لال کوٹھی مٹھ کی چوکی سے شہامت گنج جانے والی مین سڑک پر تھی ہمارا گھر لال مسجد کے سامنے ایک کٹ راستہ جو اس سڑک اور کتب خانہ جانے والی سڑک کو جوڑتی تھی اس پر ایک گلی میں تھا۔ ہمارا گھر گلی کے نکڑ سے بڑا سا گھر پھاٹک کے نام سے مشہور دکھائی دیتا تھا ہمارے گھر سے گلی ایل شیپ میں مڑ جاتی ہے جو نکّڑ سے دکھائی نہیں دیتی۔ ہمارے پھاٹک کے برابر میں دودھا ممَّا کا گھر تھا وہ غریب لوگ تھے کئی بھائ تھے جن میں سے منجھلے حمایت چچا ہاتھ ٹھیلا چلاتے تھے۔ صبح وہ ٹھیلے لیکر نکل جاتے دن بھر اس پر سامان ادھر سے ادھر لاد کر لیجاتے اور شام کو ٹھیلا لاکر اپنے گھر کے پاس کنارے پر کھڑا کر دیتے۔ یہ انکا روز کا معمول تھا کہ مغرب سے تھوڑی دیر پہلے آجاتے۔ محلے کے سارے بچوں کو شام میں ٹھیلے کا انتظار رہتا وجہ تھی کہ ہم ٹھیلے کے اگلا حصہ جہاں سے حمایت چچا اس کو پکڑ کر کھینچتے تھے ان دونوں ڈنڈوں کو بم بولا جاتا تھا ہم وہ پکڑ کر لٹک جاتے نتیجہ پچھلا حصہ اوپر اٹھ جاتا۔ اب جیسے ہی ہمارے پیر زمین پر ٹکتے ہم ٹھیلے کے بم چھوڑ دیتے ٹھیلے کا پچھلا حصہ دھڑ کی بہت زور کی آواز سے زمین پر گرتا اور ہم سب بھاگ کر اپنے اپنے گھروں میں چھپ جاتے۔ حمایت چچا غصہ میں باہر نکل کر آتے، اِدھر اُدھر نظر دوڑاتے اور بڑبڑاتے ہوۓ اندر چلے جاتے۔ تھوڑی دیر بعد ہم لوگ پھر نکلتے۔ ٹھیلہ پٹکتے دھڑ کی آواز دوبارہ گونجتی اور گلی خالی حمایت چیختے چلاتے نکلتے ابے کون ہے ابے کیا ٹھیلا توڑو گے کیا۔۔۔ مگر کوئی جواب نہیں ہم چھپے ہوئے پیٹوں میں حمایت چچا کے چیخنے غصہ کرنے سے اٹھنے والی گدگدیوں سے لطف لیتے رہتے۔ یہ روز کا معمول تھا حمایت چچا بیچارے عاجز اور پریشان ہوکر خود کو کوسنے لگتے تب ہم لوگ کے پیٹ میں بل پڑ جاتے مگر مجال کہ ہم لوگوں کی ایک آواز نکل جائے۔
ٹیپو روز مغرب کے وقت کچھ نہ کچھ لینے کے لئے نکلتے۔ ایک دن ٹیپو کچھ لینے جارہے تھے۔ ہم اور ببّو گلی کے نکڑ پر کھڑے تھے۔ ٹیپو خراماں خراماں آرہے تھے ہمیں دیکھ کر اپنے بڑے بڑے دانتوں سے بھرپور مسکراتے ہوئے ہماری طرف چلے آۓ۔ ببّو نے بہت پرجوش طریقہ سے ٹیپو کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ " اماں آؤ ٹیپو کہاں جارہے ہو" "ب بازار جاریا ہوں س سودا سودا لینے" " بات تو سنو ارے یار ٹیپو ہم تمہیں بلا رہے ہیں تم بھاگے جارہے" "نا نا دیر دیر ہو جائے گی آپا ڈانٹیں گی" "اماں ہاں ڈانٹیں گی تم انھیں ڈانٹ دینا، اور کیا" ٹیپو کی بانچھیں کھل ببّو سے یہ جملے سن کر۔ ٹیپو ہمارے اور ببّو کے ساتھ باتوں میں مست ہوگئے اور انکا رخ گلی کے اندر ہوگیا۔ اج ہم ٹیپو سے مزے لینے کے چکر میں تھے۔ تبھی حمایت چچا اپنے ٹھیلے کے ساتھ گلی میں داخل ہوۓ آج پتہ نہیں کیسے انھیں دیر ہوگئی تھی۔ انھوں نے ٹیپو کو دیکھ کر ہانک لگائی۔ "اے ٹیپو راستے سے ہٹ بیچ میں چل ریا ہے۔ " ٹیپو تو ہٹ گۓ راستہ سے مگر ہماری آنکھوں میں چمک اور پیٹ میں گدگدی اٹھنے لگی۔ اج ہماری پلاننگ کچھ اور تھی۔ ٹیپو بازار بھول گئے تھے۔ حمایت چچا ٹھیلہ کھڑا کرکے چلے گئے تھے۔ ایک بار پھر گلی ٹھیلے کی دھڑ سے گونج گئ۔ ٹیپو بڑے بڑے دانتوں سے ہنستے ہوئے بالکل معصوم بچوں کی طرح لگ رہے تھے ہم جلدی سے بھاگ کر چھپ گئے ساتھ میں ٹیپو بھی تھے ہم نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ اج خلافِ معمول چچا باہر نہیں آۓ۔ گلی کے دوسرے بچے بھی نکل آئے اتنے میں ٹیپو گئے چھوٹے سے تو تھے ہی ایک دم اچک کر بم پکڑی اور ٹھیلہ پٹک دیا سارےبچے چھپ گئےہم لوگوں کے ساتھ ٹیپو بھی پھاٹک میں چھپ گئے۔ چچا چیختے ہوئے نکلے "ابے نہیں مانوگے،کیوں جینا حرام کر دیا ہے" ٹیپو کی ہنسی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ ہم جتنا ٹیپو کو زور سے ہنسنے کے لئے منع کرتے ٹیپو بالکل ایک معصوم بچہ کی طرح انجام سے بے فکر ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوئے جارہے تھے۔
ایک بار پھر خاموشی تھی۔ ٹیپو کے دماغ سے ہی نکل گیا تھا کہ انھیں سودا لینے جانا ہے جیسے ہی سارے بچے باہر نکل کر آئے ٹیپو لپک کر ٹھیلہ کی بم پکڑ کر لٹک گئے اور نیچے آتے میں پتہ نہیں کیسے ان کے ہاتھ بم سے پھسل گئے۔ ٹھیلہ تو دھڑ کی آواز سے گرا ہی گرا ٹیپو بھی زمین پر دھپ سے گرے اور ان سے اٹھتے نہ بنے ہم سب جلدی سے چھپ گئے۔ چچا اول فول بکتے ہوئے نکل اۓ تھے ٹیپو ٹھیلہ کے نیچے پڑے ہوئے کراہ رہے تھے۔ چچا نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ٹیپو کو پیٹنا شروع کردیا۔ "ﷲ ﷲ میں نئیں ہوں ارے وہ پھاٹک والے دونوں تھے" ٹیپو کے ایک تو چوٹ لگی تھی اوپر سے چچا کے ہتھّڑ اوپر سے گلی میں کوئی نظر نہیں آیا اب وہ زور زور چیختے ہوئے رونے لگے" میں ابی جارا ہوں ڈاکٹر صاب سے شکایت کرونگا" چچا نے غصہ میں ٹیپو کے سر پر ایک اور دھول جڑ دیا " چل الّو کاپٹھَّا، جا بلا لا ڈاکٹر صاب کو" " ہاں ابی لاؤں گا ڈاکٹر صاب یہیں رک" اور ٹیپو روتے ہوئے چلے گئے پتہ نہیں بازار گئے کہ کوٹھی اور ہم اپنی فکر میں تھے کہ کہیں ٹیپو ڈاکٹر صاحب کو نہ لے آئے اور دادا کے سامنے پیشی ہوجاۓ۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ہم نے دیکھا ٹیپو تین چار دن تک لنگڑا لنگڑا کر چلتے رہے۔ جہاں ہمیں دیکھتے بڑے غصہ سے انگلی اٹھا کر کہتے تمہیں دونوں کو ایک دن دھکہ دوں گا جب گرو گے تو پتہ چلے گا۔ ہم ٹیپو کی اس معصومیت پر بہت محظوظ ہوتے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...