رمضان کا مہینہ بڑی برکتوں والا، نورانی راتوں والا اور وہ بھی بچوں کے لئیے کیا کہنے۔ رمضان کی روحانی عبادتوں سے مسرور بچے اور پھر عید کے آنے کے انتظار کی امنگیں اور تر نگیں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ جب کسی بچہ کا پہلا روزہ ہوتا ہے۔ ان خوشیوں کا تو ذکر ہی بڑا سہانہ ہوتا ہے جیسے ایک عجیب طرح کی روحانی خوشیوں کی وادی کی سیر کر رہے ہوں۔
ہمارا بھی پہلا روزہ ایسا ہی کچھ تھا۔ ہمارا جب پہلا روزہ رکھایا گیا، اس وقت ہماری عمر دس سال تھی اور سن تھا١٩٦٩ اپریل کا مہینہ، ہمارا بڑا سا آنگن جہاں پورے آنگن میں خاندان کے تمام لوگوں کی چارپائیاں، بچوں کے کھٹولے بچھتے تھے گرمی ہونے کے باوجود بغیر پنکھے اور اے سی کے سکون کی نیند سوتے تھے۔
جب ہمارا پہلا روزہ ہوا تو رمضان گرمیوں میں آۓ جبکہ ہم سچی بات بتائیں ہمیں سردیوں میں روزے اچھے لگتے تھے۔ اس وقت ایک عجیب بات تھی ہم امی سے کہتے ہم کل روزہ رکھیں گے وہ کہتیں تم ابھی چھوٹے ہو اگلے سال رکھنا۔ اب جس سال ہمارا روزہ ہوا ہم سے ہماری امی کہتی رہیں، ابھی نہیں الوداع کا جمعہ آۓ گا تب رکھنا۔ ہم رونے لگتے تو ہمارا پورا گھر ہمیں بہلانے لگتا۔ ارے بھیَّا الوداع کے دن چھوٹے بچے پہلا روزہ رکھتے ہیں اس دن ﷲ میاں بہت خوش ہوتے ہیں اور بہت انعام دیتے ہیں۔ ظاہر ہے ہم چھوٹے تھے تو ہم بھی سمجھ گئے کہ الوداع کا پہلا روزہ رکھنے میں ﷲ پاک بہت سا انعام دیں گے۔
ہمیں چونکہ روزہ رکھنا تھا اس لئے، ہم الوداع کا انتظار ایک ایک دن گن کر کررہے تھے۔ ہم سب کے ساتھ سحری میں اٹھ جاتے، مسجد میں ساری نمازیں ادا کرتے روز قران کا سوا پارہ پڑھتے ہماری امی نے بتادیاتھا کہ تم اسطرح پڑھوگے تو الوداع کے دن تمہارا قران بھی مکمل ہو جائے گا۔ افطار کے بعد تھوڑا آرام کرتے اور عشاء کی اذان ہوتے ہی مسجد پہنچ جاتے تراویح پڑھنے کے بعد ہم اور چچا زاد بھائی ببوّ ساتھ میں للّو حلوائی کی تازہ جلیبی کھاتے ہوئے آتے۔ یہی رمضان کی رونقیں ہوتیں۔ خیر الوداع قریب آ گئی۔ الوداع کے دو دن بعد عید تھی۔
ہمیں الوداع کی رات نیند نہیں آرہی تھی، ہمیں لگتا تھا اگر ہم سو گئے تو ہمیں سحری میں کوئی اٹھاۓ گا نہیں۔ جیسے ہی سحری میں جگانے والے بڑے میاں کی آواز ہمارے کانوں میں پڑی "اٹھو روزداروں سحری کا وقت ہوگیا" ہم جلدی سے اٹھ بیٹھے، ہمارے ساتھ ساتھ ببوّ اور ہمارے تایا زاد بھائی عابد بھی اٹھ گئے کیوں کہ ان کا بھی پہلا روزہ تھا۔ ہمارے لیے دودھ جلیبی کی سحری تھی۔ ہم لوگوں کو دادی نے سحری دی۔ ہم نے سحری کھائ، پانی پیا تب تک سحری ختم ہونے کا سائرن ہونے لگا۔ اب سب لوگ ہم لوگوں کو روزہ کی نیت پڑھانے لگے، بھیّا نیت کی دعا تو پڑھو
بِصَّومِِ غَدِانَّوَیتُ مِن شَہرِ رَمَضان۔ ہم نے اپنے والد صاحب کی بتائ دعا پڑھی۔ اذان ہوچکی تھی ہم لوگ فجر پڑھنے چلے گئے۔ اج ہمارا قران بھی مکمل ہونا تھا۔ ہم نے آخری پارہ پڑھا اور ہمارا قران مکمل ہوگیا۔ امی نے ہم سے کہا تھا قران ختم کرنے کے بعد ﷲ سے خوب دعائیں مانگنا ہم نے بہت سی دعائیں بہت دیر تک مانگیں۔
گرمی بہت ہورہی تھی اور ہمیں نیند بھی آرہی تھی ہم سو گئے۔
