کردار:
عدنان: پانچویں جماعت میں زیرِ تعلیم ایک 10 سالہ لڑکا
فرمان: عدنان کا بڑا بھائی
ام عمارہ : عدنان کی ہم جماعت لڑکی
عدنان کی والدہ
عدنان کے والد
کھیل ٹیچر
سنہری پری
پردہ اٹھتا ہے۔
(منظر: صبح ہوچکی ہے لیکن عدنان ابھی تک اپنے بستر پر سویا ہوا ہے۔ اس کے والد لکھنے کی میز پر بیٹھے کچھ لکھ رہےہیں۔ اس کی والدہ چائے بنارہی ہیں۔ اچانک عدنان کے بڑبڑانے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ )
عدنان : نگیں۔۔۔ نگیں۔۔۔ مگیں۔۔۔ کھی ی ی ی ۔۔۔۔ اغپ۔۔۔۔ نگیں۔۔۔
(اچانک وہ جاگ اٹھتا ہے ۔ نیند سے بوجھل آنکھیں کھولنے کی کوشش کرتا ہے. امی کی نظر اس کی عجیب و غریب حالت پر پڑتی ہے تو وہ فوراً اس کے پاس پہنچ کر اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر اسے خود سے قریب کر لیتی ہیں.)
امی: کیا ہوا بیٹا ؟ ٹھیک تو ہو تم ؟
عدنان : کچھ نہیں امی۔۔
امی: لیکن بیٹا، تم نیند میں کچھ بڑبڑارہے تھے۔ کیا تمہیں ایکزام کی فکر ہے ؟
(عدنان اب تک اپنی آنکھیں کھول کر نارمل ہو چکا ہے، اپنی امی کے زانو پر بیٹھتے ہوئے)
امی، میں نے خواب دیکھا ہے ۔
امی : (فکرمندی سے) اللہ بچائے میرے بچے کو! بیٹا، یہ کوئی ڈراؤنا خواب تو نہیں تھا نا؟
عدنان : نہیں امی، بالکل نہیں، بلکہ میرے خواب میں ایک پری آئی… اتنی پیاری ۔۔۔ اتنی سندر ۔۔۔ کہ۔۔۔ کہ۔۔۔ بالکل تمہارے جیسی۔۔۔
امی : (ہنستے ہوئے)
اچھا؟ واہ رے بیٹا واہ! میرے پیارے بیٹے نے مجھے ہی پری بنادیا۔
عدنان: امی آپ تو اس پری سے بھی بڑھ کر ہیں. اور پھر وہ پری تو صرف خواب ہے اور آپ سچ میں میری پیاری امی ہیں۔ امی : (مسکراتے ہوئے)
اچھا بیٹا، یہ تو بتاؤ کہ تم نے خواب میں کیا دیکھا؟ پری نے تم سے کیا کہا؟
(عدنان خواب سنانا شروع کرتا ہے )
دوسرا منظر
فلیش بیک
(عدنان اپنے اسکول کے ایک گوشے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ )
اسکول کے کھیل ٹیچر کی آواز آتی ہے۔
کھیل ٹیچر:۔ بچو! سنو، دیکھو زیادہ دور جاکرمت کھیلنا۔ یہیں آس پاس کھیلو۔
بچے ایک ساتھ: جی سر۔۔۔
(بچے کھیلتے کھیلتے بے دھیانی میں اسکول گراؤنڈ کے ایسے حصےمیں چلے آتے ہیں جہاں کوئی آتا جاتا نہیں۔
اچانک روشنی کا ایک جھماکہ ہوتا ہے اور ایک خوبصورت پری نمودار ہوتی ہے۔ اس کے پر سنہری ہیں۔ اس کے دائیں ہاتھ میں سنہری رنگ کی جادو کی چھڑی ہے۔)
پری: آداب بچو!
(بچے گھبراجاتے ہیں۔ کچھ ڈر کے مارے بھاگنے لگتے ہیں جب کہ کچھ بہادر قسم کے بچے تھوڑی دوری سے حیرت بھرے انداز میں پری کی جانب دیکھتے ہیں۔)
پری: ڈرو مت بچو، اور مجھ سے یوں دور بھی مت بھاگو۔ سنو، پہلے میں تمہیں اپنا تعارف کروادیتی ہوں۔ میرا نام سنہری پری ہے۔
اور میں تمہارے لئے ایک مزیدار کھیل لے کر آئی ہوں۔
(دھیرے دھیرے بچوں کا تجسس بڑھ رہا ہے. وہ جو سنہری پری کے اردگرد جمع ہو جاتے ہیں ۔ )
سنہری پری: بچو! میں تمہارے لئے ایک پہیلی لے کر آئی ہوں۔ تم میں سے جو بھی بچہ اس کا صحیح جواب دے گا میں اسے پرستان کی سیر کرواؤں گی۔
عدنان: (ہمت جٹاکر )
پری دیدی پری دیدی، سچ میں آپ ہمیں پرستان کی سیر کروائیں گی؟
سنہری پری : ہاں ہاں، بالکل.. کوئی شک؟
عدنان : پھر تو میں ضرور اس پہیلی کا جواب ڈھونڈوں گا۔
آپ بتائیے تو سہی کہ وہ پہیلی کیا ہے؟ سنہری پری : (مسکراتے ہوئے)
پہیلی بہت آسان ہے : تمھیں یہ بوجھنا ہے کہ خدا کی چھتری کسے کہتے ہیں.
