوبصورتی کے ساتھ اردو شاعری و زبان کے مزاج و کردار سے ہم آہنگ کیا کہ ہماری نظم ہی کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے۔ کوئی انگریزی پیوند کاری نہیں۔
مولانا ا سماعیل میرٹھی کو ادب میں وہ مقام نہیں مل پایا جس کے وہ مستحق تھے۔ ہمارے ناقدین نے انہیں بچوں کا شاعر کہہ کر نظر انداز کردیا جب کہ مولانا اسماعیل میرٹھی پر متعدد نہج اور مختلف زاویوں سے تحقیق کی جانی چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا
کیسی زمیں بنائی ،کیا آسماں بنایا
مٹی سے بیل بوٹے کیا خوشنما اگائے
پہنا کے سبز خلت ان کو جوان بنایا
سورج سے ہم نے پائی گرمی بھی روشنی بھی
کیا خوب چشمہ تو نے اے مہرباں بنایا
ہر چیز سے اس کی کاریگری ٹپکتی
یہ کارخانہ تو نے کب رائیگاں بنایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک پودا اور گھاس
اتفاقاً ایک پودا اور گھاس
باغ میں دونوں کھڑے ہیں پاس پاس
گھاس کہتی ہے اسے ، میرے رفیق!
کیا انوکھا ہے اس جہاں کا طریق
ہے ہماری اور تمہاری ایک ذات
ایک قدرت سے ہے دونوں کی حیات
مٹی اور پانی ، ہوا اور روشنی
واسطے دونوں کے یکساں ہے بنی
تجھ پہ لیکن ہے عنایت کی نظر
پھینک دیتے ہیں مجھے جڑ کھود کر
سر اُٹھانے کی مجھے فرصت نہیں
اور ہوا کھانے کی بھی رخصت نہیں
کون دیتا ہے مجھے یاں پھیلنے
کھا لیا گھوڑے گدھے یا بیل نے
تجھ پہ منہ ڈالے جو کوئی جانور
اُس کی لی جاتی ہے ڈنڈے سے خبر
اولے پالے سے بچاتے ہیں تجھے
کیا عزت سے بڑھاتے ہیں تجھے
چاہتے ہیں تجھ کو ، سب کرتے ہیں پیار
کچھ پتا اس کا بتا اے دوست دار
اُس سے پودے نے کہا یوں سر ہلا
گھاس! سب بے جا ہے یہ تیرا گِلہ
مجھ میں اور تجھ میں نہیں کچھ بھی تمیز
صرف سایہ اور میوہ ہے عزیز
فائدہ ایک روز مجھ سے پائیں گے
سایہ میں بیٹھیں گے اور پھل کھائیں گے
ہے یہاں عزت کا سہرا اُس کے سر
جس سے پہنچے نفع سب کو بیشتر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
اُس مالک کو کیوں نہ پکاریں
جِس نے پلائیں دودھ کی دھاریں
خاک کو اُس نے سبزہ بنایا
سبزے کو پھر گائے نے کھایا
کل جو گھاس چری تھی بَن میں
دودھ بنی اب گائے کے تھن میں
سُبحان اللہ دودھ ہے کیسا
تازہ، گرم سفید اور میٹھا
گائے کو دی کیا اچھی صورت
خُوبی کی ہے گویا مورت
دانہ دُنکا، بھوسی، چوکر
کھا لیتی ہے سب خوش ہوکر
کیا ہی ٍغریب اور کیسی پیاری
صبح ہوئی جنگل کو سدھاری
سبزے سے میدان ہرا ہے
جھیل میں پانی صاف بھرا ہے
پانی پی کر چارہ چر کر
شام کو آئی اپنے گھر پر
دوری میں جو دِن ہے کاٹا