ظہر سے پہلے ہم اٹھ گئے امی نے ہم سے غسل کرنے کے لئیے کہا ہم جلدی جلدی نہا کر آئے۔ دادا نے ہمارا نیا قمیص پائجامہ بنوایا تھا(اس وقت کالر دار لمبی قمیص پہنی جاتی تھی) سفید قمیص پائجامہ ہم نےبڑی خوشی سے جلدی جلدی پہنا سر پر کالی مخملی رامپوری ٹوپی جو ہم والد صاحب کے ساتھ خاص روزہ کے لئیے لیکر آۓ تھے پہنی اور مسجد نماز کے لیئے جانے لگے تو ہمارے تایا نے ہم سے پوچھا "بھیَّا غسل خانہ میں پانی تو نہیں پی لیا" ہم نے نہیں میں سر ہلایا تو وہ بولے "شائید دھوکے میں پی لیا ہو" ہم نے پھر جواب دیا نہیں سچی بات نہیں پیا۔ وہ پھر مسکراتے ہوئے بولے دیکھ لو یاد کر لو۔ ہم نے کہا ارے نہیں پیا اور رونے لگے۔ ہماری بڑی پھوپھی جلدی سے بولیں"ارے بھیا اسے کیا معلوم نہیں پانی پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اس نے پانی نہیں پیا۔ جاؤ بھیا نماز کو جاؤ" اور سب ہنسنے لگے۔
ہم نماز پڑھ کر واپس آئے تو ہمارے گھر میں بڑی گہماگہمی تھی۔ہمارے بڑے سے آنگن میں افطار بنانے کی تیاریاں چل رہی تھیں خاندان کی تمام عورتیں لگی ہوئی تھیں۔ کوئی چھولے، تو کوئی پھلکی ،کوئی دہی برے اور کوئی پلاؤ غرض یہ کہ ہر کوئی کچھ نہ کچھ پکا رہا تھا۔ اس زمانے میں اس طرح کی تقریبات میں نانبائ وغیرہ کھانہ نہیں بناتے تھے نہ باہر سے ریڈی میڈ افطار کا انتظام ہوتا تھا۔ ہمارے لیئے سارے رشتے داروں نے کپڑے بناۓ تھے ہم ببّو اور عابد پھولے نہیں سما رہے تھے۔ عید سے پہلے اتنے کپڑے بن گئے تھے۔ عید کے جوڑے تو بنے ہی تھے۔ لیکن ایک پریشانی ہوگئی۔ ہمارے چچا ہم سے بہت محبت کرتے تھے۔ انھوں نے ہمارے دو جوڑے بنا دئیے تھے عابد کو جو یہ پتہ چلا وہ رونے لگا کہ میرا ایک جوڑا بنایا اب چچا میاں نے عابد کو بہلایا کہ تمہیں بعد میں لا دیں گے۔ مگر عابد روتا ہی رہا۔ شام ہو چلی تھی ، گرمی بھی اچھی خاصی تھی، اب ہمیں بھوک اور پیاس ستا رہی تھی۔ بمشکل تمام عصر کی نماز پڑھ کر آئے ایک تو گھر میں افطاری کی مسحورکن خوشبو دوسرے ہم لوگوں سے ہر کوئ پوچھ رہا تھا۔ بھیّا بھوک تو نہیں لگ رہی، ہاں بھّیا پیاس تو نہیں لگ رہی اور ہم اپنی کیفیت کیا بیان کرتے بس نفی میں گردن ہلا دیتے اگر ﷲمیاں کے ناراض ہونے کا ڈر نہ ہوتا تو روزہ توڑ دیتے اور کھانے کی چیزوں پر جھپٹ پڑتے۔
پورے آنگن میں چارپائیاں بچھا دی گئی تھیں، افطار سے پہلے ہمارے انگن میں چارپائیاں عورتوں مردوں سے بھر گئ تھیں۔ کوئی بھی عورت آتی وہ ہم لوگوں کو پیار کرتی اپنی کنپٹیوں پر دونوں ہاتھوں کی انگلیاں چٹکاتی ساتھ میں یہ ضرور کہتی اے ہے بچے کا بھوک پیاس سے منہ نکل آیا۔ اور ہمارے ہاتھ پے دو، پانچ یا دس روپۓ رکھ دیتی۔ ہمارے پاس اچھی خاصی رقم ہوگئی ہمیں روزہ تو لگ رہا تھا مگر پیسوں کی ایسی بوچھار سے اندر ہی اندر خوش تھے اور عید کی سیر کے لیے دماغ میں منصوبے تیار کر رہے تھے۔ افطار کا وقت ہوچلا تھا انگن میں چارپائیوں پر سب کے سامنے افطاری سجی تھی۔ بیٹھک میں دادا ہمارے بابو تایا چچا پھوپھا اور مسجدوں مدرسوں کے مولانا بیٹھے تھے ہم لوگوں کو بھی وہیں بلایا گیا۔ بڑے احتمام سے ہمارے سامنے بھی افطار لگایا گیا۔ اتنے میں سائیرن بج گیا۔ سب نے افطار کی دعا پڑھی۔ اَللّٰھُمَّ لَکَ سُمتُ وَبِکَ آمنتُ وَاِلَیکَ تَوَکَّلتُ وَعَلَى رِزقِکَ اَفطَرتُ
اور ہم سب نے کھجور سے افطار کیا ہمارے دادا نے ہم سے کہا بیٹا ایک دم پانی مت پینا طبیعت بگڑ جائے گی پہلے کچھ کھالو پھر پانی پینا۔ ہم نے وہی کیا۔ اس طرح ہمارا پہلا روزہ گذرا جو ہماری یادوں کی البم میں سجا ہے۔ معلوم ہے اس سال کی ہماری عید بھی بہت شاندار گذری۔ ہم ایک ہفتے تک نئے کپڑے پہنتے رہےاور خوب پیسوں سے چیزیں خریدتے رہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...