سب بچے ایک ساتھ : خدا کی چھتری؟ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے؟ ہم نے تو ایسی کسی چھتری کے بارے میں کبھی نہیں سنا.
سنہری پری : (ہنستے ہوئے) ہاں بھائی ہاں میں جانتی ہوں کہ تم نے خدا کی چھتری کا نام پہلے نہیں سنا۔
ام عمارہ: کم از کم کوئی اشارہ تو دو۔
سنہری پری: ارے امِ عمارہ، تم توبہت ہوشیار ہو ۔
ام عمارہ: (خوش ہو کر)
پری دیدی، تم میرا نام جانتی ہو ؟
سنہری پری: ہاں جی ہاں، کیوں نہیں ، بالکل، میں تم سب کے نام جانتی ہوں ، آخرکار میں پری جو ہوں۔ (ہنستے ہوئے) اچھا تو سنو, اشارہ یہ ہے کہ یہ زمین کی محافظ ہے۔
سب بچے ایک ساتھ: زمین کی محافظ؟ کیا یہ کوئی چیز ہے؟ یا کوئی شخص؟ یا کوئی۔۔۔۔۔۔
سنہری پری: اچھا تو لو میں چلی! میں کل آؤں گی. تب تک تم اپنا جواب تیار رکھنا ۔ جس کا بھی جواب درست ہوگا وہ میرے ساتھ پرستان جائے گا۔ اچھا، خدا حافظ!
(روشنی کا ایک جھماکہ ہوتا ہے ، پری نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ )
(فلیش بیک ختم ہو جاتا ہے۔ دوبارہ وہی منظر: عدنان اپنی امی کے پاس بیٹھا ہے)
عدنان : امی ! اب آپ ہی بتائیے کہ مجھے کیسے معلوم ہوگا کہ خدا کی چھتری کیا ہے ۔
امی: (سوچتے ہوئے) ہاں یہ بات تو ہے. اس کا جواب توفی الحال میرے ذہن میں بھی نہیں آرہا ہے ۔ تمہارے فرمان بھائی جان سے پوچھتے ہیں ۔
(امی فرمان کو آواز لگاتی ہیں۔)
فرمان بیٹے! ذرا یہاں تو آنا۔
(فرمان اسکول کی تیاری کر رہا ہے) فرمان: جی امی، ابھی آیا۔
(امی کے پاس آکر بیٹھ جاتا ہے)
جی امی، آپ نے بلایا؟ کیا بات ہے؟ امی : بیٹا، کیا تم خدا کی چھتری کے بارے میں کچھ جانتے ہو؟
فر مان: (حیرت سے سے) نہیں امی, میں نے تو یہ نام پہلی بار سنا ہے. یہ کیا ہے ؟
امی : بیٹا، میں خود نہیں جانتی لیکن یہ ایک پہیلی ہے جس کا اشارہ یہ ہے کہ یہ زمین کی محافظ ہے۔
فرمان: (ذہن پر زور ڈالتے ہوئے) نہیں امی، میں نہیں جانتا۔ کیوں نہ ہم ابو سے معلوم کریں۔
امی: (ہنستے ہوئے) بیٹا آخر میں تو ہم ان سے ہی پوچھتے۔ میں نے سوچا پہلے تم سے پوچھ لوں کہ شاید تمھیں معلوم ہو۔
(عدنان، فرمان اور ان کی امی، تینوں عدنان کے ابو کے پاس پہنچتے ہیں)
عدنان اور فرمان: السلام علیکم ابو! صبح بخیر ۔
ابو: وعلیکم السلام ، ماشاء اللہ ۔۔ آج تینوں ایک ساتھ! کوئی خاص بات؟
امی: ہاں جناب! اسی لئے تو ہم تینوں ساتھ آئے ہیں. ذرا ایک پہیلی تو بوجھیے۔
ابو: (حیرت سے) اچھا…. تم تینوں اپنے کام چھوڑ کر اور میرے کام میں رکاوٹ ڈال کر مجھ سے پہیلی بجھوانے آئے ہو۔ کمال ہے!
