بچوں کے جنسی استحصال پر عدالتوں اور نت نئے قوانین سے کیا ہوگا ؟ مکھی ہر مکھی نہ بٹھائیں بلکہ پرائمری سطح پر بچوں اور بچیوں کو الگ الگ قرآن و حدیث میں جو جنسیات و بلوغت کے احکام ہیں اس سے بدتریج آگاہ کریں جیسے کہ حیض و نفاس و مباشرت کے بارے میں کھل کر بتایا ہے
اوریا مقبول جان ، ہارون الرشید اور دیگر بیمار ذہن اسکول میں بچے بچیوں کو جنسی آگاہی فراہم کرنے کو “شرم” و “غیرت” اور الحاد کا مسئلہ بنا رہے بتارہے ہیں زرا غور سے سورہ البقرہ میں بیوی کیساتھ مباشرت کرنے کے جو آداب بتائے گئے ہیں اس پر تفسیر ابن کثیر پڑھیں
مولانا اسماعیل سلفی صاحب نے کئ منکرین حدیث کو جنہوں نے احادیث پر “فحش” کا الزام اپنے جہل کی وجہ سے دھرا تھا انکی ایسی تیسی کرکے رکھ دی تھی اپنی تصنیف “حدیث اور حجیت حدیث” میں اور قرآن سے رد کیا تھا ایسی واہی بکواس کو۔ والدین اور ریاست بچوں کو آگاہ کریں
اس ضمن میں امام ابن حزم الاندلسی الظاہری اور قاضی ابوبکر بن العربی المالکی کی رائے یہ ہے کہ “عصمت دری” حرابہ (فساد فی الارض) میں آتی ہے اور اسکی سزا مجرم کے ہاتھ پیر مختلف سمتوں سے کاٹے جائیں اور سولی دی جائے ۔ تمام صوبائ دارالخلافوں میں سرعام دی جائے
احادیث صحیحہ میں صاف صاف لکھا ہے کہ لڑکا اور لڑکی چاہے سگے بہن بھائ کیوں نہ ہوں ۹/۱۰ سال کے بعد انکے بستر الگ کردو ، ایک چادر میں دو بھائ یا دو بہن بھی اس عمر کے بعد ساتھ نہ سوئیں ۔ جاہل اوریا و ہارون کو اپنی ذہنی گندگی کا علاج کرانا چاہیئے ۔
ماں باپ اور بھائ بہن سے زیادہ قریبی کون ہوسکتا ہے اور جب اسلام اس پر واضح تعلیم دے رہا ہے کہ بیٹی باپ کیساتھ ایک خاص عمر کے بعد نہ سوئے اور بیٹا ماں کیساتھ نہ سوئے تو ان تمام کی تعلیم میں اوریا و ہارون نے شرم و غیرت و الحاد کیسے نکال لیا؟
ایک طرف اوریا و ہارون جیسے مشرقی جہلاء یہ کہتے ہیں کہ شادی کم عمر میں کروادی جائے تو جب ۱۸ تا ۲۰ کے درمیان جب شادی ہوگی تو آداب مباشرت لڑکا یا لڑکی ہارون الرشید سے پوچھیں یا اوریا سے ؟ اسکولوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کو الگ الگ بٹھا کر آگاہی دینی چاہیئے اور ماں باپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ بچوں کو کم ازکم ۲۰ سال تک “مغرب” کی نماز کے بعد باہر نہ جانے دیں اور اس عمر تک کڑی نظر رکھیں کہ کس عمر کے لوگوں میں اٹھ بیٹھ رہے ہیں اور کون کون گھر میں آرہا ہے ۔ حکم عدولی پر چھانٹے مار مار کر دماغ ٹھکانے کردیں اور یہ جو sleepover کا فیشن آیا ہے اس کی قطعا” گنجائش نہیں ماں باپ اپنے ساتھ ہی لیکر جائیں اور ساتھ لیکر واپس آئیں کہیں رات اکیلے نہ چھوڑیں ۔ ان کے چونچلے ہونگے اور بعد میں ہائے کرکے رہ جائیں گے ۔ باپ بیٹوں اور ماں بیٹیوں کے دوست بنیں ۔
بچوں کو بازار اکیلے نہ بھیجیں بلکہ خود گھر سے کوئ بڑا ساتھ جائے – ریاست کے ذمہ داری بعد میں ہے بچوں کی حفاظت اور تربیت کی پہلی ذمہ داری ماں باپ کی ہے اور ۲۰ سال کی عمر تک بچوں کے معاملے میں اپنے سائے پر بھی بھروسہ نہ کریں اور آجکل کے والدین بالکل ہی بے بہرہ ہیں اور خود بھی بنیادی شعور سے عاری ہیں مثلا” بچوں کے کپڑے لوگوں کی موجودگی میں ہی بدلنا شرع کرا دیتے ہیں جو کہ غلط ہے اور اسی طرح بچوں کو سب کے سامنے ڈالنا بھی غلط ہے ۔ الگ اور تنہائ میں ہونا چاہئئے اور جو کم عمر بچوں سے گھر پر کام لیتے ہیں تو اس ضمن میں عرض یہ ہے کہ یہ حالات اور غربت کا جبر ہے اور پاکستان فلاحی ریاست نہیں لہذا اور کچھ نہیں تو حکومت اتنا ضرور کرے کہ “صوبائ لیبر ڈیپارٹمنٹ” ایسے کم عمر ملازمین کو رجسٹر کرے اور ماہانہ سروے کرے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...