(Last Updated On: )
علامہ اقبال کی شاعری کا بنیادی مرکز اُن کا فلسفۂ خودی ہے ۔ اقبال نے خودی کے فلسفے کو جس انداز میں پیش کیا اس سے پہلے کسی اور مفکر نے اس کو اس انداز سے پیش نہیں کیا تھا۔ اقبال سے پہلے خودی کے مطلب کو غرور‘ تکبرا ور فخر کے معنی میں لیا جاتا تھا۔اقبال کے خودی کے تصور نے فلسفیانہ اور مذہبی افکار کو نہ صرف نئی جہت عطا کی ہے بلکہ اس کے ساتھ آئندہ نسلوں کو عملی انداز نظرسے بھی نوازا ہے۔ اقبال نہ صرف منزل کا تعین کرتے ہیں بلکہ اُس منزل کے حصول میںوہ ہمارے لئے راستے کا تعین بھی کرتے ہیں۔ فرد کی انفرادیت پر مبنی ان کے فلسفۂ خودی کا اطلاق پوری مسلم اُمہ کی اجتماعی زندگی پر بھی ہوتا ہے۔ وہ اس بات کے مدعی ہیں کہ فرد کی انفرادیت اور یکتائی کی نشوونما جس طرح اسلام کے دائرے میں ممکن ہے یہ بالعموم ہر اُس صورت سے کہیں بہتر ہے جس کا تصور کیا جا سکتا ہو۔
علامہ اقبال نے بانگِ درا میں بچوں کے لئے جو سات نظمیں لکھی ہیں اُن میں سے ایک نظم جس کا عنوان ’بچے کی دُعا‘ ہے ‘ میں اقبال نے جس خوبصورت انداز سے خودی کا مطلب سمجھایا ہے وہ بے مثال ہے۔ یہ نظم در حقیقت ایک انگریز شاعرہ مٹیلڈ ابٹیھم ایڈورڈز (۱۹۱۹ء ۔۱۸۳۶ء) کی نظم A Child's Hymnسے ماخوذ ہے ۔ اقبال نے بچوں کے لئے نظمیں جن شعراء سے اخذ کیں اُن میں یہ واحد شاعرہ تھی جو اُس زمانے میں زندہ تھی۔ ابتدائی طور پر اس نظم کے دس اشعار تھے لیکن چار اشعار حذف کر دئیے گئے۔ جب ۱۹۲۴ء میں بانگِ درا کی اشاعت ہوئی تو اُس میں چھ اشعار تھے۔
اگر نظم کے اشعار پر غور کریں تو ان میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتدا ء میں بچہ دُعا مانگتا ہے کہ ـ’زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری‘جبکہ نصف نظم میں یہ دُعا کچھ ایسا رُوپ دھارتی ہے ’زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب‘ ۔ یعنی جس معبود کو بچے نے شروع میں ’خدایا‘ کہہ کر پکارا تھا وہ نظم کے وسط میں آ کر ’یارب‘ کہلاتا ہے۔ یعنی یہ خودی کے مراحل ہیں جو لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہو رہے ہیں۔ دلچسپ بات اس نظم میں یہ ہے کہ وہی بچہ جو معبود کو نظم میں پہلے ’خدایا ‘ اور پھر ’یارب‘ پکارتا ہے نظم کے اختتام پر معبود سے اس طرح دُعاگو ہے ’مرے اللہ! بُرائی سے بچانا مجھ کو‘ ۔ یہ خودی کی تعمیر کے پہلو ہیں کہ معبود کو کیسے پہچانا؟ یہ دُعا کسی منزل کی نشاندہی ہے جو مختلف راستوں سے گزرنے کے بعد حاصل ہوئی ۔نظم کے آغاز پر جب بچہ لفظ ’خدایا‘ کہتا ہے تو وہ جس ہستی کو پکارتا ہے اُس کا ذاتی نام نہیں بلکہ معبود کے لئے ایک تصوراتی استعارہ ہے۔ نظم کے درمیانی حصہ میں جب بچہ ’یارب‘ پکارتا ہے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اب اُس کو پہلے سے زیادہ شعور حاصل ہوتا ہے اور وہ اُس ہستی کو جسے وہ معبود سمجھتا ہے اب اپنے مالک اورآقا کے روپ میں دیکھتا ہے اور نظم کے اختتام پر وہ اپنے معبود کو جس نام یعنی ’مرے اللہ ‘ کہہ کر پکارتا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اب اُس معبود کے نام سے آگاہ ہو چکا ہے جسے اُس نے شروع میں ’خدایا‘ اور نصف میں ’یا رب‘ کہہ کر پکارا تھا اس لئے وہ اُس ہستی کے ذاتی نام سے بہرہ ور ہو جاتا ہے۔ وہ ہستی خالقِ کائنات ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نام کی معرفت حاصل کرنے کے لئے بچہ اپنے شعور کے اعتبار سے اُسے پہلے پہل دوسرے ناموں سے پکارتا رہا اور جب اُس ہستی کے ذاتی نام کا ادراک اُسے ہوا تو اُس نے خالق کو ’مرے اللہ‘ کہہ کر پکارا جس سے پتہ چلتا ہے کہ خودی کے مختلف مراحل ہیں اور جیسے جیسے یہ پختہ ہوتی ہے تو منزل پا لیتی ہے۔
قرآن پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایک واقعہ کچھ اس انداز سے آیا ہے کہ جب انھوں نے روشن ستارہ دیکھا تو اس کی طرف اشارہ کر کے دریافت کیا : کیا یہ میرا رب ہو سکتا ہے جس کی پرستش میری قوم کر رہی ہے لیکن جب کچھ دیر بعد وہ ستارہ ڈوب گیا جو اس بات کی ایک واضح دلیل تھی کہ یہ رب نہیں ہو سکتا ۔اسی طرح جب چاند کی طرف اشارہ کرکے وہی سوال دہرایا۔ جب صبح کے نزدیک چاند بھی چھپ گیا تو یہ بھی اُس کے رب نہ ہونے کی ایک واضح دلیل تھی۔ اس کے بعد جب سورج طلوع ہوا اور اپنی پوری آب و تاب سے روشنی بکھیرنے کے بعد شام کو غروب ہوا تو حضر ت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ میری قوم کا یہ بڑا خدا بھی اپنی اصلی حالت پر قائم نہیں رہ سکا لہٰذا یہ میرارب کیسے ہو سکتا ہے؟ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ اشیاء ڈوبتی اور ابھرتی نظر آئیں تو انہوں نے اصل الاصول کی طرف راہ پالی کہ خالق ان چیزوں جیسا نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ان میں سے کسی سے اُس کو نسبت ہو سکتی ہے۔ رب تو وہ ہے جس کو زوال نہیں۔ اقبا ل اس واقعہ کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
مذکورہ بالا اس واقعے کو اگر دیکھا جائے اور ’بچے کی دُعا‘ میں اللہ کی ذات تک پہنچنے کے مراحل پر غور کیا جائے تو کچھ باتیں مشترک نظر آتی ہیں۔ یعنی جب بچہ یہ دعا مانگتا ہے کہ ’زندگی شمع کی صور ت ہو خدایا میری‘ تو وہ یہ تمنا کرتا ہے کہ اُس کی زندگی شمع کی صورت ہو۔ اگلے شعر میں بچہ کہتا ہے کہ اُس کے دم سے دنیا کا اندھیرا دُور ہو جائے اور اُس کے چمکنے سے ہر جگہ اجالا ہو جائے۔ جس سے یہ واضح ہو جا تا ہے کہ وہ جس شمع کی صورت اختیار کرنا چاہتا ہے وہ تو محض ایک شے کا نام ہے جبکہ اُس کا اصل مقصد روشنی بن جا نا ہے تاکہ وہ بھٹکے ہوئے لوگوں کی صراطِ مستقیم پر راہنمائی کر سکے۔ لیکن روشنی بھی اُسے دکھائی دیتی ہے جس کے پاس آنکھیں ہوں۔ جیسا کہ حضر ت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کی ذات کو پہچانا تھا۔ حتیٰ کہ ستارے ‘ چاند اور سورج تو روز ہی آتے جاتے تھے لیکن باقی لوگ اُس پہلو سے نہ رب کو پہچان سکے جیسے انہوں نے پہچانا۔
یعنی اُن کے دل کی آنکھ کھل گئی جو کہ اسمِ ذات کی آماجگاہ ہے اور خودی کا مرکز بھی‘ جیسا کہ حدیث ہے کہ ’مَیں کہیں نہیں سماتا ‘ سوائے بندۂ مومن کے دل کے‘۔ جب بندۂ مومن اُس ذات کو پا لیتا ہے تو اُس کی نظر حقیقت شناس ہو جاتی ہے۔ اقبال نے براہیمی نظر کو ایمان و ایقان کے نور اور یزداں شناسی کے اس جذبے سے تشبیہہ دی ہے جو ظلمت و عصیاں کے ہزار پردوں کے باوجود خالقِ حقیقی کو پہچان لیتا ہے۔