لیکن یہ اچانک پہیلی کہاں سےتمہارے ذہن میں آگئی؟
فرمان:نہیں ابو ایسی بات نہیں ہے ہے دراصل ہم اس پہیلی تک پہنچ نہیں پا رہے ہیں ۔
امی: ٹھہریے، میں آپ کو پوری بات بتاتی ہوں ۔ ( امی ابو کو عدنان کے خواب کا پورا قصہ سناتی ہیں لیکن پہیلی نہیں بتاتیں۔)
ابو: ( مسکراتے ہوئے) خیر چلو کوئی بات نہیں نہیں. بتاؤ،پہیلی کیا ہے ؟
فرمان : پہیلی یہ ہے کہ خدا کی چھتری سے کیا مراد ہے ؟
ابو: ہائیں! یہ کیا پہیلی ہوئی بھائی؟ ( سوچتے ہوئے) اچھا، کوئی اشارہ تو دو۔
امی: (ہنستے ہوئے) ہاں جناب! اب آپ کو بھی اشاروں کی ضرورت ہونے لگی۔ ( دونوں ہنستے ہیں)
اچھا جناب ، تو اشارہ سنیے: یہ زمین کی محافظ ہے ۔
ابو: اچھا بھائی، تم لوگ صبر سے بیٹھو. مجھے سوچنے کے لیے تھوڑا وقت دو. (تینوں خاموش بیٹھ جاتے ہیں. ابو سر جھکائے سوچنے لگتے ہیں. پھر اچانک پرجوش ہوکر مسکرانے لگتے ہیں.)
ابو : لو بھائی، مل گیا تمھاری پہیلی کا جواب!
)تینوں اچھل پڑتے ہیں)
تینوں ایک ساتھ : بتائیے، بتائیے، جلدی بتائیے کیا جواب ہے.
ابو : (ہنستے ہوئے) ارے بھائی، اتنے بے صبرے نہ بنو. صرف جواب جاننے سے کام نہیں چلے گا. پہلے اس کی وضاحت ضروری ہے.
امی : اچھا جناب.. لیکن ہمارے صبر کا زیادہ امتحان مت لیجیے گا. چلیے کیجیے وضاحت.
ابو : عدنان اور فرمان، اس پہیلی کا تعلق تمھارے اسکولی مضمون سے ہے. اور اس کا جواب بھی بہت آسان ہے.
عدنان : ہاں ابو، سنہری پری بھی یہی کہہ رہی تھی. لیکن اگر اس پہیلی کا جواب اتنا ہی آسان ہے تو پھر ہمیں کیوں نہیں سوجھ رہا؟
ابو : بیٹا، سب سے پہلے تو یہ سمجھ لو کہ پہیلیوں کا تعلق علم اور معلومات سے کم اور ہماری عقلِ سلیم یعنی کامن سینس اور طبیعت کی برجستگی سے ہوتا ہے.
عدنان : (بے صبری سے) ابو پلیز، اس کا جواب بتائیے نا. میں اسکول میں اپنے دوستوں سے اس پہیلی کا جواب پوچھوں گا. جب وہ نہیں بتا پائیں گے تو میں بہت ہنسوں گا. کتنا مزہ آئے گا! سب مجھ سے کہیں گے کہ 'عدنان، تم جیتے، ہم ہارے، اب بتاؤ اس پہیلی کا جواب. میں تو انھیں خوب چھیڑ وں گا اور پھر سنہری پری کے ساتھ پرستان کی سیر کو بھی جاؤں گا.
ابو : اچھا ٹھیک ہے، تو سنو! اس پہیلی کا جواب ہے : خدا کی چھتری سے مراد ہے اوزون پرت یعنی ozone layer
)تینوں چونک اٹھتے ہیں ان کے چہروں پر حیرت کے تاثرات گہرے ہیں.)
امی : اب آپ پہیلیاں بجھوانے لگے. صاف صاف بتائیے نا!
عدنان اور فرمان : ہاں ابو، ہم بات سمجھے نہیں کہ خدا کی چھتری کیسے ہوگئی یہ اوزون پرت!
ابو : ارے بھائی، بہت آسان بات ہے. ہماری زمین سورج کی تیز شعاعوں سے مقابلہ کرتی ہے. ان شعاعوں کو الٹرا وائلٹ شعاعیں کہا جاتا ہے.
عدنان : لیکن ابو، یہ ہمارے سوال کا جواب نہیں ہے.
ابو : ارے بھائی، ذرا صبر رکھو اور چپ چاپ سنو تو سمجھ جاؤگے. ہاں، تو ہم کیا کہہ رہے تھے؟ ہاں،. یہ الٹرا وائلٹ شعاعیں انسانوں اور دوسرے جانداروں کے لیے بہت نقصان دہ ہوتی ہیں.
