نعمان اور عثمان دونوں بچپن کے دوست تھے اور دونوں ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے ،دونوں میں دوستی اس قدر تھی کہ وہ سوائے رات کے سونے کے باقی ہر وقت اکٹھے ہوتے،غرض سکول جانا،سپارہ پڑھنا،مسجد جانا،کھیلنا کودنا سب اکٹھے ہی تھا۔
عثمان کے ابو دیہاڑی دارمزدور تھے جبکہ عثمان کے ابو درمیانے درجے کے سرکاری ملازم تھے۔ نعمان کی اچھی عادت تھی ان کے گھر جب بھی کچھ اچھا پکتا تو وہ اپنی اماں سے لیکر عثمان کے گھر دینے جاتا ،عثمان کے گھر کبھی کبھار کچھ ایسا اچھا پکتا تو وہ بھی نعمان کے گھر دینے جاتا ۔دونوں کی دوستی مثالی تھی اور دونوں پڑھائ میں بھی قابل تھے یہی وجہ تھی کہ نعمان کے گھر والے عثمان کے ساتھ گھومنے پھرنے یا پڑھنے پہ اعتراض نہیں کرتے تھے۔ دونوں نے جب پرائمری کلاس پاس کی تو ششم کلاس میں دوسرے سیکشن سے ایک اور گاؤں کا لڑکا ندیم بھی ان کی کلاس میں داخل ہو گیا ندیم کے والد بھی سرکاری ملازم تھے اور وہ نعمان کے ہم پلہ تھے۔ندیم نے جب کلاس میں عثمان اور نعمان کی دوستی کے چرچے سنے تو اسے حسد ہونے لگ گیا۔
ندیم کی ویسے بھی غلط عادت تھی کہ وہ چغل خوری کرتا ،بات ہوتی یا نہ ہوتی وہ اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ،اسے اچھا نہیں لگتا تھاکہ نعمان اور عثمان اکٹھے رہیں اس نے اپنی عادت کی وجہ سے ان دونوں کو الگ الگ کرنے اور نعمان سے اپنی دوستی کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ نعمان ایک دن اکیلا اسے مل گیا ۔ندیم نے عثمان کو ساتھ نہ پا کر فوری اپنے منصوبے پر عمل درآمد شروع کر دیا ۔ "نعمان یار کیسے ہو ؟" "ندیم اللہ کا کرم ہے۔
آپ سناؤ؟" "نعمان یار میں آپ کی طرف ہی جا رہا تھا آپ کو بلانے کے لیے ،میں نے آپ کے بریانی کا اہتمام کرایا ہے امی سے کہہ ہےآپ شام کو مغرب سے تھوڑا پہلے گھر آئیے گا۔مجھے انتظار رہے گا ۔۔۔اور ہاں وہ عثمان کومت ساتھ لانا " "ندیم یہ کیا کہہ رہے ہو؟عثمان میرا اچھا دوست ہے میں اس کے بغیر نہیں آ سکتا" ندیم نے فوری غلط فہمی پیدا کرتے ہوئے کہا "مجھے تو اس کے آنے پہ کوئ اعتراض نہیں ہے مگر ۔۔۔۔۔۔۔!" "مگر کیا۔۔۔۔۔؟بتاؤ نہ مگر کیایے؟نعمان اس کے کاندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے فوری پوچھتے ہوئے کہا۔ "نعمان یار چھوڑو اس بات کو آپ کو کب یقین ہونا ہے میری بات پہ۔۔" "ندیم بتاؤ کیوں تجسس پیدا کر رہے ہو" "نعمان بھائ مجھے عثمان ملا تھا کچھ دیر پہلے آپ کا اس سے پوچھا تو اس نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا میں کون سا اس کا منشی لگا ہوا ہوں۔۔" میں نے مزید اس سے ناگواری کا پوچھا تو عثمان کہنے لگا 'مجھے اچھا نہیں لگتا ک ہر وقت نعمان میرے ساتھ چمٹا رہے،میں اس کی عادتوں کو اب پسند نہیں کرتا آپ مجھے اکیلے کو بلانا آپ بہت اچھے ہو۔" "نعمان میں عثمان کی باتیں سن کر چکرا گیا کہ ایک مزدور کا بیٹا کیا کہہ رہا ہے؟اچھا چھوڑو ابھی ان فضول باتوں کو شام کو آنا اور بھی اس کی باتیں بتاؤں گا" ندیم نے اپنا کام کر دکھایا اور چلا گیا۔نعمان کا دماغ سائیں سائیں کرنے لگ گیا اسے یوں لگا جیسے کسی مکان کی چھت اس پر ان گری ہےاور اس کے ہوش و حواس اس کا ساتھ نہیں دے رہے۔وہ بھاری قدموں کے ساتھ گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔وسوسے اس کے دماغ میں چلنے لگ گئے ،وہ ہمکلام ہوتا رہا کہ ندیم واقعی درست کہ رہا ہے عثمان غریب گھر سے ہے ندیم ہمارا ہم۔پلہ ہے اور عثمان اس بات سے جلتا ہے کہ ندیم اور میں دوست نہ بن جائیں۔ نعمان نماز عصر کے بعد ندیم کے گھر گیا تو وہاں ندیم کے اور کزن بھی ساتھ والے گاؤں سے آئے ہوئے تھے۔
