یہ آواز ایسی تھی جیسے توپ کے گولے چلے ہوں۔ ایسٹ انڈیا کا “بنارس” نامی بحری جہاز سلاویسی پر لنگرانداز تھا۔ انہیں شک گزرا کہ بحری قزاق قریب ہوں۔ یہاں سے سینکڑوں میل دور انڈونیشیا میں جاوا پر فوجیوں کو شک گزرا کہ قریبی شہر حملے کی زد میں ہے۔ انہیں کچھ نظر نہ آیا۔ بنارس کو بھی تین روز کی تلاش کے باوجود قزاق نظر نہیں آئے۔
جو انہوں نے سنا تھا، یہ گولے نہیں تھے، یہ ماوٗنٹ تانبورا آتش فشاں کا پھٹنا تھا۔ پانچ سو میل دور طوفان کی رفتار سے اس نے اس پہاڑ کو پگھلا دیا تھا۔ اس پہاڑ کی بلندی چار ہزار فٹ گھٹ چکی تھی۔ یہ سال گرمیوں کے بغیر تھا۔ دنیا بھر میں فصلیں تباہ ہو گئیں۔ لوگ بلیاں، چوہے اور گھاس کھانے پر مجبور ہو گئے۔ جرمنی میں ڈارمسٹاٹ کے قصبے میں تیرہ سالہ جسٹس وون لیبگ کو اس نے ایسی دریافتیں کرنے کا عزم دیا جو دنیا کی بھوک کم کر سکیں۔ لیبگ اپنے دور کی بڑے کیمسٹ بنے۔ ان کی ابتدائی تحقیق کھاد پر تھی۔ اس کے بعد انہیوں نے غذائی سائنس کی بنیاد رکھی جس میں غذا کا تجزیہ فیٹ، پروٹین اور کاربوہائیڈریٹ کی اصلاحات میں کیا جاتا تھا۔ انہوں نے بیف ایکسٹریٹ ایجاد کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیبگ نے ایک اور چیز 1865 میں ایجاد کی جو انسٹنٹ فارمولا تھا۔ یہ ایک پاوڈر تھا جو گائے کے دودھ، گندم کے آٹے، مالٹ اور پوٹاشئم بائی کاربونیٹ سے بنا تھا۔ یہ پہلا کمرشل فارمولا دودھ تھا جو سائنسی سٹڈی کے بعد بنایا گیا تھا۔
لیبگ کو معلوم تھا کہ ہر ماں بچے کو دودھ نہیں پلا سکتی۔ جدید میڈیسن سے پہلے سو میں سے ایک پیدائش میں ماں زندہ نہیں بچتی تھی۔ اس کے علاوہ کئی خواتین تھیں جن کا دودھ بچے کے لئے ناکافی تھا۔ ایک اندازے کے مطابق یہ تعداد بیس میں سے ایک کی ہے۔ اور اس کا مطلب بچوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔
فارمولا دودھ سے پہلے اتنے بچوں کے ساتھ کیا ہوتا تھا؟ جو والدین بہت امیر تھے، وہ دودھ پلانے والی دائی کی خدمات حاصل کر لیتے تھے۔ (یہ پیشہ لیبگ کی ایجاد نے ختم کر دیا)۔ باقی والدین بکری یا گدھی کا دودھ استعمال کرتے تھے یا ایک اور طریقہ روٹی کو پانی سے نرم کر کے کھلانے کا تھا۔ ایسے بچوں میں شرحِ اموات بہت زیادہ تھی۔ انیسویں صدی کے آغاز میں جو بچے ماں کا دودھ نہیں پی سکتے تھے، ان میں سے ایک تہائی اپنی پہلی سالگرہ تک زندہ نہیں رہتے تھے۔
لیبگ کی ایجاد ٹھیک وقت پر تھی۔ جراثیم کی تھیوری مقبول ہو رہی تھی۔ ربر کا نپل ابھی ایجاد ہوا تھا۔ محفوظ طریقے سے بچے کو دودھ پلانا ممکن ہو گیا تھا۔ اس ایجاد سے بہت زیادہ بچوں کی زندگیاں بچائی جا سکتی تھیں۔
