(Last Updated On: )
’’چلوبیٹا!موبائل رکھ دو۔بہت دیرسے لیے بیٹھے ہو!چلوتھوڑی پڑھائی کرو۔‘‘حسن کی والدہ اسے گھورتی ہوئی خفگی کے ساتھ بولیں۔
’’نہیں امی۔مجھے نہیں کرنا پڑھائی۔بعد میں پڑھوںگا۔‘‘حسن نے موبائل سے نظریں ہٹائے بغیر جواب دیا۔
’’بیٹا!چلو رکھ دوموبائل۔۔۔نماز کا بھی وقت ہوگیا ہے۔‘‘انہوں نے نرمی سے دوبارہ اپنی بات پرزوردیا۔
’’جی۔ٹھیک ہے لیکن کچھ دیر بعد۔۔۔ابھی میں ایک مزیدارگیم کھیل رہاہوں۔‘‘جواباًاس کی والدہ کچھ نہیں بولیں لیکن دانت پیس کررہ گئیں۔
’’بڑی غلطی کی جو اسے موبائل خریدکر دیا۔‘‘وہ بڑبڑاتی ہوئی اس کے کمرے سے نکلیں۔
حسن کی والدہ اس سے تنگ آگئی تھیں۔جب سے لاک ڈائون لگایا گیا تھا ،تب سے حسن کے گویامزے ہی مزے تھے۔ وہ دن رات موبائل میں لگارہتاتھا۔کبھی فلم دیکھتا، کبھی پب جی کھیلتا،کبھی کوئی سیریل دیکھتا۔غرضیکہ موبائل اس کے ہاتھ سے الگ ہی نہ ہوتاتھا۔مہینوں ہوئے ،اس نے اپنی کتابوںکی شکل بھی نہ دیکھی تھی۔حسن کی والدہ ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں اورپڑھائی کے معاملے میں کافی سخت تھیں۔لیکن اپنے شوہر کے نہ ہونے اورلاک ڈائون کی شکل میں غیرمعینہ مدت کی چھٹیوں سے وہ حسن کے سامنے کمزورسی پڑگئی تھیں۔حسن کے والد اپنی نوکری کی وجہ سے دوسرے شہرمیں رہائش پذیر تھے اور اچانک لاک ڈائون کی وجہ سے وہیں پھنسے رہ گئے تھے۔ اسکول اورکالجز بندہونے کی وجہ سے حسن پڑھائی کی فکر اورامتحان کے ڈرسے آزادموبائل میں مگن ہوگیاتھا۔پڑھائی اورمطالعہ سے اسے چڑسی ہوگئی تھی۔
حسن کے کمرے سے نکل کر وہ کچن میں آئیں اوراپنے بقیہ کام نپٹانے لگیں۔ساتھ ہی وہ حسن اوراس کی پڑھائی کو پرانی ڈگرپر لانے کی تدبیر بھی سوچے جا رہی تھیں۔وہ حسن کے ساتھ سخت رویہ بھی اختیارکرسکتی تھیں لیکن انہیں یہ سب گوارانہ تھا۔وہ حکمت عملی پریقین رکھتی تھیں اورایک موثرطریقہ کارکے ذریعہ حسن کو سبق سکھا کر راہ ِراست پرلاناچاہتی تھیں۔ آخرکار انہیں ایک تدبیر سوجھ گئی ۔ان کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑگئی۔وہ تیزتیزقدموں سے اپنے کمرے میں پہنچیں۔اپنے موبائل سے حسن کے والد کوفون لگایا۔ان سے کچھ دیر بات کی ،انہیں اپنی تدبیر بتائی اورسمجھانے لگیں۔
