آموں کے باغوں میں کالی کوٸل گانا گاتی ہے
اس کی پیاری بولی پیارے بچو دل کو بھاتی ہے
کالی رنگت چونچ نوکیلی موتی جیی آنکھیں ہیں
لمبی پتلی چکنی سی دم میں اس کی دو شا خیں ہیں
بھولی لگتی ہے یہ بچو لیکن ہے چا لاک بہت
رکھے رہتی ہے کوے جیسے سیا نے کی تاک بہت
لوگ بتا تے ہیں کہ جب بھی کوی انڈے دیتی ہے
اور أن انڈوں کو وہ جب بھی بیٹھ کے اپنے سیتی ہے
تو بچو یہ بھولی کالی اور گانے والی کو یل
دیکھا کرتی ہے ایسا کوٸی بھی موقعہ آۓ نکل
خالی جب بھی انڈوں کو پل دو پل وہ پا جا تی ہے
بیٹھ کے ان انڈوں کے اوپر خود انڈے دے آتی ہے
بے فکری سے اڑتی گاتی کھاتی گھوما کرتی ہے
اور اسکے انڈوں بچوں کی سیوا کوی کرتی ہے
جب ان بچوں کی کوے کوی کو ہو تی ہے پہچان
کہ بن دعوت کے گھر میں آبیٹھے یہ کیسے مہمان
مارا کو ٹا جاتا ہے ان کو تو یہ اڑ جاتے ہیں
اور اڑ کر سید ھے اپنے ما ں باپ کے گھر آجاتے ہیں
پھر سب مل کر آموں کے
باغات میں دھوم مچاتے ہیں
کھاتے ہیں گا تے ہیں پرویں مل کر شور اٹھا تے ہیں۔۔۔
“