لیبگ کی کمپنی نے اس سے زیادہ کام کیا۔ بہت امیروں کا لائف سٹائل عام آدمی تک پہنچا دیا۔ بہت امیر خواتین محنت سے بچنے کے لئے دائی کی خدمات لیتے تھیں، اب یہ طریقہ عام رسائی میں آ گیا۔
اس نے خواتین کے لئے ملازمت میں آسانیاں پیدا کر دیں۔ کام کرنے والی خواتین اور مردوں کی آمدنی میں فرق ہے۔ اور اس فرق کی سب سے بڑی وجہ ماں بننا ہے۔ کیونکہ اس وقت خواتین کام سے لمبی چھٹی لیتی ہیں اور یہ ان کی ترقی اور آمدنی میں فرق ڈالتا ہے۔ اس ایجاد نے اس میں بھی فرق ڈال دیا۔
سب سے بڑی بات۔ کیا چھوٹے بچوں کی زندگیاں بڑی تعداد میں بچانے والی ایجاد سے بہترین بھی کچھ ہو سکتا ہے؟
ایک مسئلہ ہے۔ فارمولا دودھ بچوں کے لئے اتنا اچھا نہیں۔ یہ ماں کے دودھ کا نعم البدل نہیں۔ یہ دودھ پینے والے بچے زیادہ بیمار ہوتے ہیں اور خاص طور پر ان ممالک میں، جہاں پر پانی محفوظ نہیں، یہ بچوں کی اموات کا باعث بنتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق آٹھ لاکھ اموات سالانہ کا۔ اگرچہ اس سے بچنے والی جانوں کی تعداد اس سے خاصی زیادہ ہے لیکن جسٹس وان لیبگ جنہوں نے یہ ایجاد بچوں کی زندگیاں بچانے کے لئے کی تھی، ان کے لئے یہ اعداد و شمار بہت مایوسی کا باعث ہوتے۔
اس کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ فارمولا دودھ پینے والے بچوں کا اوسط آئی کیو معمولی سا کم ہے۔ باقی تمام فیکٹرز کو کنٹرول کر کے یہ تین پوائنٹ کا فرق ہے۔
اور یہ پبلک پالیسی کا درد سر ہے۔ ماں کا دودھ پلانے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ لیکن فارمولا دودھ بیچنا مالیاتی طور پر پرکشش ہے۔ اس کے اشتہارات چلتے ہیں۔ اور یہ متنازعہ رہے ہیں۔ فارمولا دودھ تمباکو سے زیادہ نشہ آور ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اگر ماں دودھ پلانا چھوڑ دے تو یہ ختم ہو جاتا ہے اور یہ واپس نہیں آتا اور پھر اسے پلانے کے سوال کوئی دوسرے چوائس نہیں رہتی۔
اس پر تنازعہ 1970 کی دہائی میں عروج پر پہنچ گیا۔ نیسلے کے خلاف تحریک شروع ہوئی۔ کئی جگہ پر اس کا سالوں تک بائیکاٹ کیا گیا کہ یہ اشتہارات کے ذریعے بہت غیرذمہ داری سے فارمولا دودھ کے استعمال کی ترغیب دے رہا ہے اور 1981 میں اس دودھ کی مارکٹنگ کا بین الاقوامی کوڈ آیا۔
ہر سال بڑی تعداد میں بچوں کی جان بچانے والی، بچوں کی جان لینے والی، کرائے پر دودھ پلانے کا پیشہ ختم کر دینے والی اور بہت سے والدین کی زندگی آسان کر دینے والی یہ ایجاد معاشرتی زندگی کا حصہ رہے گی۔ کیا یہ فارمولا مزید بہتر ہو سکے گا؟ کوئی اور متبادل مل سکے گا؟ یہ آسان تو نہیں لیکن اس پر بھی کوشش کی جاتی رہے گی۔