بچے کو کِس پیار سے چاٹا
بچھڑے اُس کے بیل بنائے
جو کھیتی کے کام میں آئے
رَب کی حمد و ثنا کر بھائی
جِس نے ایسی گائے بنائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﮨﻮﻧﮯ ﮐﻮ ﺁﺋﯽ ﺻﺒﺢ ﺗﻮ ﭨﮭﻨﮉﯼ ﮨﻮﺍ ﭼﻠﯽ
ﮐﯿﺎ ﺩﮬﯿﻤﯽ ﺩﮬﯿﻤﯽ ﭼﺎﻝ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺧﻮﺵ ﺍﺩﺍ ﭼﻠﯽ
ﻟﮩﺮﺍ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﮐﮭﯿﺖ ﮐﻮ ﮨﻠﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﺑﺎﻟﯿﺎﮞ
ﭘﻮﺩﮮ ﺑﮭﯽ ﺟﮭﻮﻣﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﭽﮑﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﮈﺍﻟﯿﺎﮞ
ﭘﮭﻠﻮﺍﺭﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﺯﮦ ﺷﮕﻮﻓﮯ ﮐﮭﻼ ﭼﻠﯽ
ﺳﻮﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺳﺒﺰﮦ ﺍﺳﮯ ﺗﻮ ﺟﮕﺎ ﭼﻠﯽ
ﺳﺮﺳﺒﺰ ﮨﻮﮞ ﺩﺭﺧﺖ ﻧﮧ ﺑﺎﻏﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﺠﮫ ﺑﻐﯿﺮ
ﺗﯿﺮﮮ ﮨﯽ ﺩﻡ ﻗﺪﻡ ﺳﮯ ﮨﮯ ﺑﮭﺎﺗﯽ ﭼﻤﻦ ﮐﯽ ﺳﯿﺮ
ﭘﮍﺟﺎﺋﮯ ﺍﺱ ﺟﮩﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﮐﯽ ﺍﮔﺮ ﮐﻤﯽ
ﭼﻮﭘﺎﯾﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺯﻧﺪﮦ ﺑﭽﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺁﺩﻣﯽ
ﭼﮍﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺍﮌﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﮐﮩﺎﮞ ﺭﮨﮯ
ﭘﮭﺮ ﮐﺎﺋﯿﮟ ﮐﺎﺋﯿﮟ ﮨﻮ ﻧﮧ ﻏﭩﺮ ﻏﻮﮞ ﻧﮧ ﭼﮩﭽﮩﮯ
ﺑﻨﺪﻭﮞ ﮐﻮ ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ ﮐﮧ ﮐﺮﯾﮟ ﺑﻨﺪﮔﯽ ﺍﺩﺍ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﺳﮯ ﭼﻠﺘﯽ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺳﺪ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﮐﮩﯿﮟ ﺍﮎ ﻟﻌﻞ ﮐﯿﭽﮍ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﺍ ﺗﮭﺎ
ﻧﮧ ﻗﺎﻣﺖ ﺑﻠﮑﮧ ﻗﯿﻤﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﮍﺍ ﺗﮭﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﺩﮨﻘﺎﮞ ﺍُﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﮔﮭﺮ
ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﻧﮯ ﯾﮧ ﭘﺘّﮭﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﻮﮨﺮ
ﻧﯿﺎ ﺗﺤﻔﮧ ﺟﻮ ﺑﭽّﮯ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ
ﺍ ﮨﺎ ﮨﺎ ﮨﺎ ! ﮐﮭﻠﻮﻧﺎ ﮨﻢ ﻧﮯ ﭘﺎﯾﺎ
ﮨﻮﺋﯽ ﺟﺐ ﻟﻌﻞ ﮐﯽ ﻭﺍﮞ ﯾﮧ ﻣﺪﺍﺭﺍﺕ
ﺗﻮ ﺑﻮﻻ ﺣﺴﺮﺗﺎ ﮨﯿﮩﺎﺕ ﮨﯿﮩﺎﺕ
ﻧﮩﯿﮟ ﺍِﺱ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﻗﺪﺭ ﻣﻤﮑﻦ
ﮐﮧ ﺍﻧﺪﮬﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﯿﺎ ﺭﺍﺕ ﮐﯿﺎ ﺩﻥ
ﺍﮔﺮ ﭘﺎﺗﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﻈﺮ ﺑﺎﺯ
ﺗﻮ ﮐﺮﺗﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﺴﻤﺖ ﭘﺮ ﻭﮦ ﺳﻮ ﻧﺎﺯ
ﺟﻮ ﻟﮯ ﺟﺎﺗﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﺎ ﺩﺭﮔﮧِ ﺷﺎﮦ
ﺗﻮ ﻣﺎﻻ ﻣﺎﻝ ﮨﻮﺗﺎ ﺣﺴﺐ ﺩﻟﺨﻮﺍﮦ
ﺍﺭﯼ ﻧﺎﻗﺪﺭﺩﺍﻧﯽ ﺗﺠﮫ ﭘﮯ ﻟﻌﻨﺖ
ﮐﮧ ﮨﮯ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﻣﺴﺎﻭﯼ ﻧﻮﺭﻭﻇﻠﻤﺖ
ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ ﻋﯿﺒﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﻨﺮ ﺗﻮ
ﮨﻨﺮ ﮐﯽ ﺗﻮﮌ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﻤﺮ ﺗﻮ
ﺧﺪﺍ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺭﮐﮭﮯ ﮨﺮ ﺑﻼ ﺳﮯ
ﺧﺼﻮﺻﺎً ﺗﯿﺮﯼ ﻧﺎﻻﺋﻖ ﺟﻔﺎ ﺳﮯ
ﮐﮧ ﮨﮯ ﺍﻧﺪﮬﮯ ﮐﯽ ﻻﭨﮭﯽ ﺗﯿﺮﯼ ﺑﯿﺪﺍﺩ
ﺟﮩﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺩ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻧﮧ ﻓﺮﯾﺎﺩ
( ٥١ ) ﺟﻨﮓ ﺭﻭﻡ ﻭ ﺭﻭﺱ ۔ ( ۱(؎
ﺣﺎﻻﺕِ ﺭﻭﻡ ﺳﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺩﻥ ﺭﺍﺕ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ
ﺍﺧﺒﺎﺭ ﮐﺎ ﻭﺭﻕ ﻧﮩﯿﮟ ﺧﻮﺍﻥِ ﻃﻌﺎﻡ ﮨﮯ
( ١ ) ﯾﮧ ﻣﺜﻨﻮﯼ ﯾﮑﻢ ﺷﻮﺍﻝ ١٣٩٤ ﮨﺠﺮﯼ ﻣﻄﺎﺑﻖ ١٩ ﺍﮐﺘﻮﺑﺮ ١٨٧٧ ﻋﯿﺴﻮﯼ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﯽ ﮔﺌﯽ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لطف جو اس حال میں ہے بالیقین
دولت دنیا میں آدھا بھی نہیں
سست ہے کلن بایں نازونعم
میں ہوں چاق و چست ہر دم تازہ دم
واں امیرانہ ہے مخمل کا لباس
میں ہوں مفلس میری پوشش ہے پلاس
وہ ہے قیدی ۔ پائے بند ملک و مال
اور میں آزاد ہوں مثل خیال
ڈاکٹر واں بیس ہیں بہر علاج
یاں نہیں ہے ایک کی بھی احتیاج
ہے مصیبت مال و دولت میں بڑی
موت کا دھڑکا ہے اس کو ہر گھڑی
لطف قدرت کا نہیں اس کو نصیب
یہ بہار بے خزاں بھی ہے عجیب
یہ بیاباں یہ سمندر یہ ہوا
گونجتی ہے ان میں قدرت کی نوا
کان سے کلن کی لیکن دور ہے
وہ تو دولت کے نشہ میں چور ہے
راگنی قدرت کی ہر دم ہے چھڑی
میں تو ہوں اس لے کا دیوانہ سڑی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٣٨) موت کی گھڑی ۔۔ (١)
جب کہ طوفاں ہو زندگی میں بپا
گھیر لیں ہر طرف سے موج و ہوا
جب کہ لغزش میں پانو تیرا ہو
اور آنکھوں تلے اندھیرا ہو
بلکہ ہوش و حواس بھی ہوں جدا
ڈر نہ زنہار ۔ رکھ نظر بخدا
(١) یہ نظم انگریزی پوئٹری سے ترجمہ کی گئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