شام کو حسن عصر کی نماز پڑھ کر سودا سلف لانے گیا۔ جب وہ واپس آیا تو اس کی والدہ اس سے مخاطب ہوئیں۔’’حسن بیٹا!تمہارے والد کا فون آیا تھا۔وہ تم سے بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘اتنا سنناتھاکہ حسن خوش ہوگیا اورفوراً اپنے والد کو فون لگایا۔ خیریت دریافت کرنے کے بعد اس کے والد نے گفتگوآگے بڑھائی۔پہلے انہوں نے مشہورزمانہ سیرئیل ’ارطغرل غازی‘، جسے وہ کئی راتوں کی نیند قربان کرکے دیکھتارہاتھا،اسی سے متعلق کچھ سوالات کیے جن کے وہ جوابات دیتارہا۔پھر اس کے والد نے اس سے اس کی پڑھائی کے تعلق سے سوالات کرنا شروع کیے۔انہوں نے حسن سے سائنس ،تاریخ اور جغرافیہ کے کچھ سوالات کیے۔حسن اپنے ذہن پرزوردینے کے باوجوداُن سوالوں کے جوابات نہ دے پایا۔اُسے شرمندگی محسوس ہوئی۔ اب اس کے والد نے اردو،انگریزی اورہندی کے کچھ الفاظ کے معنی جاننا چاہے ۔حسن نے اپنے ذہن کو ٹٹولا لیکن پورے یقین کے ساتھ جوابات نہ دے پایا۔ والد نے افسوس ظاہرکیاتو اس کی آنکھوں میں آنسوآگئے۔اس کی والدہ اس کے چہرے پرابھرنے والے تغیرات کو بغوردیکھ رہی تھیں اوراپنی تدبیر کوکارگرثابت ہوتے دیکھ من ہی من خوش ہورہی تھیں۔حسن کے والد نے اُسے سمجھایا۔انہوں نے کہا، ’’بیٹا،انگریزی زبان میں ایک کہاوت ہے۔’Excess of everything is bad
ہرچیزکاحدسے زیادہ ہونا،براہوتاہے‘۔اورمجھے معلوم ہواہے کہ تم موبائل فون کا استعمال حدسے زیادہ کررہے ہو۔ بیٹا!اس کا نتیجہ بہت براہوسکتاہے۔تمہارامستقبل اس سے متاثرہوسکتاہے۔‘‘پھرانہوں نے اُسے پڑھائی کرنے کی تلقین کی۔ حسن نے سنجیدگی سے پڑھائی کرنے کا وعدہ کیا۔کچھ دیرمزید سمجھانے کے بعد انہوں نے فون رکھ دیا۔
’’کیاہواحسن بیٹا!کیاابونے تمہیں ڈانٹا؟‘‘اس کی والدہ نے انجان بن کر پوچھا۔
’’نہیں امی۔ابونے تومیری آنکھیں کھول دی۔آج میں نے ابو کے سامنے بڑی شرمندگی محسوس کی۔‘‘اورحسن نے پوری بات کہہ سنائی۔
’’بیٹا!پڑھائی سے مسلسل منقطع رہنے کی وجہ سے تمہاری یہ حالت ہوگئی کہ تم سب کچھ بھول گئے ہو۔‘‘اس کی والدہ مسکراتی ہوئی بولیں۔’’میں نے اس دوران تمہیں کتنا سمجھایاکہ پڑھائی پر دھیان دولیکن تم نے میری ایک نہ سنی۔ابھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے۔پڑھائی میں دل لگائواور موبائل کااستعمال کم کردو۔فضولیات میں وقت ضائع نہ کرو۔ابھی اسکول کھلنے میں وقت ہے۔تب تک تم اگلی جماعت کی بھی پڑھائی کرلو۔خصوصی طورپرزبانوں پرعبورحاصل کرو۔عربی زبان سیکھنا شروع کردو۔ کتابوں کا مطالعہ کرو۔قرآن مع ترجمہ و تفسیر پڑھنے اورسمجھنے کی کوشش کرو۔اِس لاک ڈائون کو ایک موقع سمجھ کر خود کو سنوارو۔‘‘
’’جی امی۔اِن شاء اللہ ،میں اب آپ کی تمام باتوں پرعمل کروںگا۔‘‘حسن کی آنکھیں نم ہوگئیں اورامی نے اسے گلے لگالیا۔