آج گھر میں چہل پہل تھی اور ہوتی بھی کیوں نہیں آج ثنا کی نئ امی جو گھر آنے والی تھیں۔ طویل علالت کے بعد ثنا کی والدہ شہناز کے انتقال سے گھر میں جو سوگواری کا ماحول طاری تھا وہ ماریہ کے آنے سے بہت حد تک دور ہوگیا تھا۔ ثنا اور اسکے چاروں بھائ بہن بے حد خوش تھے۔ ثنا پندرہ برس کی تھی اور دسویں کی طالبہ تھی۔ بھائ بہنوں میں سب سے بڑی ہونے کی وجہ سے اس میں احساسِ ذمہ داری نمایاں تھا۔ اس سے دو برس چھوٹا جاوید آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ تیسرے نمبر پر شاکر تھا جو جاوید سے تین برس چھوٹا تھا اور پانچویں میں پڑھتا تھا۔ شاکر سے دو برس چھوٹی نیہا تیسری جماعت کی طالبہ تھی اور چار برس کی لاڈلی شمع مانٹسری جایا کرتی تھی۔ سگی ماں کی جدائ کا زخم نئ امی کے آنے سے بھرنے لگا تھا۔ بچے نئ امی سے اپنے لاڈ اٹھوانے کے لئے بے چین تھے ۔ وہ ممتا کے لمس کو پھر سے محسوس کرنا چاہتے تھے۔ بچے دوڑ دوڑ کر نئ دلہن کی ناز برداریاں کرتے۔ نئ امی کو ہر ممکن خوش رکھنے کی کوشش کرتے ۔ کبھی جو ماریہ سر درد کی شکایت کرتی تو ثنا جھٹ تیل لے کر سر کی مالش کو پہنچ جاتی۔ رات کو بغیر بچوں سے پیر دبوائے ماریہ کو نیند نہیں آتی تھی۔ نئ دلہن کی خاطر داریاں میں اسی طرح ایک ماہ گزر گیا۔ ایک دن اچانک وسیم نے بچوں کو اپنا اپنا بیگ تیار کرنے کو کہا۔ بچے یہ سوچ کر بہت خوش ہوگئے کہ ابو انہیں کہیں گھمانے لے جا رہے ہیں۔ معصومیت عروج پر تھی اور ارمان پر لگا کر اڑ رہے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد وسیم نے بچوں کو باہر کھڑی ٹیکسی میں جا کر بیٹھنے کے لئے کہا۔ وہ خوشی سے اپنا اپنا بیگ لئے دوڑ پڑے۔ ثنا بھی ماریہ کو سلام کرنے کے بعد گاڑی میں آ بیٹھی۔ ٹیکسی اپنی منزل کو رواں دواں ہوگئ۔ تقریباً ایک گھنٹہ کے سفر کے بعد جب اُن کی ٹیکسی اُن کی نانی کے گھر آ کر رُکی تو بچے خوشی سے اچھل پڑے ۔ ایک ہی شہر میں رہنے کے باوجود پہلے وہ صرف گرمیوں کی چھٹیوں میں ہی نانی کے گھر آیا کرتے تھے۔ وجہ انگلش میڈیم کے نصاب کا بوجھ اور منتھلی ٹسٹ تھا لیکن آج نئ امی کی بدولت انہیں یہ انمول خوشی نصیب ہوگئ تھی۔ ننھیال انکی خوشی سے جگمگانے لگا تھا۔ بچے نانی سے محبت کے بوسے لینے کے بعد اپنے ماموں زاد بھائ بہنوں کے ساتھ آنگن میں اودھم مچانے لگے ۔ وسیم بھی اپنی ساس رضیہ بیگم سے ملنے انکے کمرہ کی طرف بڑھا۔ اس کے سسر کا انتقال چھہ سال قبل ہوچکا تھا۔ تب سے گھر کے تمام اہم فیصلے رضیہ بیگم کی مرضی سے ہی ہوا کرتے تھے۔ رسمی کلمات ادا کرنے کے بعد وسیم ان سے کہنے لگا۔ "امی ! ماریہ بچوں کے ساتھ ایڈ جسٹ نہیں کر پا رہی ہے اور میری بھی اتنی آمدنی نہیں ہے کہ انکی کفالت بہتر طور پر کر سکوں۔ اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ آپ انہیں ان کے ماموں کے حوالے کر دیں ۔ آپ کے بیٹے معاشی طور پر خوشحال ہیں اس لئے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے ان کا اپنے ماموں کے ساتھ رہنا ہی مناسب ہوگا۔" یہ کہہ کر وسیم سلام کر کے جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔ رضیہ بیگم یہ سن کر حیرت و صدمے میں دوچار ہو گئیں۔ دروانے کی آڑ میں کھڑی ثنا جو اپنا بیگ نانی کے کمرہ میں رکھنے آئ تھی وسیم کی باتیں سن کر وہیں ساکت کھڑی رہ گئ۔ وہ پھٹی پھتی آنکھوں سے بھائ بہنوں کو کھیلتے دیکھ رہی تھی ۔ وہ آسمان سر پر اٹھا رہے تھے لیکن اس بات سے انجان تھے کہ ان کے ابو انکے لئے "نئ امی" کی نوید نہیں بلکہ "سوتیلی ماں" کا وجود لائے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...