(Last Updated On: )
میں مسافر تنہا رستوں کا
اپنے ہی وجود کی جنگ میں
سرگرداں رفاقتوں کے لئے
تلاش اپنوں کے لمس کی
پیاس در پیاس سلسلہ دراز
کناروں پہ منتظراپنوں کی بازگشت کا
کہ تلاطم جذبات کا اور وحشت دل اور خوف حالات کا
ایک لطیف جھونکا سرگوشی کر گیا
صدیوں کی چاہتوں کو لمحہ بھر کے لئے خیمہ زن کر گیا
اور معصوم راہی خوابوں میں بھٹک گیا
لمحہ میں ساری زندگی جی لی
قدموں میں دریا کی اک لہر نے آکے خوشیوں کے گھروندے سب بے نشاں کر دئے
وہ قہقہے وہ مسکراہٹیں
وہ گرمئ جذبات
ہاں مگر نقوش ابھرے ہیں کچھ یادوں کے
ایک بار پھر تنہا دور فلک پر نگاہوں میں التجا لئے ہوئے
آبدیدہ اپنوں کی خیر مانگتا وہ مسافر
اب بھی تنہا ہے کل بھی تھا
اور
رخت سفر باندھتا اپنوں کی خوشیوں کی چاہت میں
زمانہ کو الوداع کہتا
تنہا مسافر