’’نہیں ابو! مجھے آپ کی بیساکھی کی ضرورت نہیں۔‘‘
عدنان کی اس بات پر پورے گھر میں سناٹا چھا گیا۔ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ یعقوب صاحب کا سب سے چھوٹا اور سب سے لاڈلابیٹا انہیںاتنی بڑی بات بول جائے گا۔
’’ ابو! مجھے آپ ہاتھ پکڑ کر میرے پسندیدہ راستے کی طرف لے جائیں۔ اپنی مرضی کو میری بیساکھی نہ بنائیں۔‘‘
’’ چپ رہ بے وقوف۔ آج تک کسی نے بھی ابو سے ایسی بات نہیں کی ہے۔‘‘ بڑے بھیا اس کے کان کے پاس دھیرے سےغرائے۔
’’ نہیں بھیا! اگر میری بات غلط ہوتو ٹوکیں۔‘‘
’’ واہ میرے لال! تیری زبان تو گز بھر کی ہوگئی ہے۔‘‘ منجھلے بھیا بھی اس کے کان میں بدبدائے۔
بات ہی ایسی تھی۔ خاندان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ابو نے سب کو جمع کرکے کسی بچے کے مستقبل کے بارے میں باتیں کی تھیں اور اس کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ سنایا تھاورنہ اس سے پہلے بچوں کے کریئر کے بارے میں سوچنے اور فیصلہ کرنے کا کام یعقوب صاحب نے ہی کیا تھا اور ان کا فیصلہ پتھر کی لکیر ہوتا تھا۔
پچھلے دنوں اسکول میں دسویں کے بچوں کے سرپرستوں کے لیے ایک میٹنگ منعقد ہوئی تھی۔ اس میں والدین کے سامنےکریئر پلاننگ سے متعلق کئی اہم باتیں رکھی گئیں۔ یعقوب صاحب کو محسوس ہوا کہ اس مرتبہ سب سے چھوٹے بیٹے کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے سے پہلےسب سے مشورہ کرنا چاہئے اسی لیے آج سب کو جمع کیا تھا۔ انہوں نے سب کو اسکول میٹنگ کی باتیں بتائیں۔ڈرتے ڈرتے سب نے ہی کچھ نہ کچھ کہا مگربات اس وقت بگڑگئی جب باتوں باتوں میں یعقوب صاحب نے کہہ دیا کہ عدنان کو اس کے بڑے بھائی کی طرح ایک ڈاکٹر بننا ہے۔
یہ بھی ایک حیرت انگیز ردّعمل تھا کہ یعقوب صاحب عدنان کی اس بدتمیزی پر بھڑکے نہیں بلکہ اچانک چپ ہوگئے۔ ایسا لگا بیساکھی والی بات ان کے دل پر تیر بن کر چبھ گئی۔
ریحانہ بیگم کو صدمے سے نکلنے میں کچھ وقت لگا مگر وہ ہڑبڑا کر بولیں، ’’ عدنان! تم کو احساس ہے کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔‘‘
’’ ہاں امّی! مجھے اپنی بات کہہ لینے دیں پھر آپ لوگ فیصلہ کرنا۔‘‘
’’ ٹھیک ہے بیٹا اپنی بات کہہ لو۔ مگر یاد رکھنا۔۔۔۔ تمہارے دونوں بھائیوں کے مستقبل کا فیصلہ میں نے لیا تھا۔ اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ وہ دونوں آج اپنے پیشے میں کامیاب ترین مانے جاتے ہیں۔‘‘