نظم کے اختتام پر بچہ دُعا مانگتا ہے کہ اے اللہ مجھے برائی سے بچانا اور نیک راستے پر چلانا۔ یہی پوری دعا کا خلاصہ بھی ہے یعنی کہ ہر طرح کی برائی سے بچنا اور نیک عمل کرنا۔ سورہ فاتحہ کی آخری آیات کے مفہوم پر غور کیا جائے تو اُس میں بھی یہی دُعا ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے ذریعے اُمتِ محمدی کو سکھائی کہ ہمیں ’ہمیں سیدھا راستہ دکھا ۔ اُن لوگوں کا راستہ جن پر تیرا انعام ہوا نہ کہ اُن لوگو ں کا جن پر تیرا غضب ہوا‘‘۔
خودی کا لفظ مختصر لیکن معنوی اعتبار سے نہایت جامع ہے۔ علامہ اقبال نے اس اصطلاح کو اپنے کلام میں شعورِ ذات کے معنوں میں استعمال کیا ہے جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام پہلوئوں پر محیط ہے۔ اسرارِ خودی میں اقبال نے خودی کے تین مراحل بیان کیے ہیں۔ پہلا مرحلہ اطاعت‘ دوسرا ضبطِ نفس اور تیسرا نیابتِ الہٰی ہے۔ پہلے مرحلے میں اطاعت سے مراد اطاعت خداوندی ہے جس میں معبود کو پہچان کر اس کے احکام کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ اپنے لئے روشنی بھی درکار ہے درمیانی مرحلہ ضبطِ نفس ہے۔ ایک حدیث ہے کہ ’جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اُس نے رب کو پہچان لیا‘‘ ۔ اسی لئے نظم کے درمیانی حصہ میں بچہ سے کہلوایا گیا کہ ’زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب‘‘ اور خودی کا آخری مرحلہ نیابت الہٰی ہے جس میں مردِ مومن صفاتِ الہٰیہ کا حامل اور مقصودِ کل ہو جاتا ہے۔ ’بچے کی دُعا‘ میں اقبال نے انھیں مراحل کو بڑے خوبصورت انداز سے پیش کیا ہے۔ مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کو چھوڑ کر کسی اور کا رُخ کرے۔ قرآن مجید میں اللہ نے فرمایا’’الیس اللہ بکاف عبدہ‘‘یعنی کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے؟ خدا کو چھوڑ کر اہلِ دنیا سے امید وابستہ کرنا اقبال کے ہاں کفر کے مترادف ہے وہ خود فرماتے ہیں:
یہاں مضمون کے آخر میں ’بچے کی دُعا‘ سے اشعار پیش کیے جا رہے ہیں تاکہ قارئین کو اس نظم میں اقبال کا تصورِ خودی اور خودی کے مراحل کا بآسانی اندازہ ہو سکے۔
اس نظم کے متروکہ اشعارقارئین کی دلچسپی کے لیے درج ذیل ہیں:
میری خوشبو سے معطر ہو زمانہ سارا
بن کے بلبل ہو مرے حسن پہ دنیا شیدا
علم دنیا کے چمن میں ہو اگر گل کی طرح
میں چہکتا رہوں اس پھول پہ بلبل کی طرح
دُکھ اٹھائے مرے ہاتھوں سے نہ جاں دار کوئی
اے خدا! عمر اسی طرح بسر ہو میری
دُکھ بھی آجائے تو دل ہو نہ پریشاں میرا
شکر ہر حال میں ہو میری زباں پہ تیرا
اس نظم میں اقبال نے جس طرح خودی کی تعمیر کے پہلوئوں کو اُجاگر کیا ہے بچوں کے لئے بڑ ی اہم دُعا ہے ۔لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اب سکولوں میں یہ نظم بچوں کی صبح کی نشست سے خارج کر دی گئی ہے ۔ سوائے چند سکولوں کے طلباء و طالبات‘ اب اس نظم کے بار ے میں ہماری نسلِ نو آشنا نہیں ہے۔