ندیم کے گھر میں شاندار بریانی پکی ہوئی تھی سب نے مل کر خوب کھائ ،بعد ازاں کیرم بورڈ کھیلتے رہے،کافی وقت گزارنے کے بعد ندیم اور ان کے کزن مل کر نعمان کو اس کے گھر چھوڑنے گئے۔ اگلے دن عثمان مسجد کے سامنے ندیم کو مل گیا اس نے کہا عثمان سوری یار رات آپ کو بلانے لگا تھا مگر نعمان نے باتوں باتوں میں منع کردیا کہ عثمان کو مت بلائیں،میں نے نعمان سے وجہ پوچھی تو اس نے کہا۔کہ عثمان ہمارے ہم پلہ نہیں ہے مجھے اب اچھا نہیں لگتا کہ وہ ہمارے ساتھ گھومتا پھرے ،ان کے گھر کبھی اچھا نہیں پکتااور نہ ہی ان کے گھر کھیلنے کے لیے کچھ ہے۔۔۔ندیم باتیں کرتا جا رہا تھا اور وہ باتیں عثمان کے دل اور دماغ پر ہتھوڑے کی مانند ضربیں لگا رہیں تھیں۔اس نے سوچا واقعی نعمان سچ کہتا ہے ہم غریب لوگ ہیں اور وہ امیر زادہ ہے اور اسے اب واقعی اچھا نہیں لگتا ویسے بھی ہمارے گھر کون سا ایسے پکوان پکتے ہیں جو اس کے لیے اچھے ہوں۔عثمان کے اندر احساس کمتری نے سر اٹھا لیا اور عثمان کا سر جھکتا گیا آنکھیں نمناک ہو گئیں۔اور اپنے قدموں کو گھسیٹتا ہوا گھر کی طرف چلا گیا ۔۔اس نے طے کر لیا تھا کہ اب وہ نعمان کے ساتھ نہیں گھومے پھرے گا بلکہ الگ سے مسجد ،سکول جائے گا ۔رات بھر عثمان بے چین رہا ،وہ صحیح طریقے سے سو بھی نہیں پایا ۔صبح سکول جاتے ہوئے اس نے گلی بدل لی۔ادھر نعمان بھی عثمان کا انتظار کیے بغیر سکول پہنچا تو عثمان پہلے ہی پہنچا ہوا تھا ۔دونوں نے اپنے اپنے بستے دور دور رکھے اور الگ الگ بیٹھے۔
استاد نصیر نے محسوس کیا کہ یہ دونوں کافی دنوں سے ایک دوسرے سے دور بیٹھتے ہیں جبکہ یہ دونوں مثالی دوست تھے۔ماسٹر صاحب نے دونوں کو اپنے پاس بلایا اور ناراضی کا سبب پوچھا ،دونقں طرف سے جب بات سامنے آئی تو پتہ چلا یہ دونوں بے قصور ہیں ان دونوں کے درمیان ندیم نے غلط فہمیاں پیدا کی ہیں۔ندیم نے محض قربت کی خاطر دونوں کے درمیان دوریاں پیدا کی ہیں۔ماسٹر صاحب نے دونوں کے درمیان صلح کرا دی۔ استاد محترم نے دونوں کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ جب بھی کو تیسرا دو دوستوں کے درمیان نفرت کی بات کرے تو دوستوں کو جذباتی ہونے کی بجائے اس بات کی اپنے ساتھی سے تصدیق کرلینی چاہئیے تاکہ ایسی نوبت نہ آئے جس میں سالہا سال کی دوستی میں دراڑ آجائے اور وہ دوست ایک دوسرے سے دور ہوجائیں۔
ماسٹرصاحب نے مزید کہا کہ یاد رکھو محبت اور نفرت کے لیے ایک جیسا ہی وقت لگتا ہے بہتر یہی ہے کہ وہی وقت محبت پر خرچ کیا جائے۔ غلط باتوں پر جذباتی ہونے کی بجائے مل بیٹھ کر ایس دوسرے سے وہ بات ڈائریکٹ ڈسکس کرلینی چاہئیے تاکہ بدگمانی جیسا مکروہ عمل پیدا نہ ہو سکے ۔ پیارے بچوں اس کہانی کا مقصد بھی یہی ہے کہ غلط فہمیاں پیدا کرنے اور سننے سے بچو،اور چھوٹے موٹے معاملات پر لڑائ،خفگی کی بجائے مل بیٹھ کر اس کی تصدیق کر لینی چاہئیے اور اسے دل میں رکھنے کی بجائے ختم کر دینا چاہئیے۔ہمارے آقا نے ایسے برے عمل کو ناپسند فرمایا ہے