’’ ٹھیک ہے ابّو! میری باتیں کڑوی لگیں تو میں آپ کے قدموں میں گرکرمعافی مانگ لوں گا مگر مجھے اپنی باتیں کہنے دیں۔‘‘
’’ایک کام کرو بیگم! پہلے سب کے لیے شربت منگواؤ۔ پھرسکون سے بیٹھ کر بات کریں گے۔‘‘ آج یعقوب صاحب بھی پتہ نہیں کس موڈ میں تھے۔
’’ ہمارے اسکول میں آنے والے ایک لکچرر نے بتایا تھا کہ بچوں کے مستقبل کا فیصلہ ماں باپ کو کرنا چاہئے مگر اس فیصلے میں بچوں کو پوری طرح شامل ہونا چاہئے۔‘‘ عدنان نے کہا۔
’’ بول لے بھیا! آج تیرا دن ہے۔ ‘‘ منجھلے بھیا نے چٹکی لی۔ وہ ایک کامیاب ڈاکٹر اور مشہور شاعر تھے۔ ان کی بات سن کر عدنان ان کی طرف گھوما مگر وہ جلدی سے بولے، ’’ ابو کی طرف دیکھ کر بات کرو بھائی۔‘‘
’’ ابو! آپ نے سوچا بھیا اتنے مشہور شاعر کیوں ہیں۔انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ بچپن سے ہی ایک شاعر اور ادیب بننا چاہتے تھے۔ آپ چاہتے تھے کہ وہ ڈاکٹر بنیں۔ حالاں کہ وہ ڈاکٹری کے داخلہ امتحان میں فیل ہوگئے تھے مگر آپ نے ایک موٹی فیس بھر کر ان کا ایک نئے میڈیکل کالج میں داخلہ کروادیا۔ وہ صرف ایک ڈگری لے پائے جب کہ آپ چاہتے تھے کہ وہ خوب پڑھیں۔۔۔۔۔ آپ نے ان کے لیے ایک ملٹی اسپیشلیٹی ہاسپٹل بھی کھڑا کردیا۔ اب وہ ایک مشہور دواخانہ بن چکا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں وہ دواخانہ بھیا کی وجہ سے نہیں بلکہ وہاں آنے والے دوسرے ماہر ڈاکٹروں کی وجہ سے مشہور ہے۔ ‘‘
یعقوب صاحب کی آنکھیں دھندلاسی گئیں۔ انہوں نے سرہلایا اور عدنان کو اپنی بات جاری رکھنے کا اشارہ کیا۔
’’ یہ باتیں بڑی فلمی لگ رہی ہیں۔ انہیں فلموں تک ہی رہنے دو عدنان۔‘‘ بڑے بھیا بولے۔’’ زندگی کا رنگ الگ ہوتاہے۔ مجھے دیکھو۔ کیامیرے بارے میں ابو کا فیصلہ غلط تھا۔‘‘
’’ بڑے بھیا! آپ کے بارے میں بھی ابو نے ہی فیصلہ لیا تھا اور خوش قسمتی سے وہ فیصلہ بالکل درست نکلا۔ انجینئرنگ کی باتیںتوآپ کی رگ رگ میں بھری ہوئی ہیں اسی لیے آج آپ پورے ملک میں جانے جاتے ہیں۔‘‘
بڑے بھیا نے بڑے فخر سے منجھلےبھائی کی طرف دیکھا جوابھی تک عدنان کی بات پرکسمساتھے تھے تو وہ تڑ سے بولے، ’’مجھے ایسے نہ دیکھیں۔ میں بھی عالمی سطح پر ایک جانا مانا شاعر ہوں۔‘‘
یعقوب صاحب ہنس دیے مگر ان کی ہنسی میں موجود کھوکھلا پن محسوس کرریحانہ بیگم لرز اٹھیں اور بولیں، ’’ عدنان! تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ تمہارے ابو کے سب فیصلے غلط ہوتے ہیں۔‘‘