فرمان : اچھا ابو، ان شعاعوں کے بارے میں دنیا کو کیسے اور کب معلوم ہوا؟
ابو : ہاں، تم نے یہ اچھا سوال کیا. 1913میں فرانسیسی سائنسدانوں چارلس فیبری اور ہنری بوساں نے اوزون پرت کا پتا لگایا تھا. خدا کی یہ چھتری یعنی اوزون پرت ہماری زمین سے تقریباً 15 سے 35 کلومیٹر کی اونچائی پر پائی جاتی ہے.
عدنان : (حیرت سے) واہ ابو، یہ تو بڑی دلچسپ معلومات ہے. اور نہایت مفید بھی. اس کے بارے میں اور بتائیے.
ابو : خدا کی چھتری سورج کی ان تیز اور نقصان دہ شعاعوں کو زمین تک پہنچنے سے روکتی ہے. اس لئے اسے زمین کا غلاف بھی کہتے ہیں. یہ سورج کی اوسط فریکوئنسی والی 97سے 99 فیصد الٹرا وائلٹ شعاعوں کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے. ان شعاعوں میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ یہ زمین کی سطح پر موجود ہر جاندار شئے کو نقصان پہنچا سکتی ہے.
فرمان : اوہو، پھر تو واقعی یہ خدا کی چھتری ہی ہے. ہمیں اس کے لئے خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے.
ابو : ہاں بیٹا بالکل درست لیکن جانتے ہو؟ انسان خود خدا کی اس چھتری کو توڑ رہا ہے.
تینوں ایک ساتھ : ہائیں! وہ کیسے؟ ایسا کرنے سے تو خود انسان کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی.
ابو : پڑ جائے گی نہیں، پڑ چکی ہے. یہ جو تم بڑے بڑے کارخانے اور فیکٹریاں، موٹر گاڑیاں، مشینیں و غیرہ دیکھتے ہو نا، ان سے نکلنے والا زہریلا دھواں اوزون پرت کو پتلا کررہا ہے، اس کی توڑ پھوڑ کررہا ہے. اسی لئے یہ اوزون پرت کہیں کہیں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آتی ہے.
عدنان : ابو، ہم انسانوں کو اس سے کیا کیا نقصانات ہوتے ہیں؟
ابو : ان الٹرا وائلٹ شعاعوں کی وجہ سے انسان جلد کے کینسر میں مبتلا ہوجاتا ہے. اس کی وجہ سے گلوبل وارمنگ میں لگاتار اضافہ ہورہا ہے. موسموں کا توازن بگڑ رہا ہے. ماحولیاتی توازن خراب ہورہا ہے. سورج کی حدت بڑھتی جارہی ہے اور موسمی چکر بھی بدل رہا ہے.
فرمان : اوہو ، یہ تو بہت خطرناک بات ہے. تو ہم خدا کی چھتری کو ٹوٹنے سے کیسے بچاسکتے ہیں ابو؟
ابو : اس کے لئے ہمیں مل جل کر کام کرنا ہوگا. کام آسان ہے لیکن اہم ہے. ہمیں موٹروں، مشینوں اور گاڑیوں کا استعمال کم سے کم کرنا ہوگا. کارخانوں اور فیکٹریوں کو بھی فضائی آلودگی کم کرنے پر غور کرنا ہوگا. اگر ہم نے وقت رہتے صحیح قدم نہ اٹھائے تو خدا کی یہ چھتری ہمارے درمیان سے ہٹ جائے گی اور پھر آگ اگلتے سورج اور زمین پر رہنے والے انسانوں اور دیگر جانداروں کے بیچ کوئی حفاظتی غلاف باقی نہیں بچے گا.
عدنان : بہت شکریہ ابو! آپ نے تو بہت کام کی باتیں بتائی ہیں. اب میں اسکول میں اپنے دوستوں کو بھی خدا کی چھتری کے بارے میں بتاؤں گا.
امی : ہاں جناب، ہماری طرف سے بھی شکریہ قبول کریں اور چلیں، ناشتے کا بھی وقت ہوگیا ہے. سب اپنی اپنی تیاریاں کرلیں.
ابو : اور ہاں عدنان، آج رات اگر سنہری پری خواب میں آکر پہیلی کا جواب مانگے تو جواب دینے کے ساتھ ساتھ اس کا شکریہ ادا کرنا نہ بھولنا اور اس سے یہ بھی پوچھنا کہ کیا پرستان کی سیر کے لئے میں اپنے بھائی اور والدین کو بھی ساتھ لے سکتا ہوں؟ کیوں کہ ہم نے بھی پرستان کبھی نہیں دیکھا.
(چاروں زور زور سے ہنستے ہوئے اپنے اپنے کام کی طرف بڑھ جاتے ہیں.)
پردہ گرتا ہے.