’’ نہیں امّی!‘‘ عدنان تڑپ کر بولا۔ ان کے فیصلے غلط نہیں تھے کیوں کہ اُس وقت یہ باتیں عام نہیں تھیں کہ بچوں کے مستقبل کے بارے میں کیسے اور کس طرح فیصلہ کرنا چاہئے۔ آج بیداری پیدا ہوچکی ہے۔آج تو ہمیں ان باتوں کا دھیان رکھنا ہوگا نا!‘‘
’’ آخر تم کہنا کیا چاہتے ہو۔‘‘ یعقوب صاحب نے پوچھا۔
’’ ابو! میں بھی بھیا کی طرح انجینئر بننا چاہتا ہوں ڈاکٹر نہیں۔۔۔۔۔ مگر پہلے آپ کسی ماہر سے میری کونسلنگ کروالیں۔آپ میرے استاد سے بھی معلومات لے لیں۔آپ سب لوگوں نے تو مجھے مشینوں کو بناتے بگاڑتے دیکھا ہے نا۔۔۔۔۔ ‘‘
’’ بگاڑتے زیادہ دیکھا ہے بیٹا۔ مگر ابھی کچھ دنوں پہلے تم نے بگڑا ہوامکسر ضرور بنالیا تھا۔‘‘ ریحانہ بیگم اس کی بات درمیان میںاچک کر بولیں۔
’’ابو! پچھلے دنوں اسکول میں کونسلنگ کے لیے ایک سر آئے ہوئے تھے۔ میراایک دوست جو بہت غریب ہے، اس کے والد سے کہہ رہے تھے کہ آپ کا بیٹا کمپیوٹر انجینئر بن سکتا ہے مگر وہ پڑھائی کے لیے امریکہ جانا چاہتا ہے۔ اسے امریکہ پڑھائی کے لیے ضرور بھیجنا۔‘‘
’’ واو!امریکہ ۔۔۔۔۔پڑھائی کے لیے!‘‘ بڑے بھیا بے ساختہ بولے۔
’’ ہاں ۔ مگر وہ لوگ بہت غریب ہیں۔ مگر اس کے ابو اسے امریکہ بھیجنے کے لیے تیار ہوگئے۔‘‘
’’ اس کے ابو کیسے تیار ہوگئے؟‘‘ یعقوب صاحب نےچونک کر پوچھا، ’’ امریکہ میںپڑھائی کے اخراجات تو بہت ہی زیادہ ہوتے ہیں ۔ وہ کیسے بھیجیں گے اسے؟‘‘
’’ ابو! سر بتا رہے تھے کہ اب ذہین اور اچھے رزلٹ والے بچوں کوگورنمنٹ اور دوسرے اداروں سے ایسی ایسی اسکالرشپ مل جاتی ہے کہ کوئی ذہین بچہ دنیا کے کسی بھی ملک میں جاکروہاں کی یونی ورسٹیوں میں اپنی پڑھائی پوری کرسکتا ہے۔ اس کے والدین کو ایک پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔‘‘
’’ مجھے ان سب باتوں کا پتہ ہی نہیں تھا۔‘‘ یعقوب صاحب نے سادگی سے جواب دیا۔ ’’یہ تو اچھی بات ہے کہ اب اسکولوں میں ہی تمام باتیں طے کرلی جاتی ہیں۔ مجھے لگتا ہے اب ذہین بچوں کا مستقبل تباہ نہیں ہوتا ہوگا۔۔۔۔۔۔ مگر بیٹا! تم نے بیساکھی لفظ کا استعمال کیوں کیا تھا؟‘‘
’’ابو! مجھے معاف کریں۔ مگر اسکول میں ہمارے کونسلر نے کہا تھا کوشش کرنا کہ اپنی صلاحیتوں کے بل پر اپنا کریئر بناؤ۔ اس سے پہلے جانچ لینا کہ تم اس کریئر کے لیےموزوں و مناسب ہویا نہیں۔ایسا نہ ہوکہ تم کسی دوست کو دیکھ کر یا کم معلومات کی بنیاد پر کسی کریئر کو اپنالو ۔ یہ بات تمہارا کریئر برباد کردے گی۔ پھر تم زندگی کے راستے پر دوڑنے کے قابل نہیں رہ جاؤگےاور تمہیں اپنی زندگی گھسٹ گھسٹ کرکسی بیساکھی ہی کے سہارے گزارنا پڑے گی۔‘‘
“